*فإذا جاءت الطامة الكبرى*
پھر جب آئے گی سب سے بڑی آفت۔

یہاں اس آیت سے پھر دوبارہ احوال قیامت کاتذکرہ اب کیا جا رہا ہے ۔ کہ سب مصیبتوں سے بڑی مصیبت کو *الطامتہ*کہتے ہیں ۔
جو چیز اپنی مقدار میں یا اپنی تعداد کی کثرت کی وجہ سے دوسری ساری چیزوں پر چھا جاۓ ۔اسے الطامتہ کہا جاتا ہے ۔
اب یہاں پر قیامت کی مصیبت دوسری تمام مصیبتوں سے انتہائی ہولناک ہے اس لئے اسکو الطامتہ کہا گیا ہے اور ساتھ ہی اضافہ کبریٰ کا کیا گیا ہے ۔
تو یہ تاکیدہے اس کی اس میں شک کی گنجائش نہ رہے اور اسکی شدت کا اندازہ ہو ہمیں۔

سورة النّزعت, الآيات: ٣٥

*يوم يتذكر الإنسان ما سعى*
*اس دن انسان یاد کرے گا جو اس نے دوڑ دھوپ کی تھی ۔*


یعنی جب انسان دیکھ لے گا ۔اب وہی محاسبےکا دن آ گیا ہے ۔جس کی اسے دنیا میں خبر دی جا رہی تھی ۔
تو قبل اس کے کہ اسکا اعمال نامہ اسکے ہاتھ میں دیا جاۓ اسے ایک ایک کر کے اپنی وہ تمام حرکتیں یاد آنے لگیں گی ۔

جو دنیا میں کر کے آیا ہے ۔
بعض لوگوں کو یہ تجربہ خود اس دنیا میں بھی ہوتا ہے کے اگر اچانک اگر کسی وقت وہ کسی ایسے خطرے یا مشکل سے دو چار ہوتے ہیں جس میں موت انکو بالکل قریب کھڑی نظر آنے لگتی ہے تو وہ پوری زندگی فلم جو ہوتی ہے جو ان کا تصور جو ہوتا ہے پھرنے لگ جاتی ہے ۔
ایسے ہی وقت کے لئے اب کہا جا رہا ہے ۔اس وقت انسان کی نگاہوں کے سامنے زندگی کی فلم گھومنے لگے گی ۔
وہ اعمال جو اس کو بالکل بھول گئے تھے وہ اس کو ایک ایک کر کے اسکی یاد میں اسکے بھولے ہوئے اعمال ابھرنے لگیں گے ۔

اگر اس نے اچھے کاموں میں زندگی گزاری تھی ۔
تو اس وقت اسکی خوشی کی انتہا نہیں ہوگی ۔
اور اگر بداعمالیوں میں عمر برباد کر کے آیا ہے تو اس روز اس کا وہ ایک حسرت اور افسوس دیکھنے کے قابل ہو گا ۔
یا یہ کہ اس کے سامنے اس کے صحیفہ اعمال کھول کے رکھ دیا جاۓ گا ۔


اور جو باتیں وہ فراموش بھی کر چکے تھے وہ بھی انکو یاد آنے لگیں گی ۔

سورة النّزعت, الآيات: ٣٦

*وبرزت الجحيم لمن يرى*
اور ظاہر کر دی جاۓ گی جہنم ہر دیکھنے والے کے لئے ۔

یعنی وہ جہنم جس کا وہ انکار کرتے ہیں کہ قیامت نہیں آنی اور مسلسل اسکو جھٹلا رہے ہیں ۔
تو وہ ان کے سامنےاس دن آنکھوں کے سامنےظاہر ہو جاۓگی ۔


*فأما من طغى*
پس جس نے سرکشی کی ہوگی ۔

*وآثر الحياة الدنيا*
اور ترجیح دی ہوگی دنیاوی زندگی کو۔

*فأخذه الله نكال الآخرة والأولى*
تو دوزخ ہی اس کا ٹھکانہ ہوگا ۔

ضیاءالقرآن میں بتایا جا رہا ہے اس وقت اولاد آدم دو گروہوں میں بٹ جاۓ گی ۔
ایک گروہ ان لوگوں کا ہو گا جنہوں نے سرکشی اختیار کی اور اللّه تعالیٰ کی حدود کو توڑ دیا ۔
اور دنیا کی زندگی کے آرام و آرائش کو ابدی آرام و آرائش پر ترجیح دی ہے ۔
انکی جدوجہد دولت کے حصول شہرت اوراپنا نام حاصل کرنے کیلئے وقف ہو کر رہ گئی تھی ۔
انکے شب و روز صرف اسی کوشش میں گزرتے تھے کے وہ اس دنیا میں اونچے سے اونچے منصب پر فائز ہوں ۔یعنی آخرت کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے وہاں سرخروئی حاصل کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی وقت نہیں تھا ۔
اور نہ کبھی اس بارے میں انہوں نے سوچنے کی زحمت گوارہ کی تھی ۔ تو فرما دیا کہ ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا ۔ جن عظمتوں کو حاصل کرنے کے لئے وہ لگے رہے اس فانی دنیا میں تو وہ بھی فانی ہی تھی ۔

ان کی جدوجہد دولت کے حصول ،شہرت اور اپنا نام حاصل کرنے کیلئے وقف ہو کر رہ گئی۔ ان کے شب و روز صرف اسی کوشش میں گزرتے تھے کہ وہ اس دنیا میں اونچے سے اونچے منصب پر فائز ہوں اپنی آخرت کی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے وہاں سرخروئی حاصل کرنے کے لئےان کے پاس کوئی وقت نہیں تھا.اور نہ کبھی اس بات کے بارے میں انہوں نے سوچنے کی زحمت گواراہ کی تھی. تو فرما دیا کہ ان کا ٹھکانہ جہنم ہو گا.جن عضمتوں کو وہ حاصل کرنے کیلئے وہ لگے رہے نہ اس فانی دنیا میں تو وہ بھی فانی ہی تھیں چند روز ان کی عظمت کا شان و شوکت کا ڈنکا بجا اور پھر ہمیشہ کیلیے وہ فنا کی وادیوں میں گم ہو گیا اب ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے.

اب اگلی آیات میں دوسرے گروہ کا ذکر ہے کہ ،
*وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی*
*﴿ۙ۴۰﴾ فَاِنَّ الۡجَنَّۃَ ہِیَ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۴۱﴾*

اور جو ڈرتا رہا اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے اور اپنے نفس کو روکتا رہا ہو گا ہر بری خواہش سے.
یقیناً جنت ہی ان کا ٹھکانہ ہو گی .

اب دوسرے گروہ کے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ یہ گروہ ان لوگوں کا ہے جو عمر بھر یہ تصور کرکے ہی ڈرتے رہے کہ انہوں نے ایک دن اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے انہوں نے اپنے نفس کے گھوڑے کو کبھی بے لگام نہیں ہونے دیا ۔ انہوں نے شریعت کی حدوں کو توڑنے کی اسے ہر گز اجازت نہیں دی . وہ اس کو ایسی خواہشات سے جو احکامِ الہی سے متصادم تھیں سختی سے باز رکھا کرتے تھے۔ آج جنت کی بہاریں ان کی راہ دیکھ رہی ہیں ۔حوریں رنگین اورخوشبودار پھولوں کے ہار پرائے ان کا انتظار کر رہی ہیں ۔اب ان کا ٹھکانہ وسیع و عریض جنت ہی ہو گی یہ جو آیت میں ہے.

*وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی ﴿ۙ۴۰﴾*

تو عادفِ ربانی یعقوب چرخی اس۔ الۡہَوٰی کا معنی کرتے ہیں کہ دل کا کسی ایسی چیز کی طرف مائل ہو جانا جو ناجائز ہو ۔ علامہ ثناءاللہ پانی پتی رحمت اللہ علیہ الحوا کی گحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بلندی سے پستی کی طرف گرنا اور لڑکنا۔ وہ فرماتے ہیں کہ حوا کو حوا اسلئے کہا گیا ہے کہ یہ انسان کو دنیا میں ہر مصیبت میں پھنساتی ہے اور آخرت میں باویہ یعنی جہنم میں پھینک دیتی ہے ۔ پھر گرماتے میں کہ اس حوائے نفس لے ترک کے کئی مرتبے ہیں ۔سب سے نیچے والا درجہ یہ ہے کہ احکام شریعت کی مخالفت سے اجتناب کیا جائے۔

اور اسلاف کرام کے متفق عقاید کی مخالفت سے پرہیز کیا جائے ۔
اسکا درمیانی درجہ یہ ہے کہ انسان کسی گناہ کا ارادہ کرے اور پھر قیامت کی حاضری کے خوف سے اس سے باز رہے اور مشتبہ چیزوں سے پرہیز کرے۔
حضرت مجدد نے فرمایا کہ حضرت بہاؤدین نقشبندی رح نے فرمایا کے اللّه کے قرب کا سب سے نزدیک راستہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کی مخالفت کرتا رہے ۔
فرماتے ہیں کے نفس کی چالیں بہت باریک ہوتی ہیں کبھی وہ گناہ سے انسان کو اپنے رب سے دور کرتا ہے اور کبھی نیک اعمال کے باعث ریا اور خودبینی کے جذبات کو ابھار کر انسان کو دور کرتا ہے ۔
انہوں نے کہا کے اس حواءنفس کی دسدرازیاں اور اسکی شبخونیوں سے بچنے کا محفوظ ترین طریقہ یہ ہے کے اپنے رہبر و رہنما شیخ کامل کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں اور ان کے حکم اور ان کی اجازت کے بغیر کوئی کام نہ کریں۔

حضرت یعقوب چرخی نے اپنے شیخ خواجہ نقشبند سے پوچھا کہ اگر کسی کو ایسا شیخ کامل ، ایسا رہبر و رہنما نصیب نہ ہو تو وہ کیا کرے ؟
تو آپ نے فرمایا کے وہ کثرت سے استغفار پڑھا کرے یا ہر نماز کے بعد ٢٠ مرتبہ یہ استغفار پڑھے ۔

*أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الْعَظِيمَ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْْقَيُّومُ وَ أَتُوبُ إِلَيْهِ*

حدیث مبارکہ بھی ہے کہ حضرت ابو حریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا،
تین چیزیں انسان کو ہلاک کرنے والی ہیں، نفس کی وہ خواہش جس کی پیروی کی جائے ، بخل اور کنجوسی جس کی اطاعت کی جائے اور خود بینی کہ انسان اپنے نفس کو بہتر سمجھنے لگ جائے ۔
فرمایا یہ تیسری چیز سب سے زیادہ موہلک ہے ۔
اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں ہمیں اپنی اصلاح کرنے کا اور اپنا جائزہ لینے کا بھی بہت سارا ایریہ ملتا ہے ۔

يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا
*یہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ھیں کہ وہ کب قائم هو گی*

فِيمَ أَنْتَ مِنْ ذِكْرَاهَا
*اس کے بیان کرنے سے آپ کا کیا تعلق*

إِلَىٰ رَبِّكَ مُنْتَهَاهَا
*آپ کے رب تک اسکی انتہا ھے ۔*

جب کفار کو قیامت کے متعلق بتایا جاتا تو وہ پوچھنا شروع کر دیتے کہ بتائیں یہ قیامت کس تاریخ کو برپا هو گی تو اللّه فرماتے ہیں کہ،
*اے میرے محبوب آپ کو اس لیے نہیں بھیجا گیا کہ آپ قیامت کے دن کا تعین کر کے انہیں بتائیں بلکہ آپکی تشریف آوری کا مطلب یہ ھے کہ آپ انہیں خوابِ غفلت سے جگائیں انہیں دعوتِ حق سنایں ۔ تاکہ آپکی دعوت کو قبول کر کے اور آپ کے ارشادات پر عمل کر کے قیامت کے دن سرخورؤی حاصل کر سکے*

ان کا فائدہ اسی میں ہے
اگر ان کو قیامت کی تاریخ بتا بھی دی جا ئے تو اس سے انہے کیا فائدہ ھو گا ۔
یہ لوگ بے مقصد باتوں میں اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں ، اور وہ کام جس میں ان کا نفع ہی نفع ہے۔
انکی طرف یہ توجہ نہیں دے رھے۔

*إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ يَخْشَاهَا*
آپ ضرور خبردار کرنے والے ھیں ہر اس شخص کو جو اس سے ڈرتا ھے ۔

*إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ يَخْشَاهَا*
کہ یہ اللّه کے اختیار میں ھے کہ جب وہ چاہے قیامت برپا هو جاۓ۔

آپکو اس لیے نہیں بھیجا گیا کہ آپ ان کے لیے قیامت کی تاریخ کا تعین فرمائیں ۔
بلکہ آپ کی بعثت کا مقصد یہ ھے کے آپ ان لوگوں کو ابھی ابھی بروقت خبر دار کر دیں تا کہ وہ اپنی اصلاح کرسکیں۔


*كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا*
گویا وہ جس روز اسکو دیکھے گے انہیں محسوس ہوگا کے وہ دنیا میں نہیں ٹھہرے تھے مگر ایک شام یا ایک صبح ایسے بتایا جا رہا ھے کہ آج تو انہیں دنیا کی زندگی بڑی طویل معلوم ہو رہی ہے اور وہ یہ گمان کرتے ہیں جو چیز اتنے لمبے عرصے میں وقوع پذیر نہیں ہوئی اس کے بعد بھی وقوع پذیر ہونے کا امکان ہی نہیں۔

تو اس لیے ارشاد فرمایا،
گویا وہ جس روز اسے دیکھیں گے انھیں ایسا محسوس ہوگا کے وہ دنیا میں ایک شام یا ایک صبح ٹھہرے ہیں ۔

جب وہ اپنی قبروں سے اٹھ کر میدانِ حشر کی طرف جائیں گے
تو اپنی دنیاوی زندگی کو
انتہائی مختصر گمان کریں گے
حتہ کہ انھیں یہ محسوس ہوگا کہ انہوں نے دنیا میں ایک صبح یا ایک شام گزاری ھے.

ظہر سے لے کر آفتاب کے غروب ہونے کے وقت کو عَشِيَّةً کہتے ہیں ۔
اور سورج نکلنے سے لے کر آدھے دن کے وقت کو ضُحَاهَا کہتے ہیں ۔
یہاں مطلب یہ ہے کہ آخرت کو دیکھ کر دنیا کی لمبی عمر بھی اتنی کم محسوس ہونے لگے گی۔


الحمدواللّه ہماری سورہ النازیات مکمل هو گئی ھے