نبوت

عرب میں شراب نوشی، زنا کاری، قمار بازی اور قتل و غارت عام تھی۔دل اس قدر سخت ہوچکے تھے کہ بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ بتوں کی پوجا کرتے اور ان پر انسان کی قربانی چڑھاتے۔ ایسے بد ترین معاشرے میں پیارے آ قا صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس طرح کے گناہوں سے پاک رہی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوصاف حمیدہ، امانت اور دیانت و سچائی و محبت کا پیکر تھے۔ یہاں تک کہ قریش مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ” صادق اور امین“ کا لقب دیا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان میں غار حرا میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور ذکرو فکر میں مصروف رہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دنوں کا توشہ ساتھ لے جاتے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک چالیس برس کی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچے خواب آنے لگے۔ جو کچھ خواب میں دیکھتے تو دن کو وہی معاملہ پیش آتا۔

ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار کے اندر عبادت میں مشغول تھے کہ بالکل اچانک غار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتہ جبرائیل ؑ ظاہر ہوا۔ حضرت جبرائیل ؑ نے کہا کہ پڑھئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں پڑھا لکھا نہیں ہوں۔فرشتے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑا اور نہایت گرم جوشی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زور دار معانقہ کیا، پھر چھوڑ کر کہا

پڑھئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں پڑھا لکھا نہیں ہوں۔حضرت جبرائیل ؑ نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینے سے چمٹایا اور چھوڑ کر کہاپڑھئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار بھی یہی فرمایا میں پڑھا لکھا نہیں ہوں۔حضرت جبرائیل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سینے سے لگا کر چھوڑا اور کہا کہ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، پیدا کیا آدمی کو لہو کی پھٹکی سے، پڑھئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب بڑا کریم ہے جس نے علم سکھایا قلم سے اور انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
(سورہ العلق)

یہی سورہ علق کی وہ ابتدائی آیات تھیں جو پہلی وحی کی صورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں۔ ان آیات کو یاد کر کے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے مگر اس واقعے سے جو بالکل اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر لرزا طاری ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ ؓ سے فرمایا کہ مجھے چادر اوڑھا دو۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ سکون ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہؓ سے غار میں پیش آنے والا واقعہ بیان فرمایا اور فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر نہیں۔ یہ سن کر حضرت خدیجہؓ نے کہا کہ نہیں ہرگز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کو کوئی خطرہ نہیں۔ اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسوا نہیں کریں گے۔

اس کے بعد حضرت خدیجہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی حضرت ورقہ بن نوفل کے پاس لے گیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حرا کا پورا واقعہ ورقہ بن نوفل کے سامنے بیان فرمادیا۔ورقہ بن نوفل نے کہا کہ یہ تو وہی فرشتہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کے پاس بھیجا تھا۔ پھر ورقہ بن نوفل کہنے لگے کہ کاش میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے زمانے میں تندرست جوان رہوں۔کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے باہر نکالے گی۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب سے فرمایا کہ کیا مکہ والے مجھے مکہ سے نکال دیں گے؟ تو ورقہ نے کہا جی ہاں! جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نبوت لے کر آیا اس کے ساتھ یہ لوگ دشمنی پر کمر بستہ ہوگئے۔

اس کے بعد کچھ دنوں تک وحی اترنے کا سلسلہ بند ہوگیا اور کچھ دنوں کے بعد یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔کچھ عرصے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورة مدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ان آیات کے نزول کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے نبوت کے منصب پر فائض فرمادیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حکم کے مطابق دعوت حق اور تبلیغ کے لئے کمر بستہ ہوگئے۔تین برس تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی پوشیدہ طور پر نہایت راز داری کے ساتھ تبلیغ اسلام کا فرض ادا کرتے رہے۔ اسی دوران آزاد عورتوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکرؓ، لڑکوں میں حضرت علیؓ، غلاموں میں حضرت زید بن حارثؓ ایمان لائے۔پھر حضرت ابوبکرؓ کی دعوت تبلیغ سے بہت سے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔

تین برس کی خفیہ دعوت اسلام میں مسلمانوں کی ایک جماعت تیار ہوگئی۔ اس کے بعد اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر سورة شوریٰ کی آیت نازل فرمائی اور اللہ کا حکم ہوا کہ
اے محبوب !اپنے قریبی خاندان والوں کو خدا سے ڈرایے
تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا کی چوٹی پر چڑھ کر
اے سرداران قریش کہہ کر قبیلہ قریش کو پکارا جب سب جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے میری قوم اگر میں تم لوگوں سے کہہ دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر چھپا ہوا ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو تم میری بات کا یقین کر لو گے؟ تو سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہاں! ہم یقین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا یقین کر لیں گے کیونکہ ہم نے ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا اور امین پایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تو پھر میں تم لوگوں کو بتوں کی بجائے اللہ کے معبود ہونے کا پیغام دیتا ہوں۔ یہ سن کر تمام قریش جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ابولہب بھی تھا۔ سخت ناراض ہوئے اور چلے گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اول فول بکنے لگے۔ اب وہ وقت آگیا کہ اعلان نبوت کے چوتھے سال سورت حجر کی آیت نازل ہوئی جس میں اللہ نے یہ حکم فرمایا کہ
اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو حکم دیا گیا ہے اس کو علی الاعلان بیان فرمادیجئے۔

چنانچہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعلانیہ طور پر دین اسلام کی تبلیغ فرمانے لگے اور شرک و بت پرستی کی کھلم کھلا برائی بیان فرمانے لگے۔ مشرکین مکہ کے ڈر سے مسلمان چھپ کر دار ارقم میں عبادت کرتے اور نماز پڑھتے۔پھر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ ابو جہل یا حضرت عمر بن خطابؓ میں سے ایک مسلمان ہو جائے تو ہمیں بہت طاقت مل جائے گی۔

حضرت عمرؓ ایک دن اپنی بہن کے گھر گئے وہ قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف تھیں۔آپؓ نے
ان کو تلاوت قرآن پاک مصروف دیکھا تو بہت غصے سے تلوار لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار اقدس میں حاضر ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہر اقدس پر نظر پڑی تو تلوار ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئی اور آپ ؓ نے اسلام قبول فرما لیا۔اس کے بعد حضرت عمر فاروقؓ نے کہا کہ ہم بیت اللہ شریف میں اعلانیہ نما زادا کریں گے۔ اب تمام قریش بلکہ تمام اہل مکہ بلکہ پورا عرب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذاءرسانیوں کا طولانی سلسلہ شروع ہوگیا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طرح طرح کی اذیتیں دیں اور روز بروز تشدد میں اضافہ کرتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر کاہن، جادو گر اور پاگل بتایا جاتا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر تبلیغ فرماتے رہے۔ ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے، حرم شریف میں اس وقت قریش کی ایک جماعت موجود تھی۔ عقبہ بن ابی معیط نے ابو جہل کے کہنے پر سجدے کی حالت میں اونٹوں کی اوجھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں شانوں کے درمیان رکھ دی اور قہقہے لگانے لگے۔کسی نے حضرت بی بی فاطمہؓ کو اطلاع دی انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک سے وہ پلیدی دور کی اور روتے ہوئے ان کو برا بھلا کہا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہوکر ان کے لئے بددعا فرمائی:
یا اللہ تو گروہ قریش کو پکڑ، ابو جہل، عقبہ بن ربیع، شیبہ بن ربیع، امیر بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو بھی پکڑ
اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ بدر کے دن یہ سب قتل ہوئے اور امیہ کے علاوہ سب کو بدر کے کنویں میں پھینک دیا۔ امیہ موٹا تھا اسے کنویں میں ڈالنے کے لئے اٹھانے لگے تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔

ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی محیط نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک میں چادر ڈال کر کھینچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھٹنوں کے بل گر پڑے، لوگوں کو گمان ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔یہ ازیتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ غریب مسلمان جن کا کوئی مدد گار نہ تھا ان کو بہت اذیتیں دیں۔ آگ پر لٹا دیتے، تپتی ریت پر لٹا کر بھاری پتھر سینے پر رکھ دیتے، چابک سے اس قدر مارنا کہ چابک ٹوٹ جائے، چٹائی میں لپیٹ کر ناک میں دھوئیں دینا، پاﺅں میں رسی باندھ کر تپتی ریت پر گھسیٹنا، مارنا پیٹنا، گویا ہر قسم کی اذیت دیا کرتے تھے۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مسلمانوں کا مکہ میں رہنا مشکل ہوگیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ملک حبشہ کا بادشاہ کسی پر ظلم نہیں ہونے دیتا، تم اس طرف ہجرت کر جاﺅ۔نبوت کے پانچویں سال میں ماہ رجب میں گیارہ مردوں اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی جن میں حضرت عثمانؓ اور ان کی زوجہ محترمہ حضرت رقیہؓ بنت رسول ﷺ بھی شامل تھیں۔ مہاجرین تین ماہ حبشہ میں امن سے رہے۔شعبان کے مہےنے میں ان کو غلط خبر پہنچائی گئی کہ مکہ کے لوگ ایمان لے آئے ہیں۔ اس لئے ان میں سے اکثر واپس مکہ چلے گئے۔قریش نے حبشہ سے آنے والوں کو دوسرے مسلمانوں سے زیادہ تنگ کر نا شروع کردیا۔ اس طرح نبوت کے چھٹے سال 83 مرد اور 18عورتیں حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔

قریش نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی خدمت میں تحائف بھیجے اور عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ کو حبشہ بھیجا۔انہوں نے کہا کہ چند لونڈوں نے نیا دین ایجاد کیا ہے جو نصرانیت اور بت پرستی سے الگ ہے وہ آپ کے پاس پناہ گزین ہیں۔ آپ ان کو ہمارے حوالے کردیں۔ نجاشی نے مہاجرین کو دربار میں طلب کیا۔

حضرت جعفر بن ابی طالبؓ نے نجاشی کو بتایا
ہم جاہل قوم تھے، بتوں کو پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاریاں کرتے تھے، اپنوں سے دشمنی رکھتے تھے، پڑوسیوں سے براسلوک کرتے تھے، طاقتور کمزوروں پر ظلم کرتے تھے، اللہ نے ہم میں سے ایک رسول بھیجا جن کے اوصاف صداقت، امانت اور پرہےز گاری تھے۔ اس نے ہم کو دعوت دی کہ ایک خدا کی عبادت کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، امانت ادا کیا کریں، یتیموں کا مال نہ کھایں اور جو ہر قسم کا گناہ کیا کرتے تھے اس سے پرہیز کریں۔ پس ہم اس پر ایمان لے آئے اور اللہ کی عبادت کرنے لگے۔ ہماری قوم نے ہم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ۔تنگ آکر ہم آپ کے ملک میں آپ کی پناہ میں آگئے۔
نجاشی نے کہا
تمہارے پیغمبر پر جو پیغام اترا ہے اس میں سے کچھ سناﺅ۔
حضرت جعفر ؓ نے سورة مریم کی چند آیات پڑھ کر سنائ۔ نجاشی اتنا رویا کہ اس کی داڑھی تر ہوگئی۔ اس نے کہا کہ یہ کلام اور انجیل دونوں ایک ہی ہیں۔
اس نے قریش سے کہا کہ تم واپس چلے جاﺅ اللہ کی قسم میں ان کو تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔ جب قریش نے یہ دیکھا کہ حضرت حمزہ ؓ اور حضرت عمرؓ جیسے لوگ بھی اسلام لا چکے ہیں اور نجاشی نے بھی مسلمانوں کو پناہ دے دی ہے۔ تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ابو طالبؓ کو یہ خبر پہنچی تو وہ بنو ہاشم اور بنو مطلب کو جمع کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب کی مرضی کے مطابق حفاظت کے لئے ایک درے میں لے گئے۔ہاشم مطلب کی اولاد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی پناہ میں لے لیا سوائے ابو لہب کے۔


قریش نے کہا بنو ہاشم اور بنو مطلب سے لین دین موقوف کردیں اور قطع تعلق کریں گے تو یہ لوگ تنگ آکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے حوالے کر دیں گے۔ انہوں نے معاہدہ لکھ کر دیوار سے لٹکا دیا۔ باہر سے جو غلہ آتا وہ خود خرید لیتے اور مسلمانوں تک نہ پہنچنے دیتے۔ اور اگر کوئی اپنے مسلمان رشتے دار کو اناج بھیجتا تو یہ اس تک نہ پہنچنے دیتے۔

بنو ہاشم شعب ابی طالب میں طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتے رہے۔ حضرت ابو طالبؓ حفاظت کی غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر لٹا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ اپنے کسی بھائی یا بیٹے کو لٹا دیتے۔تین سال اسی حالت میں گزر گئے۔ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ معاہدے کو دیمک چاٹ گئی ہے صرف اللہ کا نام باقی ہے۔

حضرت ابو طالبؓ نے قریش کو کہا کہ میرے بھتیجے نے خبر دی ہے کہ معاہدے کو دیمک نے چاٹ لیا ہے صرف اللہ کا نام باقی ہے۔ تم اپنا معاہدہ لاﺅ اگر یہ خبر صحیح نکلی تو تم قطع تعلق سے باز آجاﺅ، اگر غلط نکلی تو اپنے بھتیجے کو تمہارے حوالے کردوں گا۔قریش راضی ہوگئے جب معاہدہ دیکھا تو ویسا ہی پایا جیسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کچھ بحث مباحثے کے بعد قریش کے سردار اس کو پھاڑنے پر آمادہ ہوگئے۔ رمضان کے مہےنے میں حضرت ابو طالبؓ نے وفات پائی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد حضرت خدیجہؓ بھی وفات پاگئں۔ اب قریش اور زیادہ ظلم و ستم کرنے لگے۔

تنگ آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف جانے اور ان کو اللہ کا پیغام دینے کا سوچا۔ طائف جاکر دعوت اسلام دی لےکن جو وہاں کے سردار تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت بری طرح پیش آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مایوس ہوکر واپس آنے لگے تو کچھ شریر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگا دئےے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین مبارک خون سے بھر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عتبہ اور شیبہ کے باغ میں ایک انگور کی بیل کے سائے میں بیٹھ گئے۔ عتبہ اور شیبہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے دشمن تھے مگر اس حالت میں ان کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم آگیا۔ انہوں نے اپنے غلام عدث سے کہا انگور کا خوشہ تھال میں رکھ کر لے جاﺅ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ پڑھ کر کھایا۔ عدث حیران ہوا کہ یہاں لوگ ایسا نہیں کہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کہاں سے ہو؟عدث نے کہا تینسوا سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ تو حضرت یونسؑ کا شہر ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بھی میری طرح پیغمبر تھے۔ یہ سن کر عدث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پاﺅں چومنے لگا اور اسلام لے آیا۔

اس حالت میں اللہ نے پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا۔ اس نے سلام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں ۔آپ کے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھیجا ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں تو ان دو پہاڑوں کو ان پر الٹ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف والوں کے لئے دعا کی اور فرمایا
امید ہے کہ اللہ ان کی پشتوں سے اپنے بندے پیدا کرے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔

ہر سال حج کے موقع پر بہت بڑا میلہ لگتا تھا جو ذوالحج کی پہلی تاریخ سے 8 تاریخ تک لگتا تھا اس کے بعد لوگ حج کے لئے نکلتے۔ قبیلہ خزرج کے چھ آدمیوں نے عقبہ کے نزدیک اسلام قبول کیا، یہ لوگ مدینہ شریف سے تھے۔مدینہ میں آکر دو قبیلے آباد ہوئے ان کے حلیف یہود تھے۔
ان کے لوگوں نے مدینہ جاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کا ذکر کیا تو مدینہ سے اوس اور خزرج کے لوگوں نے کہا کہ
واللہ یہ تو وہی ہیں جن کے بارے میں یہود بتایا کرتے تھے کہ ایک پیغمبر عنقریب مبعوث ہونے والا ہے۔ کہیں یہود ہم سے سبقت نہ لے جائےں اس لئے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے اور اپنے بھائی بندوں کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی دعوت دی۔

اگلے سال حج کے موقع پر12مردوں نے عقبہ کے مقام پر اسلام قبول کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ حضرت مصعب بن عمیرؓ کو اسلام کی تعلیم دینے کی غرض سے بھیجا۔ قبیلے کے سردار سعد بن معاذ اور ان کے بھائی ایمان لے آئے تو ان کا سارا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔نبوت کے تیرہویں سال حج کے موقع پر 73 مرد اور دو عورتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اسلام قبول کر لیا۔ اس بیعت کو بیعت عقبہ ثانیہ کہتے ہیں۔