User Tag List

Results 1 to 1 of 1

Thread: 1.غزوات

  1. #1
    Administrator
    Join Date
    Feb 2017
    Posts
    1,587
    Thanked: 5
    Mentioned
    0 Post(s)
    Tagged
    0 Thread(s)

    1.غزوات


    غزوات

    غزوہ اس جنگ کو کہتے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود شامل ہوئے ہوں۔ اور جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود شامل نہ ہوئے ہوں بلکہ کسی صحابیؓ یا اصحابؓ کو دشمن کے مقابلے کے لئے بھیجا ہوتو وہ سریا کہلاتا ہے۔سریا کی تعداد 45ہے اور غزوات کی تعداد 27 ہے۔غزوات میں غزوہ ابواماہ صفر میں ہجرت کے پہلے سال ہوا۔ اس کو بدر اولیٰ بھی کہتے ہیں ۔ یہ ماہ ربیع الاول میں ہوا۔

    غزوہ بدر
    یہ سب سے بڑا غزوہ تھا۔ بدر کے مقام پر یہ جنگ ہوئی۔ یہ بہت عظیم معرکہ تھا۔ جس میں کفار اور مسلمانوں کے درمیان سخت خون ریزی ہوئی اور مسلمانوں کو وہ عظیم الشان فتح حاصل ہوئی جس کو فتح مبین کہاجاتا ہے۔ اللہ نے جنگ بدر کا نام یوم الفرقان رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب ؓسے مشورہ کیا کہ کفار کی ٹولیاں یہاں لوٹ مار کے لئے مدینہ کے اطراف میں آتی رہتی تھی۔ کفار قریش کا قافلہ ابو سفیان کی نگرانی میں ملک شام تجارت کی غرض سے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس قافلے پر حملہ کر کے لوٹ لیں تاکہ قریش کا شام کی طرف تجارت کا رستہ بند ہوجائے۔ اس طرح مجبور ہوکر وہ ہم سے صلح کر لیں گے۔اکیس رمضان دو ہجری کو اس حال میں قافلے سے مقابلے کے لئے روانہ ہوئے کہ حضور ﷺ کے ساتھ زیادہ ہتھیار تھے نہ راشن کی بڑی مقدار۔ کیونکہ کسی کو گمان نہ تھا کہ اس سفر میں جنگ ہوجائے گی۔جب مکہ میں خبر پھیلی کہ مسلمان قریش کا قافلہ لوٹنے کے لئے مدینہ سے چل پڑے ہیں تو کفار مسلمانوں پر حملے کے تیار ہوگئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو صحابہؓ سے مشورہ کیا۔سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی۔ سرداران مکہ میں سے ابو لہب کے علاوہ قریش کے تمام روساءپوری طرح مسلح ہوکر نکلے۔ایک ہزار کا لشکر جرار، پوری طرح سے مسلح، دوہرے ہتھیار رکھتے تھے۔فوج کی خوراک کا انتظام یہ تھا کہ قریش کے مالدار لوگ باری باری روزانہ دس دس اونٹ ذبح کرتے۔
    حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ ؓ کے ساتھ بدر میں ایسی جگہ پر جہاں نہ کوئی چشمہ تھا نہ کوئی کنواں۔ ریتلی زمین گھوڑوں کے پاﺅں زمین میں دھنس جاتے۔ اللہ کی شان کہ تیز بارش ہوئی جس سے میدان کی ریت جم گئی۔مسلمانوں کے لئے چلنا آسان ہوگیا اور مسلمانوں نے بارش کا پانی روک کر جگہ جگہ حوض بنا لئے۔ ادھر کفار کی زمین کیچڑ بن گئی۔ سترہ رمضان دوہجری کی جمعہ کی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات دعا میں مصروف رہے ۔صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں چھڑی تھی جس سے زمین پر ایسے لکیر بناتے جاتے اور فرماتے کہ یہ فلاں کافر کے قتل ہونے کی جگہ ہے۔ کل فلاں کی لاش یہاں ہوگی۔چنانچہ بہت سے کافروں کے قتل ہونے کی جگہیں بتائیں اور جنگ میں ایسا ہی ہوا۔ سترہ رمضان کو دست مبارک میں چھڑی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجاہدین اسلام کی صفیں درست فرماتے۔ صحابہ اکرامؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک چھپر میں نشت بنا رکھی تھی۔حفاظت کا سوال پیدا ہوا تو یارِ غار حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حصے میں یہ سعادت آئی۔وہ ننگی تلوار سے چھپر کے باہر پہرہ دیتے رہے۔حضرت سعد بن معاذ بھی چند انصاریوں کے ساتھ پہرے میں شامل رہے۔

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نازک گھڑی میں اللہ سے دعا کی
    اے اللہ ! تو نے مجھے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا فرمادے۔ یا اللہ! اگر یہ چند نفوس ہلاک ہوگئے تو قیامت تک روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔

    اس جنگ میں اللہ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے فرشتوں کا لشکر اتارا۔ جنکی تعداد پہلے ایک ہزار پھر تین ہزار اور پھر پانچ ہزار ہوگئی۔جنگ میں فرشتے کسی کو نظر نہیں آتے تھے مگر ان کی ضرب صاف نظر آتی تھی۔ بعض کافروں کی ناک اور منہ پر کوڑوں کی مار کا نشان پایا جاتا۔ کہیں بغیر تلوار نظر آئے سر کٹتا نظر آتا۔عتبہ ، شیبہ اور ابو جہل جیسے سرداران کی ہلاکت سے کفار مکہ کی کمر ٹوٹ گئی تو سب ہتھیار ڈال کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ مسلمانوں نے ان کو گرفتار کرنا شروع کردیا۔ اس جنگ میںستر قتل اورسترگرفتار ہوئے۔ باقی اپنا سامان چھوڑ کر بھاگ گئے۔

    جنگ بدر میں14مسلمان شہادت سے سرفراز ہوئے جن میں سے چھ مہاجرین اور آٹھ انصار تھے۔ تمام کفار کی لاشیں گڑھے میں ڈال دی گئیں۔

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گڑھے کے کنارے کھڑے ہوکر نام لے کر پکارا
    کیا تم اپنے اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا؟
    ہم نے تو اپنے رب کے وعدے کو بالکل سچا پایا۔

    حضرت عمر فاروقؓ نے تعجب سے عرج کیا کہ ان بے روح جسموں سے کلام فرما رہے ہیں۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
    خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میرے جان ہے تم ان سے زیادہ میری بات کو نہیں سن سکتے لےکن بات یہ ہے کہ یہ جواب نہیں دے سکتے۔

    فتح کے تین دن تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر میں قیام فرمایا اور مال غنیمت لے کر مدینہ روانہ ہوئے اور مال غنیمت مہاجرین میں تقسیم فرمادیا۔

    حضرت عثمانؓ کی زوجہ محترمہ حضرت رقیہؓ جو بیمار تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں انؓؓ کو اس وقت دفن کیا جارہا تھا اسی وجہ سے حضرت عثمانؓ جنگ بدر میں شامل نہ ہوسکے تھے۔ کفار سے جو قیدی ہوئے تھے ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے تو حضرت ابوبکرؓ نے مشورہ دیا کہ ان سے فدیہ لے کر رہا کردیا جائے اس طرح مسلمانوں کی مالی مدد ہوجائے گی۔ اور شاید ان میں سے اسلام قبول کر لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رائے پسند آئی اور قیدیوں کو چار چار درہم لے کر آزاد کر دیا گیا۔ جو صحابہ کرامؓ جنگ بدر میں شامل ہوئے وہ ایک خصوصی شرف کے ساتھ ممتاز ہیں۔ ان کے فضائل میں ایک بہت عظیم الشان فضیلت یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
    بیشک اللہ اہل بدر سے واقف ہے اور اس نے فرمایا تم جو چاہے عمل کرو بلاشبہ تمہارے لئے جنت واجب ہوچکی ہے۔ یا یہ فرمایا کہ میں نے تمہیں بخش دیا۔

    حضرت عثمانؓ اس جنگ میں شریک نہ ہوسکے لیکن ان کو بھی اصحاب بدر کی صف میں شامل کیا گیا اور مال غنیمت میں بھی ان کو مجاہدین کے برابر حصہ دیا گیا۔

    غزوہ احد
    احد ایک پہاڑی کا نام ہے جو مدینہ سے تین میل دور ہے۔حق و باطل کا یہ عظیم معرکہ 3ہجری کو اس پہاڑ کے دامن میں پیش آیا اس لئے یہ غزوہ احد کے نام سے مشہور ہے۔جنگ بدر میں سرداران قریش کے قتل اور گرفتاریوں کی وجہ سے بچہ بچہ انتقام کی آگ میں جل رہا تھا۔ چنانچہ مقتولین کے ماتم سے فرصت ملی تو انہوں نے اس بات کا ارادہ کیا کہ جیسے ممکن ہو مسلمانوں سے اپنے مقتلوں کے خون کا بدلہ لیں گے۔سب مشورے کے لئے ابو سفیان کے پاس گئے اور کہا کہ مسلمانوں نے ہمارے رشتہ داروں کا قتل کیا ہے ہم نے اس کا بدلہ لینا ہے۔ اس کے لئے ایک عظیم الشان فوج تیار کر کے مدینہ پر چڑھائی کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو نیست و نابود کردیا جائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہؓ نے ہند کے باپ عتبہ اور جبیر بن معطم کے چچا کو جنگ بدر میں قتل کیا تھا۔ ہند نے وحشی غلام سے وعدہ کیا کہ اگر اس نے حضرت حمزہؓ کو قتل کردیا تو اس کو آزاد کردیا جائے گا۔
    یہ بہت بڑا لشکر ابو سفیان کی سپہ سالاری میں مکہ روانہ ہوا۔

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خط کے ذریعے پتا چلا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بھائیوں آنس اور مونس کو جاسوس بنا کر خبر لانے کے لئے روانہ کردیا۔ انہوں نے آکر بتایا کہ لشکر مدینہ کے قریب پہنچ چکا ہے۔یہ خبر سن کر 14شوال 3 ہجری جمعہ کے روز حضرت سعد بن معاذ ؓاور حضرت سعد بن عبادہؓ کچھ اور انصاریوں کے ساتھ رات بھر پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے باہر پہرا دیتے رہے۔صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو جمع کر کے مشورہ طلب کیا۔ جو لوگ بدر میں شامل نہ ہوسکے تھے ان کی رائے تھی کہ میدان میں نکل کر دشمن سے فیصلہ کن جنگ کی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر گئے اور ہتھیار لگا کر تشریف لائے اور فرمایا کہ پیغمبر کے لئے زیبا نہیں کہ ہتھیار پہن کر اتار دے یہاں تک کہ اللہ اس کے اور اس کے دشمنوں کے درمیان فیصلہ فرما دے۔تم لوگ اللہ کا نام لے کر میدان میں نکل پڑو اور اگر تم لوگ صبر کے ساتھ میدان جنگ میں ڈٹے رہے تو ضرور تمہاری فتح ہوگی۔

    اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم1000کی فوج لے کر مدینہ سے نکلے۔ عبداللہ بن ابی بھی 300سواروں کے ساتھ لشکر میں شامل تھا۔ تھوڑا آگے جاکر اس نے کہا کہ محمد ﷺ نے میرا مشورہ قبول نہیں کیااس لئے میں ان کا ساتھ نہیں دیتا، اب مسلمانوں کے لشکر میں کل700 صحابہؓ رہ گئے۔ جن میں سے100کے پاس زرہ تھی۔کفار کی فوج کا3000 ہزار کا لشکر تھا ۔ان میں سے700 زرہ پوش تھے، 200 گھوڑے، 3000ہزار اونٹ، اور15 اونٹنیاں تھیں۔مشرکین نے12 شوال 2 ہجری میں مدینہ کے قریب کوہ احد پر اپنا پڑا ﺅ ڈالا ہوا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم14شوال کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ لشکر کے پیچھے پہاڑ تھا جس میں ایک درہ تھا۔ جس سے گزر کر کفار مسلمانوں کی صفوں پر پیچھے سے حملہ کر سکتے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درہ کی حفاظت کے لئے یہاں50 تیر اندازوں کا دستہ مقرر فرمایا۔

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن جبیرؓ کو اس دستہ پر مقرر کرتے ہوئے فرمایا
    چاہے ہم غالب ہوں یا مغلوب تم اپنی جگہ سے اس وقت تک نہ ہٹنا جب تک میں تمہارے پاس کسی کو نہ بھیجوں۔

    وحشی جو ایک غلام تھا ایک چٹان کے پیچھے چھپا ہواحضرت حمزہؓ کی تاک میں تھا۔ جوں ہی آپؓ اس کے قریب پہنچے اس نے اپنا نیزہ مارا جو آپ ؓ کی ناف میں لگتے ہوئے پار ہوگیا اور آپ ؓ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔اس جنگ میں مجاہدین مہاجرین و انصار بڑی دیدہ دلیری سے لڑے یہاں تک کہ مشرکین کے پاﺅں اکھاڑ دئےے۔ کفار کو شکست ہوئی اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے۔فتح کا یہ منظر دیکھ کر50 تیر انداز جو درے کی حفاظت پر مقرر تھے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو بھول کر مال غنیمت لوٹنے میں مصروف ہوگئے۔خالد بن ولید نے، جو ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا، درہ خالی دیکھا تو پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ کافروں کی فوج کا راستہ صاف ہوگیا اور کفار کی فوج بھی واپس مسلمانوں پر پلٹ پڑی۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت مشابہت رکھتے تھے ان کو زمین پر گرتے دیکھ کر کفار نے شور مچا دیا کہ نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیا گیا ہے۔ مسلمان یہ بات سن کر بد حواس ہوگئے۔

    حضرت انسؓ کے چچا لڑتے لڑتے میدان جنگ سے بھی آگے نکل گئے۔ دیکھا کہ کچھ مسلمانوں نے مایوس ہوکر ہتھیار پھینک دیئے ہیں ان سے پوچھا تم یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ انہوں
    نے جواب دیا۔ جن کے لئے لڑ رہے تھے وہ تو شہید ہوگئے۔

    حضرت انسؓ کے چچا نے کہا کہ اب ہم زندہ رہ کر کیا کریں گے۔ چلو ہم بھی میدان میں شہید
    ہوکر ان کے پاس پہنچ جائےں گے۔ یہ کہہ کر یہ لوگ دشمن کے لشکر میں گھس گئے اور بہت بہادری سے لڑے ۔ حضرت کعب بن مالکؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو مسلمانوں کو پکارا ۔سب کی جان میں جان آگئی۔ بہت سے صحابہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوگئے۔ اسی اثنا میں عبداللہ بن امیہ جو قریش کا بہادر مانا جاتا تھا وہ مسلمانوں کو چیرتا ہوا پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور پر تلوار ماری جس سے ۲ کڑیاں چہرئہ انور میں چبھ گئیں۔ مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا اور بڑھ کر کفار پر حملہ کیا اور کفار کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔

    ہندہ نے حضرت حمزہؓ کی لاش کی بے حرمتی کی اور ان کے شکم مبارک کو چاک کیا اور آپ ؓ کا جگر چبایا۔عبداللہ بن امیہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ انور پر تلوار چلائی تھی اس کو ایک پہاڑی بکرے نے اللہ کے حکم سے سینگ مار کر زخمی کر ڈالا اور پہاڑ سے نیچے گرا دیا جس سے اس کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔اس جنگ میں 70 صحابہؓ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ 30 کے قریب کفار قتل ہوئے۔غزوہ احد میں مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا۔ حضور اکرم ﷺ کے بے شمار جان نثار صحابہؓ نے شہادت پائی۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے چچا حضرت حمزہؓ بھی شہید ہوئے جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سید الشہداءکا نام دیا۔

    غزوہ غطفان
    حضور ﷺ نے ربیع الاول3 ہجری میںخبر سنی کہ نجاد کے ایک مشہور دثور بن حارث نے ایک لشکر مدینہ پر حملے کے لئے تیار کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چالیس صحابہ کی فوج لے کر مقابلے کے لئے روانہ ہوئے۔ جب دثور کو خبر ملی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے علاقے میں آگئے ہیں تو وہ بھاگ گیا اور لشکر لے کر پہاڑوں پر چڑھ گیا۔ اس کا ایک آدمی ہبان گرفتار ہوا۔ اور وہ مسلمان ہوگیا۔ اس روز تیز بارش ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے دور ایک درخت کے نیچے لیٹے ہوئے تھے کہ دثور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبار ک پر تلوار لے کر پہنچ گیا اور بولا، بتاﺅ اب کون ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ سے بچائے گا۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیرا اللہ
    حضرت جبرائیل ؑ زمین پر اترے اور دثور کے سینے میں زور دار گھونسہ مارا۔ تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اب بتا تجھے میری تلوار سے کون بچائے گا؟اس نے کہا کوئی نہیں۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس کی بے بسی پر رحم آگیا اور اسے معاف فرمادیا۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ سے متاثرہ ہوکر دثور نے اسلام قبول کر لیا اور اسلام کی تبلیغ کرنے لگا۔
    اس غزوے میں کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ تقریبا15 دن وہاں رہنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لے گئے۔

    غزوہ حمرة الاسد
    شوال3 ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبداللہ بن عمرؓ نے اطلاع دی کہ کفار کا لشکر ابو سفیان کی سر براہی میں حمرة الاسد جمع ہورہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ حمرة الاسد پہنچے،3 روز تک وہاں قیام کیا لےکن جنگ کی نوبت نہ آئی۔

    غزوہ بنو نضیر
    حضرت عمرو بن امیہ ؓ نے بنو کلعب کے دو لوگوں کو قتل کردیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بنو نضیر کے یہودیوں کے پاس خون بہا کا معاہدہ کرنے تشریف لے گئے۔ بظاہر یہودیوں نے بہت اخلاق کا مظاہرہ کیا مگر اندرونی طور پر ایک خوفناک سازش تیار کئے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ بھی تھے۔ یہودیوں نے سب کو ایک دیوار کے نیچے احترام سے بٹھایا اور مشورہ کیا کہ اوپر سے دیوار کے دو پاٹ گرا کر ان کو یہاں ہی ختم کردیں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اطلاع دے دی گئی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سب وہاں سے فوراً اٹھ آئے۔مدینہ تشریف لا کر صحابہؓ کو سازش کا بتایا اور یہودیوں کو پیغام بھیجا کہ تم نے معاہدہ توڑ دیا ہے اس لئے دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جاﺅ۔عبداللہ بن ابی نے کہا کہ مدینہ سے نہ نکلو میں دو ہزار کی فوج سے تمہاری مدد کروں گا۔ یہودیوں نے مدینہ چھوڑنے سے انکار کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے قلعہ کا محاصرہ کر لیا۔ عبداللہ بن ابی ان کی مدد کو نہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قلعہ کے ارد گرد کھجوروں کے کچھ درخت بھی کٹوا دئےے تاکہ یہودیوں ان میں چھپ نہ سکیں۔آخر کار محاصرے سے تنگ آکر یہودی اپنے گھر بار چھوڑ کر اونٹوں پر مال اسباب لاد کر مدینہ سے نکل گئے۔ بعد میں ان کے گھروں سے50 لوہے کی ٹوپیاں، 50 زریں اور 340 تلواریں ملیں۔

    Last edited by Admin-2; 03-01-2017 at 05:29 PM.

Similar Threads

  1. 37:جنگ کا آغاز
    By Admin-2 in forum 37:جنگ کا آغاز
    Replies: 0
    Last Post: 05-04-2017, 07:50 PM
  2. 2.غزوات
    By Admin-2 in forum 8.غزوات
    Replies: 0
    Last Post: 03-01-2017, 05:31 PM
  3. معرکہ حق و باطل کا آغاز
    By Admin-2 in forum معرکہ حق و باطل
    Replies: 0
    Last Post: 02-27-2017, 08:00 PM

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •