پیارے آقا ئے دو جہاں حضرت محمدمصطفیﷺ کی جوانی

عرب کے ایک ممتاز، مہذب اور اعلیٰ روایت رکھنے والے خاندان میں سلیم الفطرت والدین سے ایک انوکھا سا بچہ یتیمی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ ایک غریب مگر شریف ذات کی دایہ کا دودھ پی کر دیہات کے صحت بخش ماحول کے اندر فطرت کی گود میں پلتا ہے۔وہ خاص انتظام سے صحر امیں تگ و دو کرتے کرتے زندگی کی مشقتوں کا مقابلہ کرنے کی تیاریاں کرتا ہے اور بکریاں چرا کر غلہ بانی کی تربیت پاتا ہے۔بچپن کی پوری مسافت طے کرنے سے پہلے یہ انوکھا سا بچہ ماں کے سایہ شفقت سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ دادا کی ذات کس حد تک والدین کے اس خلاءکو پر کرنے والی تھی، لےکن یہ سہارا بھی چھین لیا جاتا ہے، بلا آخر چچا کفیل بنتے ہیں۔ یہ گویا مادی سہاروں سے بے نیاز ہوکر ایک آقائے حقیقی کے سہارے فرائض سے عہدہ براءہونے کی تیاری ہورہی ہے۔

جوانی کے دائرے میں قدم رکھنے تک یہ انوکھا سا بچہ عام بچوں کی طرح کھلنڈرا اور شریر بن کر سامنے نہیں آتا بلکہ بوڑھوں کی سی سنجیدگی سے آراستہ نظر آتا ہے۔جوان ہوتا ہے تو انتہائی فاسد ماحول میں پلنے کے باوجود اپنی جوانی کو بے داغ رکھتا ہے۔ عشق اور نظر بازی اور بدکاری جہاں نوجوانوں کے لئے سرمایہ افتخار بنے ہوئے ہیں وہاں وہ اپنی آنکھ بھی میلی نہیں ہونے دیتا۔جہاں گلی گلی شراب کشید کرنے کی بھٹیاں لگی ہوں اور گھر گھر شراب خانے کھلے ہوں اور جہاں مجلس مجلس ایمان و اخلاق نچھاور کئے جاتے ہوں وہاں یہ جدا گانہ فطرت کا نوجوان کبھی قسم کھانے کو بھی شراب کا ایک قطرہ تک اپنی زبان پر نہیں رکھتا۔ جہاں قمار بازی قومی مشغلہ بنا چلا آرہا تھا وہاں یہ ایک مجسم پاکیزگی تھا ۔

دو مرتبہ ایسے مواقع پیدا ہوئے کہ یہ نوجوان مجلس تفریح میں جا پہنچا لیکن جاتے ہی ایسی نیند طاری ہوئی کہ جہاں بتوں کے سامنے سجدہ عین دین و مذہب قرار پاچکا وہاں خانوادہ ابراہیمی کے اس پاکیزہ مزاج نوجوان نے نہ غیر اللہ کے سامنے کبھی اپنا سر جھکایا، نہ اعتقاداً کوئی مشر کانہ تصور اپنے اندر جذب کیا بلکہ ایک مرتبہ بتوں کے چڑھاوے کا جانور پکا کر لایا گیا تو کھانے سے انکار کردیا۔

جہاں قریش نے زمانہ حج میں اپنے آپ کو عرفات جانے سے روک لیا تھا وہاں اس ممتاز مرتبے کے قریشی نے کبھی اس بدعت کو اختیار نہ کیا۔ جہاں جنگ ایک کھیل تھی اور انسانی خون بہانا ایک تماشہ تھا، وہاں احترام انسانیت کا علم بردار یہ نوجوان ایسا تھا کہ جس کے دامن پر خون کی ایک چھینٹ نہ پڑی تھی۔نو عمری میں اس نوجوان کو حرب فجار نامی جنگ عظیم میں شرکت کا موقع ملا اور گرچہ قریش کے برسر حق ہونے کی بنا پر اس میں حصہ لیا لےکن پھر بھی کسی انسانی جان پر خود ہاتھ نہ اٹھایا۔

اس پاک باز نوجوان کی دلچسپیاں دیکھئے کہ عین بہک جانے والی عمر میں وہ اپنی خدمات اپنے ہم خیال نوجوانوں کی ایک اصلاح پسند انجمن کے حوالے کرتا ہے۔ جو حلف الفضول کے نام سے غریبوں اور مظلوموں کی مدد اور ظالموں کی چیرہ دستیوں کے استبدال کے لئے قائم ہو۔
آپ ﷺ دور نبوت میں اس کی یاد تازہ کرتے ہوئے فرمایا کرتے کہ
اس معاہدے کے مقابلے میں اگر مجھ کو سرخ رنگ کے اونٹ بھی دئےے جاتے تو میں اس سے نہ پھرتا اور آج بھی ایسے معاہدے کے لئے کوئی بلائے تو میں حاضر ہوں۔

پھر اس نوجوان کی صفات اور صلاحیتوں کا اندازہ اس سے کیجئے کہ تعمیر کعبہ کے موقع پر حجر اسود نصب کرنے کے معاملے میں قریش میں کشمکش پیدا ہوئی۔ اور تلواریں میانوں سے نکل آتی ہیں لےکن تقدیر کے اشارے سے اس معاملے کو سنبھالنے کا شرف اس نوجوان کے حصے میں آتا ہے۔ انتہائی جذباتی تناﺅ کی اس فضا میں یہ صلح کا علم بردار ایک چادر بچھا کر اس پر پتھر رکھ کر سب کو اس چادر کو الٹانے کی دعوت دیتا ہے۔ چادر پتھر سمیت متحرک ہوجاتی ہے اور جب موقع پر جا پہنچتی ہے تو وہ نوجوان اس پتھر کو اٹھا کر اس کی جگہ پر نصب کر دیتا ہے۔ جھگڑے کا سارا غبار چھٹ جاتا ہے۔ اور چہرے خوشی اور اطمینان سے چمک اٹھتے ہیں۔

یہ نوجوان میدان معاش میں قدم رکھتا ہے تو تجارت جیسا پاکیزہ اور معزز مشغلہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ کوئی بات تو اس میں تھی کہ اچھے اچھے اہل سرمایہ نے یہ پسند کیا کہ یہ نوجوان ان کا سرمایہ اپنے ہاتھ میں لے اور کاروبار کرے۔حضرت خدیجہؓ مکہ کی ایک بہت ہی مالدار خاتون تھیں۔ ان کے شوہر کا انتقال ہوچکا تھا۔ ان کو ضرورت تھی کہ کوئی امانت دار آدمی مل جائے تو اس کے ساتھ اپنی تجارت کا مال و سامان ملک شام بھیجیں۔ چنانچہ ان کی نظر انتخاب نے اس کام کے لئے حضور ﷺ کا انتخاب کیا اور کہلا بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرا مال تجارت لے کر ملک شام جائےں اور جو معاوضہ میں دوسروں کو دیتی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت و دیانت داری کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا دوگنادوں گی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست منظور کر لی اور ملک شام روانہ ہوگئے۔ اس سفر میں حضرت خدیجہؓ نے اپنے معتمد غلام میسرہ کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ کردیا تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا رہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ملک شام کے شہر بصرہ میں پہنچے تو وہاں نسطورہ راہب کی خانقاہ کے قریب ٹھہرے۔ نسطورہ راہب میسرہ کو پہلے سے جانتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت دیکھتے ہی نسطورہ میسرہ کے پاس آیا اور دریافت کیا کہ
اے میسرہ
یہ کون شخص ہے؟ جو اس درخت کے نیچے پڑے ہیں۔
میسرہ نے جواب دیا کہ یہ مکہ کے رہنے والے ہیں اور خاندان بنو ہاشم کے چشم و چراغ ہیں اور ان کا نام نامی محمد ہے اور لقب امین ہے۔ نسطورہ نے کہا سوائے بنو ہاشم کے اس درخت کے نیچے آج تک کوئی نہیں اترا ۔اس لئے مجھے کامل یقین ہے کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہی ہیں کیونکہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام نشانیاں جو میں نے تورات و انجیل میں پڑھی تھیں وہ سب میں ان میں دیکھ رہا ہوں۔کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب یہ اپنی نبوت کا اعلان کریں گے تو میں ان کی بھرپور مدد کرتا اور پوری جان نثاری کے ساتھ ان کی خدمت گزاری میں اپنی تمام عمر گزار دیتا۔اے میسرہ!میں تم کو نصیحت و وصیت کرتا ہوں کہ خبردار، ایک لمحہ کے لئے بھی تم ان سے جدا نہ ہونا اور انتہائی خلوص و عقیدت کے ساتھ ان کی خدمت کرتے رہنا کیونکہ اللہ نے ان کو خاتم النبین ہونے کا لقب عطا فرمایا ہے۔

یہ نوجوان رفیقہ حیات کا جب انتخاب کرتا ہے تو مکہ کی نو عمر و شوخ و شنگ لڑکیوں کو ایک زرا سا خراج نگاہ تک دیے بنا ایک ایسی خاتون سے رشتہ استوار کرتا ہے جس کی سب سی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ خاندان اور ذاتی سیرت کے لحاظ سے نہایت اشرف خاتون ہے۔ان کا یہ ذوق انتخاب ان کے ذہن، روح، مزاج اور سیرت کی گہرائیوں کو پوری طرح نمایاں کردیتا ہے۔پیغام خود حضرت خدیجہ ؓ بھیجتی ہیں جو اس یکتائے روز گار نوجوان کے کردار سے متاثر ہوتی ہیں اور یہ نوجوان اس پیغام کو شرح صدر کے ساتھ قبول کرتا ہے۔

کسی شخص کے ذہن و سیرت کو اگر اس کے حلقہ احباب کا جائزہ لینے سے جانچا جا سکتا ہے تو دیکھیں کہ اس عربی نوجوان کے دوست کیسے تھے۔ اعلان نبوت سے قبل جو لوگ حضور ﷺ کے مخصوص احباب و رفقاءتھے وہ سب نہایت ہی بلند اخلاق، اعلیٰ مرتبہ ،ہوش مند اور باوقار تھے۔ ان میں سب سے زیادہ مقرب حضرت ابوبکرؓ تھے۔ جو برسوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وطن اور سفر میں رہے۔ اور تجارت اور دوسرے کاروباری معاملات میں ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک کار وراز دار تھے۔اسی طرح حضرت خدیجہؓ کے چچا زاد بھائی حضرت حکیم بن خزام جو قریش کے نہایت معزز رئیس تھے اور جن کا ایک خصوصی شرف یہ ہے کہ ان کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی تھی یہ بھی حضور ﷺ کے مخصوص احباب میں خصوصی امتیاز رکھتے تھے۔حضرت ضماد بن ثالبؓ جو زمانہ جاہلیت میں طباعت اور جراہ کا پیشہ کرتے تھے یہ بھی احباب خاص میں سے تھے۔حضرت قیس بن شائب مخزومی تجارت کے کاروبار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گہرے دوستوں میں سے تھے ، کہا کرتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ اپنے تجارتی شرکاءکے ساتھ ہمیشہ نہایت ہی ستھرا رہتا تھا اور کبھی بھی کوئی جھگڑا پیش نہیں آتا تھا۔

بچپن کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی بھی، عام لوگوں سے نرالی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شباب مجسم حیا اور چال چلن عظمت و وقار کا کامل نمونہ تھا۔ اعلان نبوت سے قبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام زندگی بہترین اخلاق و عادات کا خزانہ تھی، سچائی، دیانت داری و وفاداری، عہد کی پابندی، قوم کی خدمت، غریبوں اور مفلسوں کی خبر گیری، دشمنوں کے ساتھ نیک برتاﺅ، مخلوق خدا کی خیر خواہی۔ غرض تمام نیک خصلتوں اور اچھی اچھی باتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی بلند منزلوں پر پہنچے ہوئے تھے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے انسانوں کے لئے وہاں تک رسائی تو کیا اس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ کم بولنا، فضول باتوں سے نفرت کرنا، خندہ پیشانی کے ساتھ دوستوں اور دشمنوں سے ملنا۔ ہر معاملے میں سادگی اور صفائی کے ساتھ بات کرنا حضور ﷺ کا خاص شیوہ تھا۔

حرص و طمع، دغا و فریب، جھوٹ، شراب، بدکاری، ناچ گانا، لوٹ مار، چوری، فحش گوئی، عشق بازی ،یہ تمام بری عادتیں اور مزموم خصلتیں جو زمانہ جاہلیت میں گویا ہر بچے کے خمیر میں ہوتی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ان تمام عیوب و نقائص سے پاک رہی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راست بازی، امانت و دیانت کا پورے عرب میں شہرہ تھا اور مکہ کے ہر چھوٹے بڑے کے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے برگزیدہ اخلاق کا اعتبار اور سب کی نظروں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خاص مقام تھا۔

بچپن سے تقریباً چالیس برس کی عمر شریف ہوگئی لیکن زمانہ جاہلیت کے ماحول میں رہنے کے باوجود تمام مشرکانہ رسوم اور جاہلانہ اطوار سے ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن عصمت پاک رہا۔مکہ شرک و بت پرستی کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ خود خانہ کعبہ میں360 بتوں کی پوجا ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والے ہی کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین تھے لےکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بتوں کے آگے سر جھکایا نہیں تھا۔غرض نزول وحی اور اعلان نبوت سے قبل بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مقدس اخلاق حسنہ اور محسن افعال کا مجموعہ اور تمام عیوب و نقائص سے پاک صاف رہی۔چنانچہ اعلان نبوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں نے انتہائی کوشش کی کہ کوئی ادنیٰ سا عیب یا ذرا سی کوئی خلاف تہذیب بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے کسی دور سے بھی مل جائے تو اس کو اچھال کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقار پر حملہ کر کے لوگوں کی نگاہوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذلیل و خوار کریں۔مگر تاریخ گواہ ہے کہ ہزاروں دشمن سوچتے سوچتے تھک گئے لےکن کوئی ایک واقعہ ایسا نہیں مل سکا جس سے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر انگشت نمائی کر سکیں۔لہٰذا ہر انسان اس حقیقت کے اعتراف پر مجبور ہے کہ بلا شبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار انسانیت کا ایک ایسا تخیر العقول اور ایسا غیر معمولی کردار ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی دوسرے کے لئے ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اعلان نبوت کے بعد سعید روحیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھ کر تن من دھن کے ساتھ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہونے لگیں کہ ان کے جان نثاروں کو دیکھ کر شمع کے پروانوں نے جان نثاری کا سبق سیکھا اور حقیقت شناس لوگ فرط عقیدت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن صداقت پر اپنی عقلوں کو قربان کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اسلامی راستہ پر عاشقانہ اداﺅں کے ساتھ زبانِ حال کہتے ہوئے چل پڑے۔