اب سورت الانفتار شروع کریں گے۔
سورت الانفتار کا نام اس کی پہلی آیت کے لفظ "انفَطَرَتْ" سے ماخوذ ہے۔ الانفتار مصدر ہے جس کے معنی پھٹ جانے کے ہیں۔ اس نام کا مطلب ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں آسمان کے پھٹ جانے کا ذکر ہے۔ سورت الانفتار اور سورت التکویر کا مضمون ایک دوسرے سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں سورتیں قریب قریب ایک ہی زمانے میں نازل ہوئی ہیں۔ اور مسند احمد میں ترمزی میں اور طبرانی حاکم انکی روایات ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد بیان کیا کہ جو شخص چاہتا ہے کہ وہ روزِ قیامت کو اس طرح دیکھ لے جیسے آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے تو وہ سورت الانفتار ، سورت التکویر، اور سورت انشقاق کو پڑھ لے۔
اعوذ با اللٰہ من الشیطٰن الرجیم
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيم

إِذَا السَّمَاءُ انفَطَرَتْ
*جب آسمان پھٹ جائے گا۔*

وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انتَثَرَتْ
*اور جب ستارے گِر کے بکھر جائیں گے۔*

وَإِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ
*اور جب سمندر ابھر کے بہہ جائیں گے۔*

وَإِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَتْ
*اور جب قبریں زیر و زبر کر دی جائیں گی۔*

ان آیات میں قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر فرمایا جا رہا ہے کہ آسمان پھٹ جائے گا، اس میں دراڑیں اور شگاف نمودار ہو جائیں گے۔ ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرنے لگیں گے۔ سمندر جو آج ساکن ہیں وہ دریاؤں کی طرح بہنے لگیں گے۔ وہ غیر مرئی بند جو ایک سمندر کو آج دوسرے سمندر میں غلط ملط نہیں ہونے دیتے وہ ٹوٹ جائیں گے اور سمندروں کا پانی بہنا شروع ہو جائے گا۔ قبروں کو الٹ پلٹ کے رکھ دیا جائے گا۔ ان میں جو لوگ دفن ہیں وہ باہر نکل آئیں گے۔
اس میں "انفطار" پھٹ جانا ہے اور "انتشار" بکھر جانا ہے۔ "تفجیر" بہہ جانا ہے اور بُعْثِرَتْ زیر و زبر ہونا ہے۔
سورت التکویر میں فرمایا گیا ہے، کہ سمندروں میں آگ بھڑکا دی جائے گی اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ سمندروں کو پھاڑ دیا جائے گا۔ تفہیم القران میں اس کو واضح کیا گیا ہے۔ دونوں آیتوں کو انہوں نے کہا ہے کہ ملا کر دیکھا جائے اور یہ بات بھی دیہان میں رکھی جائے کہ قرآن کی رو سے قیامت کے روز ایسا زبردست زلزلہ آئے گا جو کسی ایک علاقے تک محدود نہیں ہو گا۔ بلکہ پوری زمین بیک وقت ہلا کر رکھ دی جائے گی۔

سمندروں کے پھٹنے اور ان میں آگ بھڑک اٹھنے کی کیفیت ہماری سمجھ میں یہ آتی ہے کہ پہلے اس عظیم زلزلے کی وجہ سے سمندروں کی تہہ پھٹ جائے گی۔ اور اسکا پانی زمین کے اس حصے میں اترنے لگے گا جہاں ہر وقت ایک بے انتہا گرم لاوا کھولتا رہتا ہے۔ پھر اس لاوے تک پہنچ کر پانی اپنے ان دو ابتدائیہ جزاء کی شکل میں تحلیل ہو جائے گا جن میں سے ایک آکسیجن یعنی جلانے والی اور دوسری ہائڈروجن بھڑک اٹھنے والی ہے۔ یوں تحلیل اور آتش افروزی کا ایسا مسلسل رد عمل شروع ہو جائے گا جس سے تمام سمندروں میں آگ لگا دی جائے گی۔
تفہیم القران میں یہ فرماتے ہیں کہ یہ تو ہمارا قیاس ہے باقی صحیح علم اللہ تعالی کو ہی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رحمة الله فرماتے ہیں کہ سمندروں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ حسن بصری رحمة الله فرماتے ہیں کہ سمندروں کا پانی خشک ہو جائے گا۔ قتادہ رحمة الله فرماتے ہیں کہ ان کا میٹھا اور نمکین پانی آپس میں مل جائے گا۔ کلبی رحمة الله کا قول ہے کہ ان کو پانی سے بھر دیا جائے گا۔ ابن عباس رحمة الله فرماتے ہیں کہ جب قبریں زیروزبر کر دی جائیں گی تو قبروں کو کھول دیا جائے گا۔ سدی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ ان قبروں کو الٹ پلٹ دیا جائے گا اور ان سے مُردوں کو نکال لیا جائے گا۔


*عَلِمَتۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ وَ اَخَّرَتۡ ؕ﴿۵﴾*
( اس وقت ) ہر شخص اپنے آگے بھیجے ہوئے اور پیچھے چھوڑے ہوئے ( یعنی اگلے پچھلے اعمال ) کو معلوم کر لے گا ۔

یہاں قیامت کے حالات کا کچھ ذکر کرنے کے بعد فرمایا جا رہا ہے کہ اس وقت ہر انسان جان لے گا کہ اس نے کیا آگے بھیجا تھا اور کیا پیچھے چھوڑا تھا ۔ آگے بھیجنے سے مراد اس پر عمل کر لینا ہے جوحکم ہوا اور پیچھے چھوڑنے سے مراد ترکِ عمل ہے۔ تو قیامت کے دن ہر شخص جان لے گا کہ اس نے کیا کیا نیک و بد اعمال کر لئے اور نیکی و بدی میں سے کیا کیا چھوڑ دی۔
اور یہاں یہ معارف القرآن میں بتایا جا رہا ہے تو یہاں یہ بھی بتایا جا رہا ہے اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ آگے بھیجے ہوئے اعمال سے مراد وہ عمل ہوں جو اس نے خود کیئے خواہ نیک ہوں یا بد اور پیچھے چھوڑنے والے اعمال سے مراد وہ عمل جن کو اس نے خود تو نہیں کیا لیکن اس کی رسم دنیا میں ڈال گئے۔ اگر وہ نیک کام ہیں تو ان کو ثواب اچھا ملتا رہے گا اور برے ہیں تو اس کی برائی اس کے اعمال نامہ میں لکھی جاتی رہے گی۔

جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جس شخص نے اسلام میں کوئی اچھی سنت اور طریقہ جاری کرایا اس کا ثواب ہمیشہ اس کو ملتا رہے گا اور جس نے کوئی بری رسم اور گناہ کا کام دنیا میں جاری کیا تو جب تک لوگ اس برے کام میں مبتلا ہوں گے اس کا گناہ اس شخص کیلئے بھی لکھا جاتا رہے گا۔
ضیاء القرآن میں اس کو اس طرح بتایا جا رہا ہے کہ اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ
جس کے مطابق اس کا ترجمہ یہاں پہ کیا گیا ہے ،
کہ جو اعمال، عبادات، صدقات اس نے آج کے دن کیلئے یہاں بھیج دیئے ان کا بھی اس کو پتہ چل جائے گا اور جن نیک کاموں کی اس نے بنیاد رکھی تھی دنیا میں اس کے دخصت ہونے کے بعد اس کے نیک نتائج طویل مدت تک ان پر مرتب ہوتے رہے ان سے بھی اسے آگاہ کر دیا جائے گا۔ اسی طرح جن برے کاموں کے اس نے بیج بوئے تھے ان سے جو گمراہیاں پھیلیں، اخلاق و کردار میں جو بگاڑ پیدا ہوا اس کا بوجھ بھی اس کی گردن پر لادا جائے گا اور یہاں ضیاءالقرآن میں بتایا جاتا ہے کہ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جن احکامِ الٰہی کی اس نے تعمیل کی اور جن کی بجا آوری سے وہ پیچھے رہ گیا ان سب کا اس کو علم ہو جائے گا۔

اس کا یہ مطلب بھی بتایا گیا ہے کہ جو کام اس نے ابتدائی زندگی میں کئے اور جو بعد میں کئے سب کے سب اس کے سامنے پیش کر دیئے جائیں گے۔ تفہیم القرآن میں بھی اس حوالے سے ان آیات کی اس طرح تفسیر کی گئی ہے کہ :
ٌ مَّا قَدَّمَتۡ وَ اَخَّرَتۡ ؕ﴿۵﴾
ان الفاظ کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں اور وہ سب یہاں مراد ہو سکتے ہیں جو اچھا یا برا عمل آدمی نے کر کے آگے بھیجا وہ "قَدَّمَتۡ" ہے اور جس کے کرنے سے وہ باز رہا وہ "اَخَّرَتۡ" ہے۔
پھر ایک یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جو کچھ پہلے کیا وہ "ماقَدَّمَتۡ" اور جو کچھ بعد میں کیا" مااَخَّرَتۡ" ہے۔ یعنی آدمی کا پورا اعمال نامہ ترتیب وار اور تاریخ وار اس کے سامنے آ جائے گا .
پھر ایک یہاں پہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ جو اچھے اور برے اعمال آدمی نے اپنی زندگی میں کئے وہ"مَّا قَدَّمَتۡ" ہیں اور ان اعمال کے جو آثار و نتائج وہ انسانی معاشرے میں پیچھے چھوڑ گیا وہ "مَّااَخَّرَتۡ" ہیں۔

پہلی پانچ آیات میں قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کیا گیا۔
اس کے بعد ہے،

*یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الۡکَرِیۡمِ ۙ﴿۶﴾*
اے انسان! تجھے,کس چیز نے اپنے رب کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا۔

ضیاءالقرآن میں اس حوالے سے ہےکہ کتنے پیارے انداز میں غافل انسان کو یہاں جھنجھوڑا جا رہا ہے ۔کتنا محبت بھرا اسلوب ہے اور اس کو خوابِ غفلت سے جگایا جا رہا ہے۔
ارشاد ہے اے انسان تیرا پرودگار جو کریم ہے جس کے لطف و عنایت کی آغوش میں تو پل کر جوان ہوا ہے، جس کے انعام و احسان کا دستر خوان ہر وقت تیرے لئے بچھا ہوا ہے، جس کی رحمت کے درواذے تیرے لئے کشادہ ہیں اس سے تجھے کس نے دور کر دیا۔ کس عیار و چالاک کے دامِ فریب میں پھنس کر تو نے اس کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دیا۔ شریف لوگ یوں تو نہیں کرتےکیا تیرے نزدیک احسان کا بدلہ سر کشی اور بغاوت سے دینا ہی انسانیت ہے؟ اگر تو کسی پر مہربانی کرے اور وہ تیرا شکر گزار ہونے کی بجائے تیرے ہی خلاف ہو جائے تو کیا تو اسے پسند کرے گا؟

*الَّذِیۡ خَلَقَکَ فَسَوّٰىکَ فَعَدَلَکَ ۙ﴿۷﴾*
جس نے تجھے پیدا کیا، پھر اس نے تجھے درست اور سیدھا کیا پھر وہ تیری ساری ساخت متناسب تبدیلی لایا۔

*فِیۡۤ اَیِّ صُوۡرَۃٍ مَّا شَآءَ رَکَّبَکَ ؕ﴿۸﴾*
جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا ۔

آن آیات میں بتایا جا رہا ہے کہ اس کریم نے تجھ پر جو نوازشات کی انتہا فرمائی ہے اگر وہ تجھے پیدا ہی نہ کرتا یا تیری ساخت کو بگاڑ دیتا یا تیرے عناصرِ ترکیبی میں اعتدال کو ملحوظ نہ رکھتا تو تُو اس کا کیا بگاڑ سکتا تھا یا اس کی عظمت و کبریائی میں سے کیا فتور پیدا ہوتا۔ اس نے تجھے پیدا کیا، تجھے مکمل اعضاء بخشے، اس میں مناسبت کا پورا لحاظ رکھا ۔ پھر تیری جسمانی ،ذہنی اور نفسیاتی ساخت کو بڑے اعتدال سے پایہ تکمیل تک پہنچایا اور تو ہے کہ اس کی طرف سے ہی غافل ہے۔اس کے ذکر اور اس کے شکر کی تیرے پاس فرصت ہی نہیں ہے۔اور اس کی فرمانبرداری تیرے لئے بہت بڑا بوجھ بنی ہوئی ہے۔
تفہیم القرآن میں بھی اس حوالے سے اس طرح تفسیر کی گئی ہے کہ یعنی اوّل تو اس محسن پروردگار کے احسان و کرم کا تقاضا یہ تھا کہ شکر گزار اوراحسان مند بن کر اس کا فرمانبردار بنتا اور اس کی نافرمانی کرتے ہوئے تجھے شرم آتی ۔ مگر تو اس دھوکے میں پڑ گیا کہ تو جو کچھ بھی بنا ہے خود ہی بنا ہے۔

اور یہ خیال تجھے کبھی نہ آیا کہ اس وجود کو بخشنے والے کا احسان مانے۔
دوسرا تیرے رب کا یہ کرم ہے کہ دنیا میں جو تو چاہتا ہے کر گزرتا ہے اور ایسا نہیں ہوتا کہ جیسے ہی تجھ سے خطا ہوتی ہے تو وہ تجھ پر فالج گرا دے تجھے اندھا کر دے تیری آنکھیں اندھی کر دے تجھ پر بجلی گرا دے لیکن اس کرم کو تو نے اس کی کمزوری سمجھ لیا ہے اور دھوکے میں پڑ گیا ہے کہ تیرے خدا کی خدائی میں کوئی انصاف نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔
اس سے یہاں یعنی بتایا جا رہا ہے کہ اس دھوکے میں پڑنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ تیرا وجود خود بتا رہا ہے کہ تو خود نہیں بن گیا تیرے ماں باپ نے بھی تجھے نہیں بنایا۔ عناصر کے آپ ہی آپ جڑ جانے سے بھی تو انسان بن کے پیدا نہیں ہو گیا۔ یہ تو خدائے واحد ہے جس نے جس صورت میں چاہا ترکیب دے دیا۔ تیرے سامنے ہر طرح کے جانور موجود ہیں جن میں سے تیری سب سے بہترین و افضل ساخت اور افضل قوتیں تجھے دے دیں۔ عقل کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس کو دیکھ کر تیرا سر احسان سے جھک جاتا اور اس ربِ کریم کے فیصلے پر تو کبھی نافرمانی کی جرات نہ کرتا۔

تو یہ بھی جانتا ہے کہ تیرا رب نہ صرف رحیم و کریم ہے بلکہ جبار و قہار بھی ہے۔ جب اس کی طرف سے کوئی زلزلہ یا طوفان یا سیلاب آ جاتا ہے تو ساری تدبیریں اس کے مقابلے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔ تجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تیرا رب جاہل و نادان نہیں بلکہ حکیم و دانا ہے اور حکمت و دانائی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جسے عقل دی جائے اسے اس کے اعمال کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا جائے۔ اور جسے اختیار دیا جائے اس سے حساب بھی لیا جائے کہ تو نے اپنے اختیارات کو کیسے استعمال کیا اور جسے اپنی ذمہ داری پر نیکی اور بدی کرنے کی طاقت دی جائے اسے نیکی پر جزا اور بدی پر سزا بھی دی جائے۔ یہ سب حقیقت تیرے سامنے روز ِروشن کی طرح عیاں ہیں۔اس لیے تو یہ نہیں کہ سکتا کہ اپنے ربِ کریم کی طرف سے جس دھوکے میں تو پڑ گیا ہے اس کی کوئی معقول وجہ موجود ہے۔ جب خود کہیں افسر ہوتے ہیں تو خود اپنے اس ماتہت کو تو بہت کمینا سمجھتے ہیں جو تیری شرافت اور تیری نرم دلی کو تیری کمزوری سمجھ کر تیرے سر چڑھ جائے۔ اس لیے تیری اپنی فطرت یہ گواہی دینے کے لئے کافی ہے کہ مالک کا کرم ہر گز اس بات کی وجہ نہیں ہو جانا چاہیے کہ بندہ اس کے مقابلے میں بے باک ہو جائے۔ اور اس غلط فہمی میں پڑ جائے کہ میں جو کچھ چاہوں کروں میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

معرف القران میں بھی ان آیات کی اسی طرح سے تفصیر بیان کی گئی ہے کہ،
اے غافل انسان! جس پروردگار نے تیرے وجود میں ایسے ایسے کمالات موجود فرمائے اس کے معاملے میں تو نے کیوں دھوکہ اور فریب کھایا کہ اسی کو بھول بیٹھا اور اس کے حکم کی نافرمانی کرنے لگا۔ تجھے تو تیرے جسم کا جوڑ جوڑ اللہ کی یاد دلانے اور اس کی اطاعت پر مجبور کرنے کے لئے کافی تھا۔ پھر یہ بھول اور غفلت یہ غرور اور دھوکا کیسے لگ گیا تجھے
اس جگہ پہ رب کی صفت *کریم* کا زکر کر کے اس کے جواب کی طرف اشارہ کردیا کہ انسان کے بھول اور دھوکے میں پرھنے کا سبب اللہ کا کریم ہونا ہے کہ وہ اپنے کرم کی وجہ سے انسان کے بھول پہ فوراً سزا نہیں دیتا بلکہ اس کے رزق، عافیت اور آسائشوں میں بھی کوئی کمی نہیں کرتا۔ یہ لطف و کرم اس کے غرور اور دھوکے کا سبب بن گیا؛ حلانکہ زرا عقل سے کام لیتا تو یہ لطف و کرم غرور اور غفلت کا سبب بننے کے بجائے اور زیادہ اپنے ربِ کریم کے احسانات کا ممنون ہو کے اطاعت میں لگ جانے کا سبب ہونا چاہیے تھا۔

حضرت حسن بصری فرماتے ہیں،
کتنے ہی انسان ایسے ہیں کہ اللہ نے ان کے گناہوں اور عیبوں پہ پردا ڈالا ہوا ہے ان کو رسوا نہیں کیا وہ اس لطف و کرم سے اور دھوکے میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
تفصیر ابن قصیر میں بھی ان آیات کا اس حوالے سے بتایا گیا ہے کہ حریثِ قدسی یہ ہے کہ اللہ قیامت کے دن فرمائے گا،
اے ابن آدم! تجھے میرے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں ڈال رکھا۔
اے ابن آدم! تو نے رسولوں کی دعوت کا کیا جواب دیا۔
حضرت عبداللہ روایت کرتے ہیں کے حضرت عمرؓ نے ایک شخص کو یہ آیت تلاوت کرتے وقت سنا تو فرمایا،
انسان کی جہالت نے اسے اپنے رب سے غافل کردیا ہے.
حضرت فضیل بن آیاذ فرماتے ہیں کے اگر مجھ سے یہ پوچھا جائے تو میں جواب دوں گا کہ تیرے عفوودرگذر کے پردوں نے غافل کر دیا۔

قتادہ(رح) فرماتے ہیں کے آدم کو اس کے اذلی دشمن شیطان نے اسے دھوکے میں مبتلا کردیا۔
بشر بن جحاش روایت کرتے ہیں کے رسول پاک صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن اپنے ہاتھ پہ لہب مبارک رکھا اور اس پہ اپنی انگلی مبارک رکھی اور فرمایا،
اللہ تعالی فرماتا ہے،
اے ابن آدم! تو مجھے کیسے عاجز کر سکتا ہے حلانکہ میں نے تجھے اس جیسی چیز کے ساتھ پیدا کیا تیرے عضاء کو مبتادل اور معتدل کیا اب تو بہترین لباس پہن کے اکڑ کے چلتا ہے حلانکہ ایک دن تو نے اسی زمین میں دفن ہونا ہے تو نے بہت سا مال جمع کر رکھا ہے، فقراء اور مساکین کو نہیں دیتا جب تیری روح نکل کر سینے کے قریب پہنچے گی تو تو اس کو کہے گا کہ میں صدقہ کرتا ہوں حلانکہ وہ وقت صدقہ کا نہیں ہوگا۔
صحیع عین میں حضرت ابو ہریراؓ سے معوری ہے کہ ایک شخص نے عرض کی کے میری عورت نے سیاہ رنگ کا بچہ پیدا کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟
کہا،ہاں!
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، کس رنگ کے؟
تو اس نے جواب دیا،سرخ رنگ کے۔
فرمایا، کیا اس میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی کوئی ہے؟

اس نے کہا،ہاں!
آپ ﷺ نے پوچھا، یہ کہاں سے آگیا؟
اس نے کہا کہ شاید اوپر کی نسل کی طرف کوئی رگ کھینچ کے لے گئ ہو گی۔
آپﷺ نے فرمایا، شاید تیرے بچے کی سیاہ ہونے کی یہی وجہ ہے۔
ابو صالح(رح) فرماتے ہیں کے،
اللہ جس صورت میں چاہے انسان کو پیدا فرما دے خواہ کتے، گدھے اور خنجیر کی صورت میں۔
قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ،
ہمارا رب اس چیز پہ قادر ہے کہ جس شکل میں چاہے انسان کو پیدا کرے۔
اس قول کا معنی یہ ہے کہ اللہ اس چیز پہ قادر ہے کہ انسانی بچے کو ایک جانور کی شکل میں پیدا کرے لیکن اپنے لطف و کرم اور فضل اور احسان سے اس انسان کو بہترین صورت عطا کرتا ہے اور اسے بہترین قد و قامت عطا کرتا ہے.

آعوذ باللہ من اشیطن الر جیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
: سورة الإنفطار کی آیت 9 سے شروع کریں گے۔
کَلَّا بَلۡ تُکَذِّبُوۡنَ بِالدِّیۡنِ ۙ﴿۹﴾
*یہ سچ ہے بلکہ تم جھٹلاتے ہو روزِ جزا کو۔*
اس کا ترجمہ اس طرح بھی کیا گیا ہے کہ : "ہرگز نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ تم لوگ روزِ جزا کے دن کو جھٹلاتے ہو۔"

قرآن میں اس کی تفسیر اس طرح سے کی گئی ہے بات دراصل یہ ہے کہ تجھے روزِ جزا پہ یقین نہیں ہے اگر تجھے یہ یقین ہوتا کہ ایک دن وہ آنے والا ہے جب تو اپنے خالقِ کریم کے روبرو پیش کیا جائے گا اور تجھ سے تیرے اعمال کا محاسبہ کیا جائے گا۔ تو تو بغاوت اور سرکشی کی یہ روش اختیار نہ کرتا تیری غفلت ، بے پرواہی کی یہ کیفیت نہ ہوتی ۔ذمہ داری کا احساس اور جواب دہی کا خوف تجھے اسطرح شتر بے مہار بن کر زندگی بسر کرنے کی با لکل اجازت نہ دیتا ۔ ہر کام کرنے سے پہلے سوچتا ، بار بار سوچتا کہ ایسے کرنے سے ایسے روزِ حشر مجھے اپنے پروردگار کے روبرو شرمندگی تو نہیں ہو گی۔

اور ان سے تمھارا کوئی کام چھپا ہوا نہیں ہے خواہ تم اندھیروں میں ،خلوتوں میں سنسان جنگلوں میں یا اور کسی بھی ایسی حالت میں کرو جہاں تمہیں پورا اطمینان ہو کہ جو کچھ تم نے کیا ہے وہ اللہ کی مخلوق سے چھپ کے کیا ہے۔ مگر ان فرشتوں سے چھپ کر کچھ بھی نہیں کر سکتے، ان نگران فرشتوں کیلئے اللہ نے *کِرَامًا کَاتِبِیۡنَ* کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ۔ یعنی ایسے کاتب جو کریم ہیں۔ کریم مطلب نہایت بزرگ اور معزز ہیں۔ کسی سے نہ ذاتی محبت رکھتے ہیں نہ ذاتی دشمنی ہے کہ ایک کیلئے کوئی رعایت کر دیں گے دوسرے کے ساتھ کوئی مخالفت کر کے اس کے خلاف ریکارڈ تیار کر لیں گے۔ اپنے کام میں خیانت بھی نہیں کرتے کہ اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہوئے بغیر ایسے غلط ملط امدراج کر دیں رشوت خور بھی نہیں ہیں کہ کچھ لے دے کہ کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف جھوٹی رپورٹیں گھڑ دیں گے ۔ ان کا مقام ان ساری اخلاقی کمزوریوں سے بلند ہے۔ اس لئے نیک و بد دونوں طرح کے انسانوں کو مطمئن رہنا چاہئے کہ ہر ایک کی نیکی بِلا کم و بیش ریکارڑ ہو گئی ہے اور کسی کے ذمے کوئی ایسی بدی نہیں ڈالی جائے گئی جو اس نے نہ کی ہو۔

پھر ان فرشتوں کی دوسری صفت یہ بیان کی گئے ہے کہ جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں یعنی ان کا حال دنیا کے اطلاعاتی اداروں اور ایجنسیوں جیسا نہیں ہے کہ ساری کوششوں کے باوجاد بھی بہت سی باتیں ان سے چھپی رہ جاتی ہیں۔
وہ ہر ایک سے با خبر ہیں۔ ہر جگہ ہر حال میں ہر شخص کے ساتھ اسی طرح لگے ہوئے ہیں کہ اسے ہی معلوم بھی نہیں ہوتا کہ اس کی کوئی نگرانی کر رہا ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس شخص نے کس نیت سے کوئی کام کیا ہے۔ اس لیئے ان کا ریکارڈ مرتب کردہ جو ہو گا ایک مکمل ریکارڈ ہوگا جس میں درج ہونے سے کوئی بات رہ نہیں گئی ہے۔ اسی کے متعلق ایک سورة کہف کی آیت نمبر ٤٩ میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے روز مجرمین یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ ان کا جو اعمال نامہ پیش کیا جا رہا ہے اس میں کو ئی چھوٹی یا بڑی بات درج ہونے سے نہیں رہی جو کچھ انہوں نے کیا تھا یہ سب جوں کا توں سامنے حاضر ہے۔

تفسیر ابن کثیر میں بھی ان آیات کی تفسیر کے حوالے سے لکھا گیا ہے۔
کہ تمہیں اسی لئے برائی سے اجتناب کرنا چاہیے کے تم پر یہ نگران فرشتے مقرر کر دیئے گئے ہیں جو تمہارے ہر ہر عمل کو لکھ رہے ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا،
*اعمال لکھنے والے ان معزز فرشتوں کا احترام کرو جو صرف دو حالتوں میں تم سے جدا ہوتے ہیں ۔ جنابت کی حالت میں اور پاخانہ کی حالت میں ۔*
جب تم میں سے کوئی غسل کرے تو اسے چاہیے کے پردہ کر لے خواہ وہ پردہ دیوار ہو یا کسی اونٹ کا یا کسی ساتھی کو کھڑا کر لیا کرو ۔
تاکہ وہ پردے کا کام دے ۔
یہی حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہے جس میں ان دو چیزوں کے ساتھ ساتھ غسل کا ذکر بھی ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔
اللّه تعالیٰ کے بعض فرشتے بنی آدم کے اعمال کو جانتے ہیں۔جب وہ کسی بندے کو اللہ کی اطاعت میں مصروف دیکھتے ہیں تو آپس میں مشورہ کرتے ہیں۔ نام لے کے کہتے ہیں فلاں آدمی آج کی رات فلاح پا گیا جب کسی آدمی کو اللہ کی نافرمانی میں مشغول دیکھتے ہیں تو اسکا تذکرہ بھی کرتے ہیں ۔ اس کا نام لے کے کہتے ہیں کہ فلاں آدمی آج کی رات ہلاک ہو گیا۔

قتادہ رحمتہ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں،
*یہ سب سچ ہے اور خدا سب چیز پر قادر ہے لیکن وہ مالک ہمیں بہترین عمدہ اور خوش شکل اور دل لبہانے والی پاکیزہ پاکیزہ شکلیں صورتیں عطا فرماتا ہے۔*

پھر فرماتا ہے ۔

کہ اس کریم خدا کی نافرمانیوں پر تمہیں آمادہ کرنے والی چیز صرف یہی ہے کہ تمہارے دلوں میں قیامت کی تکزیب ہے ۔ تم اسکا آنا ہی برحق نہیں جانتے اس لئے اس سے بےپرواہی برت رہے ہو ۔ تم یقین مانو کے تم پر بزرگ محافظ اور قاطب فر شتے مقرر ہیں ۔ تمہیں چاہیے کے انکا لحاظ رکھو۔ وہ تمہارے اعمال لکھ رہے ہیں ۔ تمہیں برائی کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔

سورة الانفطار, الآيات: ١٣
إن الأبرار لفي نعيم
*بیشک نیک لوگ عیش و آرام میں ہوں گے۔*

سورة الانفطار, الآيات: ١٤
*وإن الفجار لفي جحيم*
*اور یقیناً بدکار جہنم میں ہوں گے۔*

سورة الانفطار, الآيات: ١٥
*يصلونها يوم الدين*
*داخل ہوں گے اس میں قیامت کے روز*

سورة الانفطار, الآيات: ١٦
*وما هم عنها بغائبين*
*اور وہ اس سے غائب نہ ہو سکیں گے ۔*

سورة الانفطار, الآيات: ١٨
*ثم ما أدراك ما يوم الدين*
اور آپکو کیا علم کے روزِ جزا کیا ہے۔

سورة الانفطار, الآيات: ١٩
*يوم لا تملك نفس لنفس شيئا*
جس روز کسی کے لئے کچھ کرناکسی کے بس میں نہ ہوگا۔

یعنی یہ وہ دن ہو گا جس میں کسی کے لئے کچھ کرنا کسی کے بس میں نہ ہوگا۔

سورة الانفطار, الآيات: ١٩
*والأمر يومئذ لله*
اور سارا حکم اس روز اللّٰه کا ہی ہوگا ۔

ضیاء القرآن میں اس کی تفسیر اس طرح ہے۔

کہ قیامت کا دن کوئی معمولی دن نہیں ہوگا۔ اس دن سارے جھوٹے بادشاہوں کی بادشاہیاں ختم ہو جائیں گی۔ کوئی فرعون نمرود سر اٹھانے کی جرات نہ کر سکے گا۔
اس دن صرف اللّٰه تعالیٰ کی حکمرانی ہوگی اور اسی کا فرمان نافذ ہو گا ، کسی کی مجال نہ ہوگی کہ اس کی مرضی کے خلاف دم مار سکے یا اس کے فیصلے کو رد کر سکے۔
اس کے اذن کے بغیر کوئی کسی کو فائدہ پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا ہوگا۔

معارف ال قرآن میں ،
سورة الانفطار, الآيات: ١٣
*إن الأبرار لفي نعيم*

سورة الانفطار, الآيات: ١٤
*وإن الفجار لفي جحيم*

کا تعلق اس آیت کے ساتھ جو کے پہلے گزر چکی ہے ۔

سورة الانفطار, الآيات: ٥
*علمت نفس ما قدمت وأخرت*
کے قیامت کے روز ہر انسان کا اپنا اپنا عمل سامنے آ جاۓ گا ۔

اس جملے میں اس عمل کی جزا و سزا کا حکم ہے ۔ اعطاعت شعار ابرار تو اس روز اللّٰه تعالیٰ کی نعمتون سے مسرور ہوں گے۔اور سرکش نافرمان جہنم کی آگ میں ہوں گے۔

سورة الانفطار, الآيات: ١٦
*وما هم عنها بغائبين*
یعنی جہنمی لوگ کسی وقت جہنم سے غائب نہ ہوسکیں گے ۔

کیونکہ ان کے لئے خلود اور دائمی عذاب کا حکم ہے۔

سورة الانفطار, الآيات: ١٩
*يوم لا تملك نفس لنفس شيئا*
یعنی کوئی شخص با اختیار خود محشر میں کسی دوسرے کو کوئی نفع پہنچا سکے گا نہ کسی کی تکلیف کو کم کر سکے گا ۔ اس آیت سے شفاعت کی نفی نہیں ہوتی۔

کیونکہ شفاعت کسی کے اپنے آختیار سے نہیں ہوگی بلکہ جب تک اللّٰه تعالیٰ کسی کو کسی کی شفاعت کی اجازت نہ دیں۔ اس لئے اصل حکم کا مالک اللّٰه تعالی ہی ہے ۔ وہی اپنے فضل سے کسی کو شفاعت کی اجازت دے دے۔

تو پھر شفاعت قبول فرما لے تو وہ بھی اسی کے ہی حکم سے ہے۔
تفسیر ابن کسیر میں بھی ان آیات کی تفسیر اس طرح بیان کی گئی ہے کہ یہاں اللّٰه تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے انجام کا ذکر کیا ہے جو اسکی اعطاعت میں مشغول رہے اسکی نا فرمانی سے اجتنا ب کرتے رہے۔
تو فرمایا کے بلاشہ نیک لوگ عیش و آرام میں ہوں گے۔

حضرت عبدالله بن عمرؓ روایت کرتے ہیں،
ان لوگوں کو ابرار اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ اپنے والدین کے فرماں بردار تھے اور اپنی اولاد کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے تھے۔

اس کے بعد اللّٰه تعالیٰ نے بدکاروں کےانجام کا تذکرہ فرمایا ہے کہ وہ قیامت کے دن جہنم کے دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے ۔ وہ قیامت کے دن اس عذاب میں مبتلا ہوں گے اور وہ اس میں سے ایک لمحہ بھی غائب نہ ہو سکیں گے۔
یعنی ان کے عذاب میں تخفیف نہیں کی جاۓ گی ۔ اگر وہ موت میں راحت کا سوال کریں گے تو وہ پورا نہ ہوگا۔
فرمایا آپ کو کیا علم کے روزِ جزا کیا ہے۔
یہاں روزِ قیامت کی عظمت کو بیان کیا جا رہا ہے۔
اور مزید تاکید کے لئے فرمایا کہ،
پھر آپ کو کیا علم کہ روزِ جزا کیا ہے۔ پھر خود ہی اس کی تفسیر بیان فرمائی کہ یہ وہ دن ہوگا جس روز کسی کے لئے کچھ کرنا کسی کے بس میں نہ ہوگا۔ یعنی اس دن اللّٰه تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی نفع پہنچا سکے گا نہ کسی کو مصائب سے چھٹکارا دلا سکے گا۔
رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا،
"اے بنی ہاشم ! اپنی جانوں کو جہنم کی آگ سے بچا لو۔ میں تمہیں اللّٰه کے عذاب سے بچانے کا مالک نہیں ہوں۔ "

یہاں یہ جو ارشاد فرمایا ہے اس دن سارا حکم اللّٰه تعالی ہی کا ہو گا۔
قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ حکم آج بھی اللّٰه کے دستِ قدرت میں ہی ہے۔ وہ ہی حقیقی مالک ہے۔ اس دن کوئی اور حکومت نہیں ہو گی صرف اور صرف اللّٰه کی حکومت ہو گی۔ جیسے کہ ایک اور جگہ قرآنِ پاک میں بھی فرمایا گیا ہے ،
مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ
یعنی مطلب سب کا ایک ہی ہے کہ ملک و ملکیت اس دن صرف خدا واحدِ قھار و رحمان کی ہی ہو گی گوہ آج بھی اسی کی ملکیت ہے وہ ہی تنہا مالک ہے، اسی کا حکم چلتا ہے۔
پھر وہاں کا بتایا جا رہا ہے کہ وہاں تو کوئی ظاہرداری حکومت اور ملکیت بھی نہیں ہو گی۔