سورة الانشقاق شروع کریں گے
اسکا نام "انشقاق" اس سورة کی پہلی آیت کے لفظ انْشَقَّتْ سے ماخوذ ہے۔ انشقاق مصدر ہے جس کے معنی پانی پھٹ جانے کے ہیں اور اس نام کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں آسمان کے پھٹنے کا ذکر آیا ہے۔ یہ سورة مبارکہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔

اعوذ با اللٰہ من الشیطٰن الرجیم
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيم

*إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ*
جب آسمان پھٹ جاۓ گا۔ یعنی یاد کرو جب آسمان پھٹ جاۓ گا۔

*وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ*
اور کان لگا کر سنے گا رب کا فرمان ۔ اور اس پر فرض بھی یہی ہے ۔ وَحُقَّتْ یعنی فرض بھی یہی ہے ۔

ضیاء القرآن میں اسکی تفسیر اس طرح بیان کی گئی ہے کہ قیامت کے برپا ہونے کی یاد تازہ کی جا رہی ہے کہ یاد کرو جب آسمان پھٹ جاۓ گا اور آسمان پھٹنے کی یہ وجہ نہیں هو گی کہ وہ پرانا هو کر بوسیدہ ہو جاۓ گا اس لیے پھٹ جاۓ گا، جگہ جگہ شگاف پڑ جاۓ گا بلکہ اسکو اپنے رب کا حکم ملے گا کہ پھٹ جا ۔۔تو وہ پارہ پارہ ہو جاۓ گا۔
آسمان کا یہ فرض ہے کہ اپنے مالک کے ہر حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے۔
تفہیم القرآن میں أَذِنَتْ لِرَبِّهَا کی اس طرح سے تفسیر بیان کی گئی ہے کہ یہاں پر جو الفاظ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کے لفظی معنی ہیں کہ وہ اپنے رب کا حکم سنے گا۔

لیکن عربی زبان میں محاورے کے طور پر أَذِنَتْ لِرَبِّهَا کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ اس نے حکم سنا بلکہ اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے سن کر ایک تابع فرمان کی طرح، اسکی تعمیل کی اور ذرا بھی سرتابی نہ کی ۔
ضیاء القرآن میں اسکو اس طرح سے اور واضح کیا گیا ہے کہ یہ کہہ کر بتا دیا کہ آسمان نے تعمیل ارشاد کر کے کوئی بڑی یا کوئی حیرت انگیز بات نہیں کی بلکہ ہر مخلوق کی طرح اس کا بھی یہ فرضِ اولین ہے کہ وہ اپنے خالق کے حکم کے سامنے سر جھکا دے۔

*وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ*
اور جب زمین پھیلا دی جاۓ گی

*وَأَلْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّتْ*
اور باہر پھینک دے گی جو کچھ اس کے اندر ہے اور خالی ہو جاۓ گی۔

*وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ*
اور کان لگا کر سنے گی اپنے رب کا فرمان اور اس پر فرض بھی یہی ہے۔

اب جیسے آسمان کے بارے میں بتایا گیا کہ اس نے اطاعت کی اور حکم اور فرمابداری کا مظاہرہ کیا اسی طرح اب زمین کا بتایا جا رہا ہے کہ اسی طرح زمین بھی حکم بجا لائے گی۔
جب اسے حکم ملے گا کہ بِچھ جا، ہموار ہو جا، تجھ میں کوئی نشیب و فراز باقی نہ رہے، تو اونچے اونچے پہاڑ مٹی کے ڈھیر بن کر نشیبی جگہوں کو پُر کر دیں گے۔ سمندر کی گہرایئاں بھی بھر جایئں گی۔ ایک وسیع و عریز سپاٹ میدان بن جائے گا۔ یہاں تمام جن و انس دست بستہ حاضر کر دیئے جائیں گے۔ اور اس زمین کے شکم میں جتنے لوگ اس وقت تک دفن ہوں گے اور جتنے قیمتی خزانے اس نے اپنی تہہ میں سمیٹ رکھے ہوں گے، حکمِ الہٰی ملتے ہی زمین ان سب کو اُگل دے گی۔
تفہیم القران میں بھی ان آیات کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ زمین کے پھیلا دینے سے مراد یہ ہے کہ سمندر اور دریا کاٹ دیئے جایئں گے۔ پہاڑ ریزہ ریزہ کر دیئے جایئں گے اور زمین کی ساری اونچ نیچ برابر کر کے اسکو ایک ہموار میدان بنا دیا جائے گا۔ سورة طہٰ میں بھی اسکو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی اس کو چٹیل میدان بنا دے گا جس میں تم کوئی بل اور سلوٹ نہیں پاؤ گے۔

حاکم نے مستدرک میں عمدہ سند کے ساتھ حضرت جافر بن عبدللہ سے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ قیامت کے روز زمین ایک دسترخوان کی طرح پھیلا کر بچھا دی جائے گی۔ پھر انسانوں کے لیئے اس پر صرف قدم رکھنے کی جگہ ہو گی۔ اب اس بات کو سمجھنے کے لیئے یہ حقیقت نگاہ میں رہنی چاہیئے کہ اس دن تمام انسانوں کو جو کہ اول روز سے قیامت تک پیدا ہوئے ہوں گے، بیک وقت زندہ کر کے عدالتِ الہی میں پیش کیا جائے گا۔ اتنی بڑی آبادی کو جمع کرنے کے لیئے نا گزیر ہے کہ سمندر، دریا، پہاڑ، جنگل، بلند و پست گھاٹیاں سب کے سب کو ہموار کر کے پورے قرہ عرض کو ہموار میدان بنا دیا جائے تاکہ اس پر نوع انسانی کے افراد کھڑے ہونے کی جگہ پا سکیں۔ جتنے مرے ہوئے انسان اس زمین کے اندر ہوں گے ان سب کو نکال کر یہ باہر ڈال دے گی۔ اور اسی طرح اس کے اعمال کی جو بھی شہادتیں اس کے اندر ہوں گی وہ بھی پوری کی پوری باہر آ جائیں گی یعنی کوئی چیز بھی اس میں چھپی اور دبی ہوئی نہیں رہ سکے گی۔

تفسیر ابن کثیر میں ان آیات کے حوالے سے ہے کہ جب زمین پھیلا دی جائے گی اور پھیلا کر کشادہ کر دی جائے گی۔ اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ حضرت علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالی زمین کو چمڑے کی طرح پھیلا دے گا حتیٰ کہ ہر انسان کو اپنے قدم رکھنے کی جگہ ملے گی۔ سب سے پہلے مجھے بلایا جائے گا۔ حضرت جبرایئل علیہ السلام اللہ تعالی کے دایئں طرف ہوں گے اور قسم خدا کی اس سے پہلے وہ اللہ کے دیدار سے مشرف نہیں ہوئے۔ میں عرض کروں گا یا باری تعالی مجھے جبرائیل نے بتایا کہ تو نے ہی جبرائیل کو میری طرف بھیجا تھا۔ تو اللہ تعالی ارشاد فرمائے گا اس نے سچ کہا۔ پھر میں شفاعت کروں گا اور عرض کروں گا باری تعالی یہ بندے زمین کے اطراف و اکناف میں تیری عبادت کرتے رہے۔ اسی مقام کو مقامِ محمود کہا جاتا ہے۔
یہاں پر حدیثِ مبارکہ کو آسان الفاظ میں اس طرح بھی بتایا جا سکتا ہے کہ "پھر مجھے شفاعت کی اجازت ہو گی چنانچہ میں مقامِ محمود پر کھڑا ہو کر شفاعت کروں گا اور کہوں گا خدایا تیرے ان بندوں نے زمین کے گوشے گوشے میں تیری عبادت کی ہے۔

*یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِ ۚ﴿۶﴾*
اے انسان تو اپنے رب تک پہنچنے میں سخت مشقتیں برداشت کرتا ہے۔ بلآخر تجھے اسی سے جا ملنا ہے۔

ضیاءالقرآن میں آیت کا مفہوم بتایا گیا ہے کہ اسطرح سے کہ تو خواہ طالبِ دنیا ہو یا طالبِ عقبیٰ دونوں صورتوں میں تو بڑی جانفشانی سے اپنے کام کو انجام دہی میں کوشاں رہتا ہے ہر قسم کی صحبت کو برداشت کرتا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے یہاں تک کہ تیرے رب سے تیری ملاقات کا وقت یعنی تیری موت کا وقت آ جائے۔ اس وقت تیری جد و جہد ختم ہوتی ہے۔اس کے بعد اپنے اعمال کا پھل کھانے کا وقت آ جاتا ہے۔
معارف القرآن میں اس آیت کے حوالے سے اس طرح سے بتایا جا رہا ہے کہ یہاں
"یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ "
یہاں" کادح" کے معنی کسی کام میں پوری جدوجہد اور اپنی توانائی صرف کرنے کے ہیں۔ اور
" الیٰ ربک" سے مراد "الیٰ لکاء ربک" یعنی انسان کی ہر سعی و جدوجہد کی انتہا اس کے رب کی طرف ہونے والی ہے۔
اس آیت میں حق تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو خطاب فرما کر اس کے غور و فکر کیلیئے ایک ایسی راہ دکھائی ہے کہ اس میں کچھ بھی ذرا سا عقل و شعور ہو تو وہ اپنی جدوجہد کا رُخ صحیح سمت کی طرف پھیر سکتا ہے۔ جو اس کو دنیا اور دین میں سلامتی اور عافیت کی ضمانت دے۔ پہلی بات تو یہ ارشاد فرمائی کہ انسان نیک ہو یا بد مومن ہو یا کافر اپنی فطرت سے اس کا عادی ہے۔ کہ کچھ نہ کچھ حرکت کرے اور کسی نہ کسی چیز کو اپنا مقصود بنا کے اس کے حاصل کرنے کے لئے جدوجہد اور محنت و کوشش کرے۔

*الیٰ ربک* میں اسی کا بیان کیا گیاہے۔ اور یہ انتہا ایسی حقیقت ہے کہ جس کا کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ انسان کی ہر جدوجہد اور محنت موت پر ختم ہونا تو یقینی ہی ہے۔
اب تیسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ موت کے بعد اپنے رب کے سامنے حاضری کے وقت اس کے تمام حرکات و اعمال اور ہر جدوجہد کا حساب ہونا ازروئے عقل اور انصاف ضروری ہے تاکہ نیک و بد کا انجام الگ الگ معلوم ہو سکے۔ ورنہ دنیا میں تو اس کا کوئی امتیاز نہیں ہے۔ ایک نیک آدمی ایک مہینہ محنت مزدوری کر کے اپنا رزق اور جو ضروریات حاصل کرتا ہے۔ چور ڈاکو اس کو ایک رات میں حاصل کر لیتا ہے۔ اگر کوئی وقت حساب کا اور جزا سزا کا نہ آئے تو پھر دونوں برابر ہو گئے۔ جو کہ عقل اور انصاف کے خلاف ہے۔
اس آیت میں جو ہے"فملٰقیہ" تو تفسیر ابن ِ کثیر میں اس حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ "فملٰقیہ "کی ضمیر لفظ رب کی طرف لوٹ رہی ہے یعنی اے انسان تو اپنے رب کے ساتھ ملاقات کرے گا۔ معنی یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ تجھے تیرے عمل اور کوشش کے مطابق تمہیں جزا عطا فرمائے گا۔

جس طرح ایک شریف نیک خو انسان اپنے معاش اور ضروریاتِ زنزگی کے حاصل کرنے میں فطری اور جائز طریقوں کو اختیار کرتا ہے اور ان میں اپنی محنت و توانائی صرف کرتا ہے۔ایسے ہی بدکار بدخو انسان بھی اپنے مقاصد بغیر محنت یا جدوجہد کے حاصل تو نہیں کر سکتا ۔ چور ڈاکو بد معاش دھوکہ فریب سے لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کو دیکھ لیں کیسی کیسی ذہنی اور جسمانی محنت و مشقت برداشت کرتے ہیں۔ جب ان کو ان کا مقصود حاصل ہوتا ہے۔ اب یہاں پر دوسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ عقل والا انسان اگر غور کرے تو اس کی تمام حرکات بلکہ سکنات بھی ایک سفر کی منزلیں ہیں ۔جس کو وہ غیر شعوری طور پر قطع کر رہا یے۔ جس کی انتہا اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری یعنی موت ہے۔

تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کے حوالے سے کہ جو یہ کہا گیا یے کہ اے انسان تو اپنے رب تک پہنچنے میں سخت محنت اور کوشش برداشت کرتا ہے اور بلآخر تجھے اسی سے جاملنا ہے تو اس حوالے سے تفسیر ابن کثیر میں اس طرح سے ہے کہ قرآن میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اے انسان تو اپنے رب کے پاس پہنچنے تک کوشاں رہتا ہے۔ پس تو جو بھی اچھا یا برا عمل کرے گا قیامت کے دن اسے پا لے گا۔ اس کی تائید حضرت جابر ؓ کی روایت سے بھی ہوتی ہے۔ پھر رسول اللّهﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے کہا اے محمدﷺ جب تک چاہو اسی دنیا میں زندگی گزار لو پھر موت آنی ہے۔ جسے چاہو محبوب بنا لو تو آخر میں ایک دن اسے چھوڑ کر جانا ہے۔ جو چاہو عمل کر لو۔آپ اسے پا لیں گے ۔
تفسیر ابنِ کثیر میں اسی حوالے سے ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں اے ابنِ آدم تو جو بھی اچھا برا عمل کرے گا قیامت کے دن اس عمل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو گا۔ حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اے انسان تیری کوشش کمزور ہے پس جو شخص اللہ کی اطاعت میں کوشش کر سکتا ہے اسے کرنی چاہیے۔ نیک عمل کیلیئے قوت بھی اللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتا ہے۔

*سورة الا نشقاق آیت 7

*آعوذ بااللہ من الشیطن الرجیم*
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*


*فَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ ۙ﴿۷﴾*
پس جس شخص کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائےگا۔

*فَسَوۡفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیۡرًا ۙ﴿۸﴾*
تو عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔

*وَّ یَنۡقَلِبُ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ مَسۡرُوۡرًا ؕ﴿۹﴾*
اور وہ اپنے اہل خانہ کی طرف مسرور و شاداں پلٹے گا۔

ضیاء القرآن میں ان آیات کی تفسیر کے حوالے سے اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ہر شخص روزِ قیامت بارگاہِ خداوندی میں پیش کیا جائے گا۔ جنہوں نے اپنی یہ زندگی اللہ کی یاد اور اس کی عبادت میں گزاری ہو گی.

وہ جب پیش ہوں گے تو ان کا نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں پکڑایا جائے گا اور ان سے بڑا آسان حساب لیا جائے گا ۔زیادہ چھان بین نہیں کی جائے گی۔ ان کے اعمالِ حسنہ کے باعث ان کے اعمال سیاح سے بھی صرفِ نظر کر لی جائے گی اور یہ لوگ جلدی فارغ ہو کر شاداں و فرحاں اپنے گھر والوں کے پاس واپس چلے جائیں گے ۔

تفسیر ابنِ کثیر میں انہی آیات کے حوالے سے تفسیر بیان کی گئی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا جس کے ساتھ حساب کے وقت سوال و جواب شروع ہو گئے وہ مارا جائے گا۔ میں نے عرض کی کہ اللہ تعالیٰ تو یہ ارشاد فرماتا ہے کہ اس سے حساب آسان لیا جائے گا ۔تو آپؐ نے فرمایا یہ سرسری پیشی ہو گی۔ لیکن جس کے ساتھ حساب کے وقت سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا وہ مارا گیا۔
یہ روایت مختلف اسناد کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہہا سے مروی ہے۔

ایک روایت میں یہ بھی الفاظ ہیں، آپؓ فرماتی ہیں کہ ُ *حِسَابًا یَّسِیۡرًا ۙ* سے مراد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اعمال کو پیش کرنا ہے ۔حالانکہ وہ تمام اعمال سے آگاہ ہے۔
ایک مرتبہ آپ نے رسول اللہﷺ کو سنا کہ آپؐ یہ دعا مانگ رہے تھے۔
*اللھم حاسبنی حساباً یسیراً*
فرماتی ہیں جب آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے پوچھا ۔یا رسول اللہ ﷺ *حِسَابًا یَّسِیۡرًا ۙ* سے کیا مراد ہے آپﷺ نے فرمایا، بندے کے نامہ اعمال پر ایک نگاہ ڈالی جائے گی. پھر اللہ تعالی فرمائے گا ۔بندے ہم نے تجھے معاف کیا ۔اے عائشہؓ جس شخص سے حساب میں پوچھ گچھ کی جائے گی وہ اس دن ہلاک ہو جائے گا اور پھر جو یہ آگے،
*وَّ یَنۡقَلِبُ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ مَسۡرُوۡرًا ؕ﴿۹﴾*
کہ وہ اپنے گھر والوں کی طرف شاداں و فرحاں لوٹے گا۔

تو قتادہ رحمتہ اللہ علیہ تعالیٰ اور ضحاک رحمتہ اللہ علیہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جنت میں اپنے گھر والو خں کی طرف شاداں و فرحاں لوٹے گا۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ عمل تو کرتے ہو لیکن اس کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہو جب تم ان کی حقیقت سے آگاہ ہو گے تو تم میں بعض رنجیدہ اور افسردہ لوٹیں گے اور بعض شاداں و فرحاں ۔انہی آیات کی تفسیر تفہیم القرآن میں اس طرح بتائی گئی ہے کہ یعنی اس سے سخت حساب فہمی نہیں کی جائے گی۔ اس سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ فلاں فلاں کام تم نے کیوں کئے تھے اور ان کیلیے تیرے پاس ان کاموں کیلیے کیا عزر ہے۔ اس کی بھلائیوں کے ساتھ اس کی برائیاں بھی اس کے نامہ اعمال میں موجود ضرور ہوں گی ۔مگر بس یہ دیکھ کر کہ بھلائیوں کا پلڑا برائیوں سے بھاری ہے۔ تو اس کے قصوروں سے درگزر کیا جائے گا۔ اور اسے معاف کر دیا جائے گا۔ قرآن ِ پاک میں بد اعمال لوگوں سے سخت حساب فہمی کے لئے سول حساب یعنی بُری طرح حساب لینے کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔
یہ *سورة الرعد* کی آیت ہے ۔

اور نیک لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن سے ہم ان کے بہتر اعمال قبول کر لیں گے اور ان کی برائیوں سے درگزر کریں گے۔ یہ *سورة الاہکہف* کی آیت ہے
تو رسول اللہﷺ نے اس کی جو تشریح فرمائی ہے اسے امام احمد ,بخاری، مسلم، ترمزی، نسائی، ابو داود، حکم ابنِ جریر اِنہوں نے مختلف الفاظ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نقل کی ہے ۔ایک روایت میں ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا جس سے بھی حساب لیا گیا وہ مارا گیا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی یا رسول اللہﷺ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا تو حضور ﷺ نے جواب دیا وہ تو صرف اعمال کی پیشی ہے لیکن جس سے پوچھ گچھ کی گئی تو وہ مارا گیا۔

ایک اور روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں! میں نے ایک مرتبہ حضور ﷺ کو نماز میں یہ دعا مانگتے ہوئے سنا کہ! خدایا مجھ سے ہلکا حساب لے۔ آپ ﷺ نے جب سلام پھیرا تو میں نے اس کا مطلب پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا ہلکے حساب سے مراد یہ ہے کہ بندے کے نامہ اعمال کو دیکھا جائے گا اور اسے درگزر کر دیا جائے گا۔ اے عائشہؓ اس روز جس سے حساب فہمی کی گئی وہ مارا گیا۔
اس سے اگلی آیت میں جو ہے کہ *وہ اپنے اہلِ خانہ کی طرف مسرور و شاداں پلٹے گا* تو اس کا بھی تفہیم القرآن میں اس طرح کہا گیا ہے .اپنے لوگوں سے مراد آدمی کے وہ اہل و عیال رشتہ دار اور ساتھی ہیں جو اسی کی طرح معاف کر دیئے گئے ہوں گے۔

تفہیم القران میں بھی اس طرح سے فرمایا گیا ہے کہ جس طرح سورت الحاقہ میں ارشاد ہے کہ جس کا اعمال نامہ اسکے بایئں یاتھ میں دیا جائے گا اور یہاں پر بھی فرمایا گیا کہ اسکے پیٹھ پیچھے دیا جائے گا تو غالباً اسکی صورت یہ ہو گی کہ وہ شخص اس بات سے تو پہلے سے ہی مایوس ہوگا کہ اسے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ملے گا۔ کیونکہ اپنے کرتوتوں سے وہ خوب واقف ہو گا اور اسے یقین ہو گا کہ مجھے اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں ملنے والا ہے۔ البتہ ساری خلقت کے سامنے اسے اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں لیتے ہوئے شرمندگی محسوس ہو گی۔ اسلیئے وہ اپنا ہاتھ پیچھے کر لے گا۔ مگر اس تدبیر سے یہ ممکن نہ ہو گا کہ وہ اپنا کچا چٹھا اپنے ہاتھ میں لینے سے بچ جائے۔ وہ تو بہرحال اسے پکڑایا ہی جائے گا خواہ وہ ہاتھ آگے بڑھا کر لے یا پیٹھ کے پیچھے چھپا کر لے۔
یہاں جو *ثُبُورًا* ہے اسکا ایک معنی نقصان اور حلاکت بھی ذکر کیا گیا ہے۔ پر یہاں اس سے مراد موت ہے کیونکہ یہ سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور مکروہ ہے۔ *ثُبُورًا* ویسے ہر قسم کی مکروہ اور ناپسندیدہ چیزوں کے لیئے بھی کہا جاتا ہے۔

سورت انشقاق کی آیت 10 .

وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ وَرَاءَ ظَهْرِهِ
*اور جس بدنصیب کو اسکا نامہ عمال پس پشت دیا جائے گا۔*
فَسَوْفَ يَدعُو ثُبُورًا
*تو وہ چِلائے گا ہائے موت ہائے موت۔*

ضیاء القران میں اسکی تفسیر یوں بیان کی گئی ہے کہ لوگوں کے روبرو وہ بایئں ہاتھ میں اپنا اعمال نامہ لینے سے شرمایئں گے۔ اور اپنا ہاتھ پیچھے کو کر لیں گے۔ لیکن فرشتے کب چھوڑنے والے ہیں۔ وہ وہیں انکے بایئں ہاتھوں میں انکی سیاہکاریوں کے دفتر پکڑا دیں گے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ انکے دونوں ہاتھ انکے پیٹھ پیچھے باندھ دیئے جایئں گے اسلیئے اسی حالت میں انکے اعمال نامے انکے ہاتھوں میں دیئے جایئں گے۔ پھر جو ہے
فَسَوْفَ يَدْعُو ثُبُورً
*اس وقت اسکی چیخ و پکار اور واویلا دیکھنے کے قابل ہو گا*
کیونکہ وہ شور مچائے گا ہائے موت ہائے موت تو کدھر گئی ہے آ بھی جا، مجھے نگل لے تاکہ میں عذابِ جہنم سے بچ جاؤں۔

جنکے متعلق سورت طور میں بھی فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروالوں میں بھی خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے۔
یعنی انہیں ہر وقت یہ خوف لاحق ریتا تھا کہ کہیں بال بچوں کی محبت میں گرفتار ہو کر ہم انکی دنیا بنانے کی لیئے اپنی عاقبت نہ برباد کر لیں۔ اسکے برعکس اس شخص کا حال یہ تھا کہ اپنے گھر میں وہ چین سے رہتا تھا۔ اور اپنے بال بچوں کو خوب عیش کرا رہا تھا۔ خواہ وہ کتنی ہی حرام خوریاں کر کے اور کتنے ہی لوگوں کا حق مار کر یہ سامان عیش فراہم کرے اور اس لطف و لذت کے لیئے اللہ کی باندھی ہوئی اور بتائی ہوئی حدود کو پامال کرتا ریے۔ تو اسی شخص کےلیئے پھر کیا گیا ہے کہ
وَيَصْلَىٰ سَعِيرًا
اور داخل ہو گا بھڑکتی ہوئی آگ میں۔
کیونکہ
إِنَّهُ كَانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُورًا
بیشک وہ دنیا میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ خوش و خرم رہا کرتا تھا۔

وَيَصْلَىٰ سَعِيرًا
*اور وہ دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا۔*

إِنَّهُ كَانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُورًا
*بیشک وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ خوش و خرم رہا کرتا تھا۔*

یعنی دنیا میں جب وہ رہتا تھا تو وہاں اپنے اہل و عیال کے ساتھ بڑا خوش و خرم رہتا تھا۔ یہاں پر اسکی یہ حالت کیوں ہو گی اسکی وجہ بتائی جا رہی ہے کہ وہ دنیا میں مزے کے گلچھڑے اڑاتا تھا، خود بھی عیش کر رہا تھا اور اپنے اہل و عیال کو بھی عیش کراتا تھا۔ کبھی اسے بھولے سے بھی یہ احساس نہیں آیا کہ اسے ایک روز اپنے رب کے روبرو پیش ہونا ہے اور اسے اپنی تمام بداعمالیوں کا حساب دینا ہے۔ اب آج جو یہ نتیجہ دیکھ رہا ہو گا قیامت کے روز وہ اس وقت کی اس خودفراموشی کا نتیجہ یہ آج دیکھ رہا ہو گا۔
تفہیم القرآن میں بھی اس طرح سے بیان کیا گیا ہے یعنی اسکا حال خدا کے نیک اور صالح بندوں سے مختلف تھا۔

*سورة الانشقاق 14*

*اِنَّہٗ ظَنَّ اَنۡ لَّنۡ یَّحُوۡرَ ﴿ۚ ۛ۱۴﴾*
وہ خیال کرتا تھا کہ وہ لوٹ کر نہیں جائے گا ۔ یعنی اللہ کے سامنے پیش نہیں ہو گا۔

: سورة الانشقاق 15

*بَلٰۤیۚ ۛاِنَّ رَبَّہٗ کَانَ بِہٖ بَصِیۡرًا ﴿۱۵﴾*ؕ
کیوں نہیں اس کا رب اسے خوب دیکھ رہا ہے۔

یعنی کہ اس نے اپنے انجام کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں تھا اور نہ ہی آئندہ پیش آنے والے عذاب سے ڈرتا تھا۔ اب اس معمولی اور حقیر سی خوشی وہ جو دنیا میں رہ کر خوش رہا کرتا تھا اس خوشی کی جگہ اسے کبھی نہ ختم ہونے والے غم سے واسطہ پڑے گا۔ کیونکہ وہ خیال کرتا تھا کہ وہ اللہ کے حضور لوٹ کر نہیں جائے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس کا یہ عقیدہ تھا کہ وہ اللہ کی طرف لوٹ کر نہیں جائے گا اور مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ دوبارہ اسے زندہ نہیں کرے گا۔ حور کا معنی لوٹنا ہے۔

برعکس ان مومنین کے کہ ان کو دنیا کی زندگی میں کبھی بے فکری نہیں ہوتی تھی۔ ہر عیش و راحت کے وقت بھی آخرت کی فکر لگی رہتی تھی۔ اپنے اہل و عیال میں رہتے ہوئے بھی آخرت کا وہ خوف رکھتے تھے اس لیے ان دونوں کا انجام ان کی مناسبت سے ہوا۔ جو دنیا میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ بے فکر ہو کے عیش و عشرت اور خوشی اور مسرت میں وقت گزارتے تھے آج ان کے حصے میں یہ عزابِ جہنم آئے گا اور جو لوگ دنیا میں آخرت کے عذاب و حساب سے ڈرتے تھے ان کو وہاں مسرت و خوشی حاصل ہو گی اور وہ اپنے اہل و عیال میں دائمی مسرت کے ساتھ رہیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کی راحتیں جو ہیں ان میں مست اور مسرور ہو جانا مومن کا کام نہیں ہے۔ اس کو کسی وقت کسی حال میں آخرت کے حساب سے بے فکری نہیں ہونی چاہیئے۔

تو پھر فرمایا کیوں نہیں، اس کا رب اسے خوب دیکھ رہا تھا۔ اس آیت میں جو کہا گیا ہے کہ "بلیٰ" کیوں نہیں۔
اِنَّ رَبَّہٗ کَانَ بِہٖ بَصِیۡرًا ﴿۱۵﴾ؕ
*اسکا رب اسے خوب دیکھ رہا تھا۔*

ان آیات کے حوالے سے معارف القرآن میں اس طرح سے ہے کہ یہاں فرمایا گیا ہے کہ،

فَسَوۡفَ یَدۡعُوۡا ثُبُوۡرًا ﴿ۙ۱۱﴾
یعنی جس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ کی طرف اس کی پشت کی طرف سے دیا جائے گا تو وہ وہاں اس بات کی تمنا کرے گا کہ کاش وہ پھر مر کہ مٹی ہو جائے اور عذاب سے بچ جائے مگر وہاں یہ نا ممکن ہو گا کیونکہ اس کو جہنم میں داخل کر دیا جائے گا اور اس کی وجہ یہاں یہ ارشاد فرمائی کہ وہ دنیا میں اپنے اہل و عیال میں آخرت سے بے فکر ہو کے مگن اور خوش رہا کرتا تھا۔

*سورت انشقاق آیت نمبر 16*

فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِالشَّفَقِۙ‏ ﴿۱۶﴾
*پس میں قسم کهاتا ہوں شفق کی۔*

وَالَّيۡلِ وَمَا وَسَقَۙ‏ ﴿۱۷﴾
*اور رات کی جن کو وہ سمیٹے ہوئے ہے۔*

وَالۡقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَۙ‏ ﴿۱۸}
*اور چاند کی جب وہ ماہِ کامل بن جائے*

لَتَرۡكَبُنَّ طَبَقًا عَنۡ طَبَقٍؕ‏ ﴿۱۹﴾
*تمہیں زینہ بہ زینہ چڑهاتا ہے (یعنی بتدریج زینہ بہ زینہ چڑهاتاہے۔*

ان آیات میں تین چیزوں کی قسم کهانے کے بعد فرمایا ہے تم منزل بہ منزل بڑهتے چلے جاٶ گے۔

تفہیم القران میں بهی ان آیات کی تفسیر کے حوالے سے اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ تمہیں ایک حالت میں نہیں رہنا ہے بلکہ جوانی سے بڑهاپے سے موت اور موت سے برزخ، برزخ سے دوبارہ زندگی، دوبارہ زندگی سے میدانِ حشر پهر حساب و کتاب اور پهر جزا اور سزا کی بیشمار منزلوں سےتم کو لازماً گزرنا ہوگا ۔

لَتَرۡكَبُنَّ طَبَقًا عَنۡ طَبَقٍؕ‏ ﴿۱۹﴾
*تم یقیناً طبق در طبق سواری کرتے چلے جاؤ گے۔*

تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کو اس طرح سے بهی کہا گیا کہ تمہیں بتدریج زینہ بہ زینہ چڑهنا ہے۔
تفسیر ابن کثیر میں اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔

تو اس کی تفسیر اس طرح سے بیان کی گئی ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کل اس سے مراد ایک حالت سے دوسری حالت میں ترقی کرنا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ تمہارے نبی ﷺ*کا حال ہے۔

اسے بخاری رحمت اللہ علیہ نے روایت کیا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ حدیث مرفوع ہو۔

اسی طرح حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ہر آنے والا سال پہلے سال سے بدتر ہوتا ہے یہ میں نے تمہارے نبی ﷺ*کی زبانِ حق سے سنا ہے. حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ سے دوسری اسناد کے ساتھ یہی قول مروی ہے.

مجاہد ؒ ، ضحاق ؒ سے بهی یہی مروی ہے کہ اس سے مراد ایک حال سے دوسرے حال کی طرف ترقی کرنا ہے.

اب اس بات پر تین چیزوں کی قسم کهائی گئی ہے۔
سورج ڈوبنے کے بعد شفق کی سرخی، دن کے بعد رات کی تاریکی اور اس میں بہت سے انسانوں اور حیوانات کا سمٹ آنا جو دن کے بعد زمین پر پهیلے رہتے ہیں اور چاند کا حلال سے درجہ بہ درجہ بڑھ کر بدرِ کامل بن جانا یعنی جب چاند نکلتا ہے اور اس کے بعد وہ پورا دکهائی دیتا ہے اس وقت تک۔

تو گویا یہ چند وہ چیزیں ہیں جو اس بات کی اعلانیہ شہادت دے رہی ہیں کہ جس کائنات میں انسان رہتا ہے اس کے اندر کہیں ٹھہراٶ نہیں ہے ایک مسلسل تغیر اور درجہ بہ درجہ تبدیلی ہر طرف پائی جاتی ہے اسی لیے کفار کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ موت کی آخری ہچکی کے ساتھ معاملہ ختم ہو جائے گا۔

حضرت شعبی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ہے, اے محمد ﷺ* آپ نے ایک آسمان سے دوسرے آسمان پر چڑهنا ہے۔

حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ اور ابو عالیہ ؒ سے مروی ہے کہ اس سے مراد معراج کی رات کا سفر ہے۔

ابو اسحاق ؒ اور صدی ؒ حضرت ابن عبّاس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ تمہیں ایک منزل کے بعد دوسری منزل پر سوار ہونا ہے اور اس کا ایک معنی یہ بهی بیان کیا گیا ہے تم منزل بہ منزل اپنے سے پہلی امتوں کے اعمال کی نقل کرو گے۔ یہی مفہوم ایک صحیح حدیث میں بهی مروی ہے کہ رسول ﷺ* نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنے سے پہلے لوگوں کی راہ پر برابر چلو گے اگر وہ کسی گو کے بِل میں داخل ہوں گے تو تم بهی داخل ہو جاٶ گے۔
صحابہ نے عرض کی یا رسول ﷺ* کیا اس سے مراد یہود اور نصاریٰ ہیں؟ آپﷺ* نے فرمایا ان کہ علاوہ اور کون ہو سکتا ہے۔

حضرت سعید بن جبیر ؓ فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ اس دنیا میں ظاہری طور پر ذلیل اور گهٹیا ہوں گے لیکن آخرت میں ان کا مقام اور مرتبہ بلند ہوگا اور کچھ لوگ اس دنیا میں معذز ہونگے اور آخرت میں ذلیل ہو جائیں گے۔

حضرت اکرمہ فرماتے ہیں اس سے مراد انسان کی زندگی کے مختلف مدارج ہیں۔ پہلے دودھ پیتا بچہ ہوتا ہے پهر آہستہ آہستہ وہ نوجوان ہوتا ہے اور پهر آخرکار بوڑھا ہو جاتا ہے۔

حضرت حسن بصری رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں اس سے مراد شدت کے بعد خوشحالی، خوشحالی کے بعد شدت، فقر کے بعد غنہ، غنہ کے بعد فقر، مرض کے بعد صحت اور صحت کے بعد مرض ہے۔

حضرت جابر بن عبداللہ ؒ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ* کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ابنِ آدم غفلت میں ہے کہ اللہ تعالی نے اسے کس مقصد کہ لیے پیدا کیا ہے جب اللہ تعالی کسی کو پیدا کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو فرشتے کو حکم دیتا ہے کہ اس کا رزق موت اور اس کی زندگی اور اس کا بد بخت اور سعادت مند ہونا لکھ دو پهر یہ فرشتہ اس کام سے فارغ ہو کرچلا جاتا ہے۔
اور اللہ تعالی دوسرا فرشتہ بهیجتا ہے اور وہ اس کے بالغ ہونے تک اس کی حفاظت کرتا ہے پهر وہ فرشتہ چلا جاتا ہے پهر اللہ تعالی اس پر دو فرشتوں کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کی اچهائیاں برائیاں لکهتے ہیں پهر موت کہ وقت یہ فرشتے چلے جاتے ہیں پهر موت کا فرشتہ روح قبض کرتا ہے جب اسے قبر میں دفن کیا جاتا ہے تو اس کے جسم میں روح کو واپس لوٹا دیا جاتا ہے اور اس کے بعد قبر کے دو فرشتے آ کر اسکا امتحان لیتے ہیں۔ پهر یہ بهی چلے جاتے ہیں۔ پھر قیامت کے دن نیکی اور بدی والے فرشتے واپس آئیں گے اور اس کے گلے میں بندھے ہوئے نامہ اعمال کو کهولیں گے۔ پهر وہ اس کے ساتھ رہیں گے، ایک ساعق اور دوسرا شہید۔

معارف القرآن میں ان آیات کی تفسیر کے حوالے سے اس طرح سے بتایا گیا ہے کہ ان آیات میں حق تعالیٰ نے چار چیزوں کی قسم کے ساتھ انسان کو پھر اس چیز کی طرف متوجہ کیا ہے جس کا ذکر کچھ پہلے ہوا ہے۔جو کہا گیا ہے کہ ،

*اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ*
کہ تو اپنے رب تک پہنچنے میں سخت مشقتیں برداشت کرتا ہے۔

یہاں بتایا گیا ہے کہ یہ چاروں چیزیں جن کی قسم کھائی ہے اگر غور کریں تو اس مضمون کی شاہد ہیں جو جوابِ قسم میں اب آنے والا ہے۔
یعنی انسان کو ایک حال پر قرار نہیں ہے اس کے حالات اور درجات ہر وقت بدلتے رہتے ہیں۔پہلی چیز :
*شفق* ہے۔ یعنی وہ سرخی جو آفتاب غروب ہونے کے بعد افق پر مغرب کی طرف ہوتی ہے۔ یہ رات کی ابتدا ہے جو کہ ایک بڑے انقلاب کی طرف اشارا ہے۔کہ روشنی جا رہی ہے اور تاریکی کا سیلاب آ رہا ہے۔ اس کے بعد خود رات کی قسم ہے جو اس انقلاب کی تکمیل کرتی ہے۔

اس کے بعد ان تمام چیزوں کی قسم ہے جن کو رات کی تاریکی اپنے اندر جمع کر لیتی ہے۔ *وَسَقَ* کے اصل معنی جمع کر لینے کے ہیں۔ اس کے عام معنی مراد لیے جائیں تو اس میں تمام دنیا کی کائنات داخل ہے جو رات کی تاریکی میں چھپ جاتی ہے۔ اس میں حیوانات، نباتات ،جمادات، پہاڑ اور دریا سبھی شامل ہیں اور جمع کر لینے کی مناسبت سے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ چیز جو کہ دن کی روشنی میں منتشر ہو کے پھیلی ہوئی رہتی ہے رات کے وقت وہ سب سمٹ کر اپنے اپنے ٹھکانوں میں جمع ہو جاتی ہے۔ انسان اپنے گھر میں، حیوانات اپنے اپنے گھروں، گھونسلوں میں، غاروں میں جمع ہو جاتے ہیں۔ کاروبار میں پھیلے ہوئے سامانوں کو سمیٹ کر یکجا کر دیا جاتا ہے۔ تو یہ ایک عظیم انقلاب خود انسان اور اس کے متعلقات میں سے ہے۔ اب یہاں پہ چوتھی چیز کی قسم کھائی گئی ہے کہ وہ
*وَ الۡقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ ﴿ۙ۱۸﴾*
ہے ۔

یہ بھی *وسق* سے مشتق ہے جس کےمعنی جمع کر لینے کے ہیں۔ قمر کے *اتساق* سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنی روشنی کو جمع کرے اور یہ چودھویں رات میں ہوتا ہے جبکہ چاند بالکل مکمل ہوتا ہے.
*اِذَا اتَّسَقَ*
کا لفظ چاند کے مختلف اطوار و حالات کی طرف اشارہ ہے کہ پہلے ایک نہایت باریک سا ،خفیف سا, قوس کی شکل میں ہوتا ہے۔ جس کی روشنی روز بروز کچھ کچھ ترقی کرتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ بدرِ کامل ہو جاتا ہے۔ یہاں پر مسلسل انقلابات اور احوال پر شہادت دینے والی چار چیزوں کی قسم کھا کر حق تعالیٰ نے فرمایا
*لَتَرۡکَبُنَّ طَبَقًا عَنۡ طَبَقٍ ﴿ؕ۱۹﴾*
جو چیزیں تہہ بہ تہہ ہوتی ہیں ۔اس کی ایک تہہ کو طبق یا طبقا کہتے ہیں۔ جمع طبقات اس کی آتی ہے۔
*لَتَرۡکَبُنَّ* رکوع بمعنی سوار ہونے سے مشتق ہے۔ اب یہاں معنی یہ ہیں کہ اے بنی نوع انسان! تم ہمیشہ ایک طبقے سے دوسرے طبقے پر سوار ہوتے اور چڑھتے چلے جاؤ گے۔ انسان اپنی تخلیق کی ابتداء سے انتہا تک کسی وقت ایک حال پر نہیں رہتا۔

بلکہ اس کے وجود پر بتدریج انقلابات آتے رہتے ہیں. معارف القرآن میں اس حوالے سے اور بھی واضح کیا گیا ہے کہ *نطفے* سے خون بنا پھر اس سے ایک گوشت کا لوتھڑا بنا، پھر اس میں ہڈیاں پیدا ہوئیں.
پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھا اور اعضاء کی تکمیل ہوئی۔ پھر اس میں روح لا کر ڈالی گئی اور وہ ایک زندہ انسان بنا جس کی غذا بطنِ مادر کے اندر رحم کا گندا خون تھا۔ 9 مہینے کے بعد اللہ نے اس کے دنیا میں آنے کا راستہ آسان کر دیا اور گندی غذا کی جگہ ماں کا دودھ اسے ملنے لگا۔ دنیا کی وسیع فضا اور ہوا دیکھی ، بڑھنے اور پھلنے پھولنے لگا۔ دو برس کے اندر چلنے پھرنے اور بولنے کی قوت بھی حرکت میں آ گئی۔ ماں کا دودھ چھوٹ کر اس سے زیادہ لذیذ اور طرح طرح کی غذائیں ملیں۔ کھیل کود اور اسی طرح کے دن بھر کے بہت سارے مشاغل اس نے اپنائے۔

کچھ ہوش و شعور بڑھا تو تعلیم وتربیت کے شکنجے میں کسا گیا۔ جوان ہوا تو پچھلے سب کام ترک ہو کر جوانی کی خواہشات نے ان کی جگہ لے لی اور ایک نیا عالم شروع ہوا۔ نکاح ,شادی, اولاد اور خانہ داری کے مشاغل دن رات کا مشغلہ بن گئے۔ آخر یہ دور بھی ختم ہونے لگا۔ اس کی قوت میں کمی پیدا ہوئی۔ بیماریاں آئے دن رہنے لگیں، بڑھاپا آ گیا اور اس جہان کی آخری منزل یعنی قبر تک پہنچنے کا سامان ہونے لگا۔
یہ سب چیزیں تو سب کی آنکھوں کے سامنے ہوتی ہیں۔ کسی کو انکار کی مجال نہیں ہے مگر حقیقت سے نا آشنا انسان سمجھتا ہے کہ یہ موت اور قبر اس کی آخری منزل ہے۔

اور ساتھ ہی اسے تنبیہ کی کہ عمر کو دنیا کے تمام حالات اور انقلابات آخری منزل تک جانے کا سفر اور اس کے مراحل ہی سمجھو اور انسان چلتے پھرتے سوتے جاگتے کھڑے بیٹھے ہر حال میں اسی سفر کی منزلیں طے کر رہا ہے اور بالآخر اپنے رب کے پاس پہنچتا ہے اور عمر بھر کے اعمال کا حساب دے کر آخری منزل میں قرار پاتا ہے۔ جہاں راحت ہی راحت اور غیر منقطع ہونے والا آرام ہی آرام ہے۔
یا پھر معاذ للہ معاذاللہ عذاب ہی عذاب ہے اور غیر منقطع ہونے والے مصائب ہیں۔
تو انسان جو کہ عقلمند ہو اس کا یہ کام ہے کہ دنیا میں اپنے آپ کو ایک مسافر سمجھے اور اپنا اصلی وطن جو ہے اس کیلیے سامان تیار کرنے اور بھیجنے کی فکر ہی کو دنیا کا سب سے بڑا مقصد بنا لے۔

آگے کچھ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جو خالقِ کائنات اور علیم اور خبیر ہے اس نے آگے آنے والے مراحل کو اپنے انبیاء کے ذریعے غافل انسانوں تک پہنچایا کہ قبر تیری آخری منزل نہیں بلکہ یہ صرف ایک انتظارگاہ ہے جیسے کہ *ویٹنگ روم* اور آگے ایک بڑا جہان آنے والا ہے اور اس میں ایک بڑے امتحان کے بعد انسان کی آخری منزل مقرر ہو جائے گی۔ جو یا تو یادِ الٰہی اور راحت و آرام کی ہو گی یا پھر دائمی عذاب و مصیبت کی اور اس آخری منزل پر ہی انسان اپنے حقیقی اور مستقل ٹھکانے پر پہنچ کر انقلابات کے اس چکر سے نکلے گا۔ قرآنِ کریم نے
*اِنّٙ اِلٰی رٙبِّکٙ الرُّجْعٰی*

*اِلٰی رٙبِّکٙ اٙلْمُنْتٙھٰی*
اور
*کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ*
میں یہی مضمون بیان فرما کر غفلت شعار انسان کو حقیقت اور اس کی آخری منزل سے آگاہ کیا۔

یہ سب بتا کر آگے کہا جا رہا ہے کہ،

*فَمَا لَہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ*
تو انہیں کیا ہو گیا ہے کہ یہ ایمان نہیں لاتے یعنی قرآن کی پیشن گوئیوں اور ان کی صداقتوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے۔

*وَ اِذَا قُرِئَ عَلَیۡہِمُ الۡقُرۡاٰنُ لَا یَسۡجُدُوۡنَ ﴿ؕٛ۲۱﴾*
یہ آیت سجدہ ہے اور اس کا مطلب ہے اور جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ ریذ نہیں ہوتے۔ یعنی اللہ کے حضور سجدہ ریز نہیں ہوتے۔

*بَلِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُکَذِّبُوۡنَ ﴿۫ ۖ۲۲﴾*
بلکہ کافر لوگ جھٹلا رہے ہیں۔مطلب یہ کہ اور مزید سے مزید جھٹلا رہے ہیں۔

*وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا یُوۡعُوۡنَ*
اور اللہ خوب جانتا ہے وہ جو جمع کر رہے ہیں۔
یعنی وہ جو کفر و عداوت کے سامان جمع کر رہے ہیں۔

*فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ*
سو آپ انہیں درد ناک عذاب کی بشارت دے دیں۔

*اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمۡ اَجۡرٌ غَیۡرُ مَمۡنُوۡنٍ ﴿٪۲۵*
مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے ہیں ان کیلیے غیر منقطع ثواب ہے یعنی دائمی ثواب ہے ان کیلیے۔

معارف القرآن میں ہی ان آیات کے حوالے سے آگے اس طرح بتایا جا رہا ہے کہ یہ جو پہلے آیات بتائی گئی ہیں ان میں غافل انسان کو اس کی تخلیق اور عمرِ دنیا میں اس کو پیش آنے والے حالات و انقلابات اس کے سامنے لا کر یہ ہدایت دی کہ غافل اب بھی وقت ہے کہ اپنے انجام پر غور اور آخرت کی فکر کر مگر ان تمام روشن ہدایات کے باوجود بہت سے لوگ اپنی غفلت سے باز نہیں آتے اس لئے آخر میں ارشاد فرمایا ہے،

*فَمَا لَہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ*
یعنی ان غافل اور جاہل انسانوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ سب کچھ سننے اور جاننے کے بعد بھی اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔

*وَ اِذَا قُرِئَ عَلَیۡہِمُ الۡقُرۡاٰنُ لَا یَسۡجُدُوۡنَ ﴿ؕٛ۲۱﴾*
۔یعنی جب ان کے سامنے ان واضح ہدایات سے بھرا ہوا قرآن پڑھا جاتا ہے اس وقت بھی وہ اللہ کی طرف نہیں جھکتے۔

انہی آیات کے حوالے سے تفہیم القرآن میں اس طرح سے بیان کیا گیا ہے تفسیر کو کہ، یعنی ان کے دل میں خدا کا خوف پیدا نہیں ہوتا اور یہ اس کے آگے نہیں جھکتے۔ اس مقام پر سجدہ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔

امام مالک اور مسلم اور نسائی نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کے بارے میں یہ روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے نماز میں یہ سورة پڑھ کر اس مقام پر سجدہ کیا اور کہا رسول اللہﷺ نے یہاں سجدہ کیا۔
بخاری، مسلم، ابو داؤد اور نسائی نے ابو رافع کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے عشاء کی نماز میں یہ سورة پڑھی اور سجدہ کیا۔
میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے فرمایا کہ،
میں نے ابو القاسم ؐ کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مقام پر سجدہ کیا ہے اس لیے میں مرتے دم تک یہ سجدہ کرتا رہوں گا ۔
مسلم، ابو داؤد، ترمزی، نسائی اور ابنِ ماجہ وغیرہ نے ایک اور روایت نقل کی ہے جس میں حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں،
کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے اس سورة میں اقرا بسم ربک الزی خلق میں سجدہ کیا ہے۔

تفسیر ابنِ کثیر میں بھی ان آیات کی تفسیر اس طرح سے بیان کی گئی ہے کہ انہیں کیا ہو گیا ہے کہ یہ ایمان نہیں لاتے اور جب ان کے سامنےقرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور یومِ آخرت پر ایمان لانے سے ان کو کون سی چیز مانع ہے اور ان کو کیا ہو گیا یے کہ جب ان کے سامنے اللہ کا قرآن اور اس کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو اس کی تعظیم اور احترام میں سجدہ کیوں نہیں کرتے۔
فرمایا کہ بلکہ کفار اسے جھٹلاتے ہیں حق کی تکذیب اور مخالفت ان کی فطرت کا حصہ بن چکی ہے اور یہ جو آگے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ جو ان کے دلوں میں بھرا ہوا ہے تو مجاھد اور قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے اپنے سینوں میں جو چھپا رکھا ہے اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے۔ پس آپ انہیں خوشخبری سنا دیں درد ناک عذاب کی۔
اور اے محمد صلی اللہ علیہ وآلی وسلم انہیں آگاہ کر دیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کیلیئے ایک المناک عذاب تیار کر رکھا ہے اور پھر آگے جو فرمایا کہ البتہ جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک عمل کرتے رہے ان کیلیئے ایسا اجر ہے جو منقطع نہ ہوگا یعنی اس آیت کا یہ مطلب ہوا کہ جو لوگ دل کی گہرائیوں سے ایمان لے آئے اور نیک عمل کرتے رہے ان کیلیے آخرت میں ایسا اجر ہو گا جو کبھی ختم نہیں ہو گا۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ"غیر ممنون" کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اجر میں کمی نہیں کی جائے گی۔

حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ اور ضحاک ؓ فرماتے ہیں کہ ان کو بے حساب اجر دیا جائے گا۔ ان دونوں قولوں کا حاصل اور مفہوم یہی ہے کہ یہ اجر کبھی ختم نہیں ہو گا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ سورة ہود آیت 108 ہے
*عَطَآءً غَیۡرَ مَجۡذُوۡذٍ ﴿۱۰۸﴾*

کہ یہ وہ عطا ہے کہ جو کبھی ختم نہیں ہو گی۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس کا معنی یہ ہے کہ ان پر احسان نہیں جتلایا جائے گا لیکن کئی علماء نے اس معنی کو ناپسند کیا ہے۔ کیونکہ اہلِ جنت پر ہر لحظہ اور ہر آن اللہ تعالیٰ خکا احسان و اکرام ہے اور اسی کے فضل و کرم سے جنت میں داخل ہوئے۔ نہ کہ اپنے اعمال کی بنا پر ہوئے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا ان پر دائمی احسان ہے۔ ہمیشہ کیلیے تمام تعریفیں اسی کیلیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اہلِ جنت پر اپنی تسبیح و تحلیل اور حمدو ثناء الہام فرمائےگا۔ اور جیسے انسان بغیر کسی تکلیف کے سانس لیتا ہے اسی طرح ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء جاری ہو گی۔

انہی آیات کی تفسیر ضیاءالقرآن میں کچھ اسطرح سے بیان کی گئی ہے کہ ان تغیرات کا تم اپنی ذات میں اور تم اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی وسیع کائنات میں ہر لحظہ مشاہدہ کر رہے ہو پھر بھی قیامت پر ایمان نہیں لاتے۔وقوع قیامت میں جو حکمتیں اور انسانی اصلاح میں اس کے جو اثرات ہیں ان اثرات کو تسلیم نہیں کرتے تو بڑے تعجب کی بات ہے اور اوپر سے ستم یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیتییں جن کی تاثیر سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں اور پہاڑوں پر بھی لرزہ طاری ہو جاتا ہے وہ ان کے سامنے تلاوت کی جاتی ہیں لیکن یہ کوئی اثر قبول نہیں کرتے۔ انہیں سن کر بھی ان کے سر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز نہیں ہوتے۔ متاثر ہونا یا سجدے میں سر جھکانا تو رہا ایک طرف یہ ظالم ان کو الٹا جھٹلانا شروع کر دیتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں یہ جادو ہے کبھی کہتے ہیں یہ ان کا خود ساختہ کلام ہے کبھی کہتے ہیں ان کو کسی جن نے یہ سکھایا ہے اس سے سیکھ کر ہمیں یہ سنانے لگے ہیں۔
معاذاللہ معاذ اللہ ۔
مجاھد کہتے ہیں کہ جو کچھ اپنے دلوں میں انہوں نے چھپا رکھا ہے اللہ اس سے پوری طرح آگاہ ہے۔

اور یہ حق ناشناس اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں آپ دردناک عذاب کی بشارت دیں۔ ان کا تو یہ حشر ہو گا لیکن پھر اس کے مقابل میں بتایا گیا ہے کی جو لوگ سچے دل سے ایمان لائے اور ایمان کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نیک اعمال کرتے ریے انہیں اجر ملے گا اور اجر بھی ایسا جو کبھی منقطع نہیں ہو گا۔ ابد العاباد تک ان پر نوازشات اور انعامات کا سلسلہ جاری ریے گا۔ اپنے ربِ کریم کے لطف و کرم سے ہمیشہ ہمیشہ یہ لطف اندوذ ہوتے رہیں گے ۔

*مکمل*۔