باطل کا دوسرا کھلاڑی شیطان

شیطان اصل میں ہمارے ایمانوں کی آزمائش کے لیے ہے کہ ہم اس سے لڑتے ہیں یا اپنا آپ اس کے حوالے کر کے اس کے گروہ میں شامل ہو جا تے ہیں۔ اس نے اللہ کے سامنے اللہ کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور اسی وجہ سے دھتکار دیا گیا۔ اب وہ ہر شخص کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر تا ہے اور لوگ اللہ کے احکام نہ مان کر نا فرمانی کا ارتکاب کر کے شیطان کے چیلے بن جا تے ہیں۔اس نے لوگوں کو اللہ کی را ہ سے بھٹکانے کا قیامت تک ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ اور بہت بہترین طریقے سے روپ بدل بدل کر اپنا کام کر رہا ہے۔ کبھی دوست بن کر تو کبھی دشمن بن کر دشمنی نبھا رہا ہے۔
اور شیطان جس کا بھی ساتھی ہوگیا تو وہ برا ساتھی ہے۔

شیطان خود آگ سے بنا ہے اور اپنی اسی صفت کو بندوں میں منتقل کر کے ان کے اندر غصہ کی آگ بھڑکا نے والا ہے۔ا ور جب کوئی غصہ کرنے لگے تو اس پر اپنا مکمل قبضہ جما کر اس کے ہاتھ ، پاﺅں، زبان، آنکھ، کان اور باقی تمام اعضاءکو اپنی مرضی سے استعمال کراتے ہوئے بر بادی کی انتہا تک پہنچا دینے والا بھی شیطان ہے۔ فرائض کی ادائیگی کے حوالے سے سستی کا شکا ر کرنے والا شیطان ہی ہے۔ جیسے ہی فرائض کا وقت نکل جائے تو ہماری سستی اور کاہلی کی وجہ سے حاصل ہونے والی اس کامیابی پر خوش ہو کر تالیاں بجانے والا بھی شیطان ہے ۔

حقوق العباد اور معاملات میں لوگوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر کے جھگڑے اور فساد کرانا شیطان کا ہی کام ہے۔ کسی بھی اچھے کام کو بُرائی کی راہ پر ڈالنا اور بُرے کام کی بھی اچھی تصویر دکھا کر گمراہ کرنے والا شیطان ہے۔ منفی سوچوں اور خیالات ، وہموں اور وسوسوں میں مبتلا کر کے مایوسی کی راہ پر چلانے والا بھی شیطان ہے۔

بیشک وہ صریح بہکانے والا دشمن ہے۔
(القصص:15)
زندگی کے معمولات اور معاملات میں اللہ کی صفات کے حوالے سے بہکانے اور پھنسانے والا بھی یہی ہے تاکہ اللہ کی صفات پر یقین پختہ نہ ہوں اور اللہ پر ایمان کمزور ہوتے چلے جائیں۔انا ، غرور، فخر، تکبر، اور میںپھنسا کر ذاتی جھگڑوں کا بھی شکا ر کرتا ہے۔ اور ہمیں بے باک و نڈر ہو کے اللہ کے احکاما ت اور قرآن و حدیث کے اپنے اپنے مطالب نکال کر فرقہ واریت کو فروغ دینے میں مدد کرتا ہے۔ دین کو ٹکڑوں میں بانٹ دینے والا شیطان ہی ہے۔

اور آپ میرے بندوں سے فرما دیں کہ وہ ایسی باتیں کیا کریں جو بہتر ہوں، بیشک شیطان لوگوں کے درمیان فساد بپا کرتا ہے، یقینا شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
(بنی اسرائیل:53)
شیطان ہمیشہ اچھے کام کرنے والے کے دماغ میں تکبر بھرنے کی کوشش کر تا ہے ۔یا پھر کسی بھی اچھے کام کو ہماری نظر
میں مشکل یا غیر ضروری کام کی شکل میں پیش کر تا ہے۔ اور برائی کے راستے کو آسان کر کے اس میں پھنسا دیتا ہے۔ اور جب انسان اس میں اچھی طرح پھنس جا تا ہے تو اس پر مایوسی کی صورت حملہ کر تا ہے۔ شیطان ایسا دشمن ہے کہ اگر وہ دیکھتا ہے کہ کسی انسان کو اللہ کی راہ پر چلنے کی چاہت ہے تو اس کے دماغ میں وہم اور شک کا بیج ڈال کر اسے پھنسا تا ہے۔ اور اگر ہم کسی استاد یا مرشد کے وسیلہ سے اللہ کی راہ پر چل رہے ہوں تو اسی ہستی کے حوالے سے ایسے ایسے زاویے پہلو ہمارے سامنے لائے گا کہ ہم ان میں پھنس کر اپنا یقین اور ایمان کمزور کر کے بددل ہو کر اللہ تک جانے کے اس وسیلہ کو چھوڑ دیں۔

اللہ کی قربت اور آشنائی کی چاہت نہ رکھیں تو شیطان زیادہ زور دار وار نہیں کر تا۔ مگر جب اس چاہت میں
چلیں تو ہماری چاہت اور جذبے کے مطابق شیطان کے حملے بھی زیادہ اور زور دار ہونے لگتے ہیں۔ جتنا جتنا اللہ کی قربت کی چاہت میں ہر ہر زاویہ سے خود پر کام کر تے ہیں توشیطان کے حملے بھی ویسے ہی ہر ہر زاویے سے ہو تے ہیں ۔کبھی ہماری ہی سوچ کے ذریعے ہماری راہ کی دیوار بنتا ہے تو کبھی ہمارے اپنوں کی شکل میں ہمارے سامنے آن کھڑا ہو تا ہے۔ کبھی خوشی میں اللہ کی یاد سے غافل کر تا ہے تو کبھی دکھ میں اللہ کی رحمت سے نا امید کر کے اپنا کام کر تا ہے۔یہی شیطان کبھی عبادت کرنے والے کے لیے تکبر میں جانے کی راہ کھول دیتا ہے تو کبھی گناہ کی دلدل میں اتنا پھنسا دیتا ہے کہ انسان کا اللہ کے غفورالرحیم اور تو اب الرحیم ہونے پر ایمان اور یقین ختم کر دیتا ہے کہ ......اب بھلا ہماری معافی کہاں ہو سکتی ہے۔شیطان ہمیں اپنے عیبوں پر نظر نہیں کر نے دیتا ۔اور کبھی اگر ہمیں خیال آ بھی جائے تو ہمارے کردار کے حوالے سے لوگوں سے واہ واہ کراتا ہے تاکہ ہم اپنے عیبوں سے نظر ہٹائے رکھیں اور خود کو سنوارنے کی راہ نہ کھلے جو ہمیں اللہ سے قریب کر دے گی۔