مواخات

مہاجرین اپنے وطن سے بے سرو سامانی کی حالت میں چھپ کر نکلے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار میں اخوت کا رشتہ قائم کیا۔ مہاجرین کی تعداد45سے 50کے قریب تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہاجر اور ایک انصار کو بلا کر فرماتے کہ آپ بھائی ہیں۔اس طرح انصار نے اپنے گھر بار مال و دولت میں سے آدھا حصہ اپنے مہاجر بھائی کو دے دیا۔ حضرت سعدؓ نے کہا کہ میرے پاس سب سے زیادہ مال ہے۔ میری دو بیویاں ہیں۔ میں اپنی ایک بیوی اور آدھا مال حضرت عبدالرحمٰن ؓکو دیتا ہوں۔ لےکن حضرت عبدالرحمٰن ؓ نے لینے سے انکار کردیا۔
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ مواخات کے بعد انصار و مدینہ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمارے نخلستان ہمارے مہاجر بھائیوں میں تقسیم کردیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرمایا تو انصار نے کہا کہ مہاجرین درختوں کے سائے میں درختوں کو پانی دینے کا کام کر لیں اور پھل ہم دونوں تقسیم کر لیا کریں گے اس پر سب نے اتفاق کیا۔
جب7 ہجری میں مدینہ فتح ہوا تو مہاجرین کے حصے میں اتنا مال آیا کہ ان کو انصار کے نخلستان کی حاجت نہ رہی۔
پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کعبہ کی طرف نماز پڑھا کرتے تھے۔ہجرت کے بعد اللہ نے بیت المقدس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبلہ مقرر فرما دیا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 16یا17ماہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی۔ یہود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طعنہ دیتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت آرزو تھی کہ سنت ابراہیمی کی طرح میرا کعبہ ابراہیمی یعنی کعبہ ہو۔
سورة البقرة آیت 17
بیشک ہم دیکھتے ہیں تیرے منہ کا آسمان کی طرف پھرنا اور ہم ضرور پھیریں گے تجھ کو اس قبلہ کی طرف کہ تو جسے پسند کرتا ہے، پس پھیر اپنا منہ مسجد حرام کی طرف، پس تم جس جگہ ہوا کرو، پھیر و منہ اپنا اس طرف۔
نصف رجب یا نصف شعبان آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد بنو سلمہ میں نماز ادا فرما رہے تھے۔ تیسری رکعت میں وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ہی میں کعبہ کی طرف منہ پھیر لیا مقتدیوں نے بھی اپنا رخ کعبہ کی طرف پھیر دیا۔ اس مسجد کو مسجد قبلتین کہتے ہیں، اس کے بعد مسلمان بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے لگے۔