باطل کا ایک کھلاڑی دنیا

دنیا دھوکہ ہے۔ فریب ہے۔ کبھی یہ بتاتی ہے کہ عزت میرے
ساتھ ہی ہے ...میں تمھاری خیر خواہ ہوں ...میں تمھارے ساتھ نہ ہوئی تو کوئی عزت نہ کر ے گا۔ اور کبھی یہ دنیا... خوبصورت گھر ...گاڑی... زیور ...پیسہ... اچھی پوسٹ دکھا کر ہمیںرشک دلاتی ہے۔ اور ہم دنیا کی ان آسائشات کو پانے کے لیے اندھا دھند بھاگتے ہیں اور یہ بھول جا تے ہیں کہ ہماری سمت ، راستہ اور منزل کیا ہے؟ وہ صحیح بھی ہے یا نہیں؟ مادیت پر ستی کی انتہا ہمارے لیے جائز و ناجائز کا فرق مٹا دیتی ہے ۔اور اس کی وجہ یہ ہو تی ہے کہ ہمارے دل میں احساس نہیں ہو تا کہ دنیا فانی ہے ۔ہم دنیا اور آخرت میں توازن قائم نہیں رکھ
سکتے ۔ ہمارا دنیا کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہتا ہے۔

تمہیں کثرتِ مال کی ہوس اور فخر نے (آخرت سے) غافل کر دیا۔
(التکاثر:1)
ہماری منزل دنیا کی کامیابی ہو تی ہے۔ ہم دنیا کی کامیابی کے لیئے پاگل ہوئے
پھرتے ہیں اور یہی پاگل پن ہمیں ہماری اصل منزل یعنی اللہ سے بے گانہ اور جدا کر دیتا ہے ۔ دنیا رشتوں کی شکل میں ہمیں اللہ کے رستے پر چلنے سے روکتی ہے۔ ہم دنیا کے رشتوں کو نبھا تے نبھاتے اصل مالک کوبھلا دیتے ہیں جس سے ہمارا ازل سے رشتہ ہے۔ دنیاکبھی کبھی خوف بن کر ہمارے اندر اترجا تی ہے۔ عزت کا خوف ...بے عزتی کا خوف... لوگوں کی باتوں کا خوف ...دنیا کی رنگینیاں ہاتھ سے نکل جانے کا خوف... وغیرہ وغیرہ ۔یہ سب بے بنیاد خوف اللہ کے رستے پر چلنے سے روکنے کے لیے ہیدنیا ہمارے اندر اتارتی ہے۔ اور تب دل کی نظر بند ہو تی ہے۔ اس لیے ہر طرف صرف دنیا ہی دنیا دکھا ئی دیتی ہے۔ اور یہ اس وقت تک دکھائی دیتی رہتی ہے جب تک اللہ کا احساس دل کی گہرائیوں میں نہ اتر جائے۔

جب تک اس دل میں دنیا بستی ہے دل سکون کی تلاش میں بھاگا پھر تاہے۔ اسی بھاگ دوڑ میں ہم دنیا کا عارضی سکون حاصل کرنے کے تمام ذرائع استعمال کر تے ہیں اور اصل سکون حاصل کرنے کے لیے ذرہ بھر کوشش نہیں کر تے جس کا راز اللہ سے قریب ہو جانے میں چھپا ہے ۔ ہم کبھی کسی انسان کی قربت میں سکون تلاش کر تے ہیں۔کبھی دولت کے ڈھیر میں سکون تلاش کر تے ہیں۔کبھی اولاد میں دل کی راحت کو قید کر دیتے ہیں۔کبھی اپنا سکون عارضی رشتوں ناطوں، دولت جائیداد میں ڈھونڈ تے ہیں۔غرض یہ کہ ہم دنیا سمیٹ لینے کے لیے اپنے تمام ذرائع لگا دیتے ہیں۔ ہمارا اپنے عمل پر جزوی اختیار ہمیں اتنا اندھا بنا دیتا ہے کہ ہم ہر چیز پر کنٹرول پا لینا چاہتے ہیں۔ اللہ کی قدرت اور اختیار پر ایمان نہیں رکھ رہے ہوتے اور اس
پر توکل بھی نہیں ہو تا۔

دنیا کی زندگی کا کچھ فائدہ (اٹھالو)، بالآخر تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے

(یونس:23)


دنیا میں دل لگانااور اس کے مال و متاع کی لالچ صرف ان کے ختم ہونے کے خوف اور ان کے وقتی اور محدود فائدے کی وجہ سے ہے۔ دنیا میں مگن ہم ہر امر کویونہی... اچانک اور اتفاقاَ سمجھتے ہیں۔ جبکہ یہاں کچھ بھی ایسے ہی یا اچانک نہیںہوتا۔ دل پر جہالت کے پردے ہمیں اپنی ہار ماننے نہیں دیتے۔ دنیا کے نظام کا اللہ کی زیر نگرانی چلنے کا تصور بھی نہیں ہو تا۔ سب سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد احتساب ہو گا ۔ابھی دنیا میں اپنی مرضی کر لیں۔یہی دنیا کی مرضیاں، چاہتیں اور خواہشیں اللہ کی قربت کے راستے کی بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ دنیا سے متعلق ہر چیز ہمارے اندر اتر کر ہمیں خود میں پھنسا لیتی ہے۔ جیسے اگر کوئی چیز کسی جگہ پر ہو اور ہم خود کو اس سے باندھ لیں اور اس چیز کو باہر کبھی نہ نکالا جا سکتا ہو تو خود کو اس سے آزاد کرائے بنا اپنے سفر پر ٹھیک سے نہیں نکل سکتے۔یا کم از کم وہ حصہ جو اس سے بندھا ہو وہ تو کسی کام کا نہیں ہو گا۔ اس دنیا کی سب چیزیں دنیا کی ہیں جن میں پھنسنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی گورکھ دھندے میں پھنس جا تا ہے۔ اس میں ایک دفعہ داخل ہو جائیں تو واپسی کے تمام راستے بند ہو جا تے ہیں۔ ہم دنیا کی دلدل میں ایسے دھنستے چلے جا تے ہیں کہ اس سے نکلنے کی خواہش بھی ہمارے اندر پھر نہیں اٹھتی۔

ہماری ذات دنیا کی خواہشوں کے چاک کے گرد ایسے گھومتی ہے کہ اس کا چکر ختم نہیں ہو تا ۔ہماری چاہتیں اور زندگی کے معیار دنیا کی دلدل میں ہمیں پھنسا ئے رکھتے ہیں۔ دنیا کے اس شکنجے میں پھنس کر ہم اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی بجائے خود کو اس کی تمام نعمتوں کا حقدار سمجھ لیتے ہیں۔ اور اللہ کی رحمت اور فضل کو تمام نعمتوں کا سر چشمہ جاننے کی بجائے اسے اپنے کمال و ہنر کا نتیجہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ہم اپنے زور بازو اور ہمارے اندر کی صلاحیتوں اور قابلیتوں پر اتنا یقین کرنے لگتے ہیں کہ اس بات کو قطعی بھول جا تے ہیں کہ یہ بھی ہم پراس مالک کا احسان ہے ۔ اور ہمیں ہر حال میں توکل اسی ذات پر ہی رکھنا چاہیے نہ کہ اپنی ذات پر یقین میں کھو جائیں۔ اپنی ذات پر یقین کرنا ...اور اللہ کی ذات پر یقین میں کمی ...ہمارے توکل میں مزید کمی کا باعث بنتی ہے۔ توکل کی یہی کمی ہمیں اور زیادہ دنیا کے گند میں پھنسا دیتی ہے۔

اور جس دن وہ انہیں جمع کرے گا (وہ محسوس کریں گے) گویا وہ دن کی ایک گھڑی کے سوا
دنیا میں ٹھہرے ہی نہ تھے، وہ ایک دوسرے کو پہچانیں گے۔ بیشک وہ لوگ خسارے میں رہے جنہوں نے اللہ سے ملاقات کو جھٹلایا تھا اور وہ ہدایت یافتہ نہ ہوئے۔
(یونس45)
ہمارے ایمان کا اہم حصہ مرنے اور مرنے کے بعد جی اٹھنے پر ایمان ہے۔ اس پر ہمارا مکمل یقین نہ ہو نا بھی ہمیں دنیا میں پھنسا تا ہے۔ ہم دنیا میں اس قدر گم ہو تے ہیں
کہ ہمیں موت جیسی اٹل حقیقت سے آشنائی ہونا بھی موت سے غافل کیے رکھتا ہے۔ ہم دنیا میں ہی کھوئے رہتے ہیں۔ موت کو یاد نہ کرنا ہی ہمیں ہمارے اعمال کو اللہ کی مرضی کے مطابقکرنے کی بجائے اپنی مرضی کے تابع رہ کر کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اور یوں ہم آخرت کے احساس سے بے بہرہ، جزا اور سزا سے بے خوف دنیا کی خوبصورتیوں میں گم رہتے ہیں۔ یہا ں تک کہ جیسے قرآن پاک میں اللہ نے فرمایا کہ ہم اس قدر غافل ہو جا تے ہیں کہ قبریں جا دیکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اس دنیا کو عارضی قیام گاہ نہیں سمجھا ہو تا ہے اسی لیے ہم نے اپنی آخرت کو سنوارنے کی طر ف کوئی توجہ نہیں دی ہو تی۔

دنیا میں رہ کر دنیا میں دل پھنسا ئے بغیر اپنی زندگی احکامات الہیہ کے تابع گزار نے کی بہترین کوشش کر نا ہی ہماری آزمائش ہے۔اس پر پورا اترنے کے لیے دنیا کی محبت کو دل سے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا لازمی ہے۔ ورنہ اگر اسی کی محبت دل میں بسی رہے تو یہ عاقبت کی بربادی کا سبب بنتی جاتی ہے۔ دنیاجگہ جگہ پائی جا تی ہے ۔اسی لیئے تو اسے ہرجائی کہتے ہیں کہ یہ مستقل کبھی کہیں نہیں ٹھہرتی۔ اسی لیے یہ آج آپ کے پاس ہے توکل کہیں او ر ہو گی۔ یہ دھوکہ باز اور فریبی ہے۔ جو کوئی اس کے فریب سے نکل گیا وہ فلاح پا گیا۔