خطبہ حجة الوداع

دس ہجری کے واقعات میں سے شاندار اور اہم ترین واقعہ حجة الوداع ہے۔
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری حج تھا اورہجرت کے بعد یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا حج تھا۔ ذیعقعددس ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے لئے روانگی کا اعلان فرمایا۔ یہ خبر بجلی کی طرح سارے عرب میں ہر سو پھیل گئی اور تمام شرفاءعرب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی کے لئے تیار ہوگئے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ذیقعد کے آخر میں جمعرات کے دن مدینہ میں غسل فرما کر تہمبند اور چادر زیب تن فرمایا اور نماز ظہر مسجد نبوی ﷺ میں ادا فرما کر مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے اور اپنی تمام ازواج مطہرات کو بھی ساتھ چلنے کا حکم دیا۔
مدینہ سے چھ میل دور اہل مدینہ کی میقات ذو الحلیفہ پہنچ کر رات بھر قیام فرمایا پھر احرام کے لئے غسل فرمایا۔

حضرت بی بی عائشہؓ نے اپنے ہاتھوں سے جسم اطہر پر خوشبو لگائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دورکعت نماز ادا فرمائی اور چارذو الحج کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان بنو ہاشم کے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر سنی تو خوشی سے دوڑ پڑے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز مقام ریٰ میں ادا کی اور غسل فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور پشت کے وقت یعنی جب آفتاب بلند ہوچکا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ مناسک حج ادا کر تے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات پہنچ کر ایک کمبل کے خیمے میں قیام فرمایا۔

جب سورج ڈھل گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہوکر خطبہ پڑھا۔اس خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے ضروری احکام و اسلام کا اعلان فرمایا اور زمانہ جاہلیت کی تمام برائیوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹاتے ہوئے فرمایا
زمانہ جاہلیت کے تمام دستور میرے قدموں کے نیچے ہیں۔
پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر دو خطبے دیے۔
پہلا عرفات کی پہاڑی پر نوذو الحج کو اور دوسرا دس ذو الحج کو منیٰ میں ۔

خطبہ عرفات
زمانہ جاہلیت کے خاندانی و تفاخر اور رنگ و نسل کی برتری اور قومیت میں اونچ نیچ کے بتوں کو پاش پاش کرتے ہوئے اور مساوات کا حکم بلند کرتے ہوئے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تاریخی خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ
بیشک کہ تمہارا رب اللہ ہے اور بے شک تمہارا باپ (آدم) ایک ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر فضیلت حاصل نہیں مگر تقویٰ کی بنیاد پر۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمدو ثناءبیان کی اور فرمایا
میں تم کو عبادت کی نصیحت کرتا ہوں۔میری باتیں غور سے سنو میں تمہیں واضح کر کے بتاتا ہوں کیونکہ میں نہیں سمجھتا کہ اس سال کے بعد تم سے اس مقام پر ملاقات کر سکوں گا۔ تمہارے خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر حرام کر دئےے گئے ہیں۔ تاہم تم اپنے رب کے حضور جاکر پیش ہوجاﺅ۔ جیسا کہ تمہارے اس مہےنے میں اور اس شہر میں تمہارا یہ دن حرام ہے۔ جس کے قبضے میں کوئی امانت ہوتو اسے اس کے مالک کو ادا کردے۔ دور جاہلیت کے سودی نظام کالعدم کر دئےے گئے ہیں اور سب سے پہلے میں اپنا چچا عباس بن عبدالمطلبؓ کے سودی مطالبات کو کالعدم کرتا ہوں۔ دور جاہلیت کے تمام خوانوں کے مطالبات قصاص کالعدم کر دئےے ہیں اور سب سے پہلے میں عاشر بن ربی بن حارث بن عبدالمطلب کے خون کا مطالبہ ساقط کرتا ہوں۔ دور جاہلیت کے تمام اعزازات اور منصب کالعدم قرار دئےے گئے سوائے کعبہ کی دیکھ بھال اور سقایت
(حاجیوں کی آسانی کی لئے پانی پلانے کا کام)
کے لئے۔ قتل عمد کا قصاص لیا جائے گا۔ شیطان نظام حق کے چھا جانے کے بعد اس بات سے تو نا امید ہوگیا کہ اب تمہاری اس سر زمین پر اس کی عبادت کی جائے گی لےکن وہ اس پر بھی خوش ہوگا کہ اس کے علاوہ ان دوسرے گناہوں میں اس کی اطاعت کی جائے گی جن کو تم ہلکا سمجھتے ہو۔ مہینوں
(یعنی حرام مہینوں)
کا ادل بدل کفر کے طرز عمل میں اضافہ ہے اور اس کے ذریعے کفار اور زیادہ گمراہی میں پڑتے ہیں کہ ایک سال کسی مہےنے کو حلال کر دیتے ہیں تو دوسرے سال حرام ٹھہرا لیتے ہیں تاکہ آگے پیچھے کر کے اللہ کے حرام کردہ مہےنوں کی لفظی گنتی پوری کردیں۔ تمہاری خواتین کو تمہارے مقابلے میں کچھ حقوق دئےے گئے ہیں اور تمہیں ان کے مقابلے میں حقوق دئےے گئے ہیں۔ ان پر لازم ہے کہ وہ تمہاری خواب گاہوں میں تمہارے علاوہ کسی کو نہ آنے دیں اور ایسے شخص کو
(گھر میں)
تمہاری اجازت کے بغیر داخل نہ ہونے دیں جس کا داخل ہونا تمہیں پسند نہیں ہے اور بے حیائی کا ارتکاب نہ کریں۔اگر وہ کوئی ایسی بات کریں تو اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے کہ ان کی اصلاح کے لئے ان کو جدا کر سکتے ہو، خواب گاہوں سے الگ کر سکتے ہو اور ایسی بدنی سزا دے سکتے ہو جو نشان ڈالنے والی نہ ہو، پھر اگر وہ باز آجائےں اور اگر تمہاری اطاعت میں چلیں تو قاعدے کے مطابق ان کا نان و نفقہ تمہارے ذمے ہے ۔یقینا خواتین تمہارے زیر نگین ہیں جو اپنے لئے بطور خود کچھ نہیں کر سکتیں ۔تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر اپنی رفاقت میں لیا ہے اور ان کے جسموں کو اللہ ہی کے قانون کے مطابق تصارف میں لیا ہے۔ سو خواتین کے معاملے میں اللہ سے ڈرو اور بھلے طریقے سے ان کی تربیت کرو۔ (مومن آپس میں) بھائی بھائی ہیں۔ کسی شخص کے لئے اس کے بھائی کا مال لینا اس کی رضا مندی کے بغیر جائز نہیں ہے۔ میرے بعد کہیں اس (اخوت کو ترک کر کے) پھر کافرانہ ڈھنگ اختیار کر کے ایک دوسرے کی گردنیں نہ کاٹنے لگ جانا۔ میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیزچھوڑے جا رہا ہوں کہ جب تک اس پر کار بند رہو گے کبھی راہ راست سے نہ ہٹو گے، وہ ہے اللہ کی کتاب۔ اللہ نے ہر میراث میں سے ہر وارث کے لئے ثابت کردہ حصہ مقرر کردیا ہے ا ور ایک تہائی مال سے زائد کی وصیت کرنا جائز نہیں۔ بچہ اس کا جس کے بستر پر (نکاح میں) تولد ہو اور بدکار کے لئے پتھر۔ جس نے اپنے باپ کی بجائے کسی دوسرے کو باپ قرار دیا یا جس غلام نے اپنے آقا کے علاوہ کسی کو آقا ظاہر کیا تو ایسے شخص پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی طرف سے لعنت ہے۔ اس سے قیامت کے دن کوئی بدلہ یا عذر قبول نہ ہوگا۔

عین اسی حالت میں جب کہ خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا فرض ِ رسالت ادا فرما رہے تھے یہ آیت نازل ہوئی
ترجمہ
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرما لیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا کہ تم لوگوں سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو اب تم بتاﺅ کہ تم کیا کہو گے؟
لوگوں نے پکار کر کہا
ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام پہنچایا امت کو نصیحت کرنے کا حق ادا کردیا۔ حقیقت سے سارے پردے اٹھا دیے ، اور امانت الٰہی کو ہم تک پہنچا دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اللہ تو گواہ رہنا میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا۔