User Tag List

Results 1 to 1 of 1

Thread: 1.حضرت محمد مصطفی ﷺ کا بچپن

  1. #1
    Administrator
    Join Date
    Feb 2017
    Posts
    1,587
    Thanked: 5
    Mentioned
    0 Post(s)
    Tagged
    0 Thread(s)

    1.حضرت محمد مصطفی ﷺ کا بچپن

    پیارے آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کا بچپن

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچپن میں والدہ ماجدہ نے دودھ پلایا اس کے بعد ثویبہ جو آزاد ہوچکی تھی اس نے دودھ پلایا۔قریش میں دستور تھا شہر کے لوگ شیر خوار بچوں کو بدوی آبادی میں بھیج دیتے کہ دیہات کی فضا میں زبان پر عربوں کی خالص خصوصیت حاصل کریں اور مدت رضاعت ختم ہونے پر عوضانہ دے کر واپس لے آتے۔اس لئے مکہ کے آس پاس کی عورتیں بچوں کی تلاش میں مکہ آیا کرتی تھیں۔حلیمہ سعدیہؓ کے علاقے میں قحط تھا۔ وہ بھی بچہ لینے کے لئے اپنے قبیلے کی عورتوں کے ساتھ مکہ آئےں۔ آپ ؓ کے ساتھ آپ کے خاوندحارث اور ایک رضاعی بیٹا عبداللہ تھا۔ آپ ؓ کی اونٹنی کمزور اور ایک خچر تھا۔ مکہ آتے ہوئے آپؓ کا خچر اور اونٹنی قافلے سے پیچھے رہ جاتی۔باقی عورتوں نے بچوں کو لے لیا ۔حلیمہ سعدیہؓ دیر سے پہنچیں تو صرف پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم رہ گئے تھے۔ سب نے ان کو یتیم دیکھ کر نہ لیا کہ ان کا معاوضہ کم ملے گا۔ حلیمہ سعدیہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوگود لیا مگر کمزوری اور بھوک سے دودھ نہیں تھا۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلانے لگیں تو ایک طرف سے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا اور سیر ہوگئے۔آپؓ کی اونٹنی نے بھی اتنا دودھ دیا کہ حضرت حلیمہ سعدیہؓ اور ان کے خاوند نے خوب سیر ہوکر پیا۔ پھر حضرت حلیمہ سعدیہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے گئےں اور اپنے قبیلے میں رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلاتی رہیں۔

    حضرت حلیمہ سعدیہؓ فرماتی ہیں کہ ہم رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو گود میں لے کر مکہ مکرمہ سے اپنے گاﺅں کی طرف روانہ ہوئے تو میرا و ہی خچر اب اس قدر تیز چلنے لگا کہ کسی کی سواری اس کی گرد کو نہ پہنچتی تھی۔ قافلہ کی عورتیں حیران ہوکر مجھ سے کہتی تھیں کہ اے حلیمہ!کیا یہ وہ ہی خچر ہے؟ جس پر تم سوار ہوکر آئی تھی یا کوئی دوسرا تیز رفتار خچر تم نے خرید لیا ہے؟ الغرض جب گھر پہنچے تو وہاں سخت قحط پڑا ہوا تھا۔ تمام جانوروں کے تھن میں دودھ خشک ہوچکا تھا۔ لےکن میرے گھر میں قدم رکھتے ہی میری بکریوں کے تھن دودھ سے بھر گئے۔ اب روزانہ میری بکریاں چراہ گاہ سے واپس آتیں تو ان کے تھن دودھ سے بھرے ہوتے جب کہ پوری بستی میں کسی اور کو اپنے جانوروں کے دودھ کا ایک قطرہ نہ ملتا تھا۔یہ تو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے برکات نبوت کا فیض تھا۔

    الغرض کس طرح ہر قدم، ہر دم ہم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکتوں کا نزول ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو سال کے ہوگئے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دودھ چھڑوایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تندرستی اور نشوونما کا حال دوسرے بچوں سے اتنا اچھا تھا کہ دو سال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوب اچھے اور بڑے معلوم ہونے لگے۔ اب ہم دستور کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس انﷺ کی والدہ کے پاس لے آئے۔ انہوں نے حسب توفیق ہم کو انعام و اکرام سے نوازا۔گو قاعدہ کے مطابق ہمیں ر حمت العالمینﷺ کو اپنے پاس رکھنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برکت نبوت کی وجہ سے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لمحہ کی بھی جدائی گوارہ نہ تھی۔عجیب اتفاق تھا کہ اس سال مکہ میں وبائی بیماری پھیل گئی چنانچہ ہم نے اس بیماری کا بہانہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس اپنے ساتھ لانے کے لئے حضرت بی بی آمنہؓ کو رضا مند کرلیا اور پھر ہم رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس گھر لے آئے اور ہمارا مکان رحمتوں اور برکتوں کاگہوارہ بن گیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ خوش و خرم رہنے لگے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر نکلتے اور دوسرے لڑکوں کو کھیلتے ہوئے دیکھتے مگر خود ہر قسم کے کھیل سے الگ رہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب کھیلنے کے لئے بلاتے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: میں کھیلنے کودنے کے لئے پیدا نہیں کیا گیا۔

    ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکریاں چرانے گئے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رضائی بھائی عبداللہ بھاگتا ہوا آیا اور کہا کہ میرے قریشی بھائی کے پاس دو آدمی سفید کپڑوں میں آئے اور انہوں نے بھائی کو پہلو کے بل لٹا کر پیٹ چاک کردیا۔ حضرت حلیمہؓ اور ان کا خاوند بھاگتے ہوئے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے۔ حضرت حلیمہؓ نے سارا ماجرہ پوچھا تو آپ نے بتایا کہ میرا پیٹ پھاڑ کر ایک پھٹکی خون کی نکالی اور پھر ایمان و حکمت سے بھر کر سی دیا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر لے آئے۔ حارث نے کہا کہ بچے پر شاید آسیب ہے اس لئے حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ حضرت بی بی آمنہؓ کے پاس لے آئےں اور حقیقت بیان کی تو حضرت آمنہؓ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم ان پر شیطان کو دخل نہیں، میرے بیٹے کی بڑی شان ہے۔

    پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک جب چھ برس کی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر مدینہ منورہ اپنے شوہر کی قبر کی زیارت کے لئے گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد کی باندی ام ایمن بھی اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں۔ وہاں سے واپسی پر ابوہ نامی گاﺅں میں حضرت بی بی آمنہ ؓ کی وفات ہوگئی اور وہیں مدفون ہوئے۔

    والد ماجد کا سایہ تو ولادت سے پہلے ہی اٹھ چکا تھا۔اب والدہ ماجدہ کی آغوش شفقت سے بھی محروم ہوگئے۔ حضرت بی بی آمنہؓ کا یہ در یتیم اپنے دادا عبدالمطبؓ کی آغوش میں پرورش پانے لگا۔ حضرت ام ایمن ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتی رہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف آٹھ برس کی ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلبؓ کا انتقال ہوگیا۔
    عبدالمطلب ؓکی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب ؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آغوش تربیت میں لے لیا اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی نیک خصلتوں اور دل لبھا دینے والی بچپن کی پیاری پیاری عادتوں نے ابو طالبؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا گرویدہ بنا لیا کہ مکان کے اندر اور باہر ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ رکھتے۔ اپنے ہاتھ سے کھلاتے پلاتے۔اپنے پاس ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر بچھاتے اور ایک لمحہ کے لئے بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے۔ابو طالبؓ کا بیان ہے کہ میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی وقت بھی کوئی جھوٹ بولے ہوں ، یا کبھی کسی کو دھوکا دیا ہو، یا کبھی کسی کو ایذاءپہنچائی ہو، یا بے ہودہ لڑکوں کے پاس کھیلنے گئے ہوں یا کوئی خلاف تہذیب بات کی ہو۔ہمیشہ انتہائی خوش اخلاق و نیک اطوار اور نرم گفتار بلند کردار اور اعلیٰ درجہ کے پارسا اور پرہیز گار رہے۔

    جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک بارہ برس کی ہوئی تو اس وقت ابو طالبؓ نے تجارت کی غرض سے ملک شام کا سفر کیا۔ ابو طالب کو چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت والہانہ محبت تھی اس لئے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس سفر میں ہمراہ لے گئے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت سے قبل تین بار تجارتی سفر فرمایادوبار ملک شام گئے اور ایک بار یمن تشریف لے گئے۔یہ ملک شام کا پہلا سفر تھا۔ اس سفر کے دوران بصرہ میں بحیرہ راہب (عیسائی سادھو) کے پاس آپ کا قیام ہوا۔ اس نے تورات و انجیل میں بیان کی ہوئی نبی آخر الزماںصلی اللہ علیہ وسلم کی نشانیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور بہت عقیدت و احترام کے ساتھ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قافلہ والوں کو دعوت دی۔اور ابو طالبؓ سے کہا یہ سارے جہاں کے سردار اور رب العالمین کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
    جن کو اللہ نے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ شجر وحجر انﷺ کو سجدہ کرتے ہیں۔ اور ابران پر سایہ کرتا ہے اور ان کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہے۔اس لئے تمہارے اور ان کے حق میں بہتر ہوگا کہ اب تم ان کو لے کر آگے نہ جاﺅ اور اپنا مال تجارت یہاں ہی فروخت کر کے بہت جلد مکہ چلے جاﺅ۔ کیونکہ ملک شام میں یہودی لوگ ان کے بہت بڑے دشمن ہیں۔ وہاں پہنچتے ہی وہ لوگ ان کو شہید کر ڈالیں گے۔ بحیرہ راہب کے کہنے پر ابو طالبؓ کو خطرہ محسوس ہونے چنانچہ انہوں نے وہیں اپنی تجارت کا مال فروخت کردیا اور بہت جلد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے کر مکہ واپس آگئے۔
    بحیرہ راہب نے چلتے وقت انتہائی عقیدت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر کا توشہ بھی دیا۔
    Last edited by Admin-2; 03-01-2017 at 02:32 PM.

Similar Threads

  1. 10:حضرت امامِ حسینؓ کا فیصلہ
    By Admin-2 in forum 10:فیصلہ
    Replies: 0
    Last Post: 05-04-2017, 06:11 PM
  2. 4.حضرت فاطم بنت اسد
    By Admin-2 in forum 1.حالات زندگی
    Replies: 0
    Last Post: 03-02-2017, 01:40 PM
  3. 2.حسن مصطفیٰ ﷺکا ظہورِ کامل
    By Admin-2 in forum 1.حُسن مصطفیٰﷺ
    Replies: 0
    Last Post: 03-02-2017, 11:34 AM
  4. 1.حضرت محمدمصطفیﷺ کی جوانی
    By Admin-2 in forum 3:آپ ﷺ کی جوانی
    Replies: 0
    Last Post: 03-01-2017, 02:38 PM
  5. 1. حضرت محمد مصطفی ﷺکی پیدائش
    By Admin-2 in forum 1.آپ ﷺ کی پیدائش
    Replies: 0
    Last Post: 03-01-2017, 02:21 PM

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •