اس سورة کی پہلی آیت کے لفظ *البروج* کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے اور یہ سورة بھی مکہ معظمہ کے اس دور میں نازل ہوئی جب ظلم و ستم پوری شدت کے ساتھ برپا تھا اور کفارِ مکہ مسلمانوں کو سخت سے سخت عذاب دے کر ایمان سے پھیر دینے کی کوشش کر رہے تھے۔

*آعوذ با اللہ من الشیطن الرجیم*
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*

*سورة البروج 1*
*وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الۡبُرُوۡجِ ۙ﴿۱﴾*
قسم ہے آسمان کی جو برجوں والا ہے۔

*وَ الۡیَوۡمِ الۡمَوۡعُوۡدِ*
اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔

*وَ شَاہِدٍ وَّ مَشۡہُوۡدٍ ؕ﴿۳﴾*
اور حاضر ہونے والے دن کی اور اس کی جس کے پاس حاضر ہوں گے۔

تفسیر ابنِ کثیر میں ان کی تفسیر اس طرح سے کی گئی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ بروج سے مراد ستارے ہیں۔
مجاہد رحمتہ اللہ علیہ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ وہ بروج ہیں جن میں محافظ ہیں۔
یحییٰ بن رافع رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بروج سے مراد آسمانی محلات ہیں۔

منحال بن عمرو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خوبصورت آسمان ہیں۔
ابنِ جریر رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اس سے سورج اور چاند کی منازل مراد ہیں۔ یہ بارہ برج ہیں۔ سورج ان میں سے ہر ایک کو ایک مہینے میں طے کرتا ہے اور چاند ایک برج میں دو دن اور ایک تہائی چلتا ہے۔ اسی طرح سے چاند کی اٹھائیس منزلیں ہیں۔ دو راتیں چاند طلوع نہیں ہوتا۔
پھر جو آگے فرمایا ہے کہ اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے اور حاضر ہونے والے دن کی اور اس کی جس کے پاس حاضر ہوں گے۔ تو مفسرینِ کرام کے اس بارے میں مختلف اقوال ہیں۔
ابنِ ابی حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت ابو حریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ،
*الۡیَوۡمِ الۡمَوۡعُوۡدِ* قیامت کا دن ہے ۔ شاہد سے مراد یومِ جمعہ ہے۔ تمام ایام سے افضل جمعے کا دن ہے۔ اس میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ کوئی مومن اس میں اللہ تعالیٰ سے بھلائی کا سوال کرے تو وہ اسے عطا فرماتا ہے اور اگر وہ برائی سے پناہ مانگے تو اسے مل جاتی ہے۔
مشہود سے مراد یومِ عرفہ ہے۔حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں شاہد سے مراد *محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلیہ وسلم* ہیں اور مشہود سے مراد یومِ قیامت ہے۔ پھر آپ نے یہ آیتِ کریمہ پڑھی
۔ِ *ذَلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوعٌ لَّهُ النَّاسُ وَذَلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُودٌ*
*سورة ہود آیت 103*

یہ وہ دن ہے جس دن اکٹھے کیئے جائیں گے سب لوگ اور یہ وہ دن ہے جب سب کو حاضر کیا جائے گا۔ ایک شخص نے حضرت حسن بن علی ؓ سے شاہد اور مشھود کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کیا تم نے اس کے بارے میں مجھ سے پہلے بھی کسی سے پوچھا ہے؟ اس نے کہا ہاں میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ اور عبد اللہ بن زبیر ؓ سے اس کے بارے میں پوچھا۔تو انہوں نے بتایا شاہد سے مراد قربانی کا دن ہے اور مشہود سےمراد یومِ جمعہ ہے۔ تو آپ نے ۔ فرمایا نہیں شاہد سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلیہ وسلم ہیں۔ اور آپ نے یہ آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی،

۔سورة النساء آیت نمبر 41 ہے۔

*فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا*
ترجمہ ؛
تو کیا حال ہوگا ان نافرمانوں کا جب ہم لے آئیں گے ہر اُمت سے ایک گواہ اور اے حبیب ہم لے آئیں گے آپ کو ان سب پر گواہ۔

اور فرمایا کہ مشہود سے مراد قیامت کا دن ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ شاہد ذاتِ باری تعالیٰ اور مشہود قیامت کا دن ہے۔ اور ایک اور روایت میں فرمایا شاہد انسان ہے اور مشہود جمعے کا دن ہے۔ ابنِ جریر رحمتہ اللہ علیہ کہ بہت سے دوسرے مفسرین نے مشہود سے یومِ جمعہ مراد لیا ہے۔ اور انہوں نے دلیل کے طور پر حضرت ابو دردہ ؓ کی یہ روایت پیش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، جمعے کے دن مجھ پر کثرت سے درودِ پاک پڑھا کرو کیونکہ یہ یومِ مشہود ہے اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔
ضياء القرآن میں بھی اس حوالے سے اس طرح سے بتایا گیا ہے کہ شاہد اور مشہود کے بارے میں علماء کے بہت سے اقول ہیں..
شاہد سے مراد یوم جمعہ ہے اور مشہود سے مراد یومِ عرفہ۔
شاہد سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور مشہود سے مراد قیامت کا دن ہے۔
شاہد سے مراد انبیاء کرام اور مشہود سے مراد حضور علیہ صلٰوة والسلام۔
شاہد سے مراد اللّٰه تعالیٰ اور فرشتتے ,کراماً کاتبین , انبیاء کرام ، حضور علیہ صلٰوة و السلام ، جملہ اہلِ ایمان اور مشہود سے مراد کلمہ توحید اور دین اور اسلام کی تمام صداقتیں جن کی ان سچے گواہوں نے گواہی دی ہے۔
تفہیم القرآن میں اس حوالے سے اس طرح بتایا گیا ہے کہ کیونکہ پہلے روزِ قیامت کا ذکر ہوا ہے تو پھر آگے دیکھنے والی اور دیکھی جانے والی چیز کے بارے میں مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں مگر ہمارے نزدیک سلسلہ کلام میں جو بات مناسبت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ دیکھنے والے سے مراد ہر وہ شخص ہے جو قیامت کے روز حاضر ہوگا اور دیکھی جانے والی چیز سے مراد خود قیامت ہے، جس کے ہولناک احوال کو سب دیکھنے والے دیکھیں گے۔
یہ مجاہد ,اکرما ,ضحاک اور بعض دوسرے مفسرین کا قول ہے۔

*قُتِلَ اَصۡحٰبُ الۡاُخۡدُوۡدِ ۙ﴿۴﴾*
مارے گئے کھائی کھودنے والے۔

*النَّارِ ذَاتِ الۡوَقُوۡدِ ۙ﴿۵﴾*
جس میں آگ تھی بڑے ایندھن والی۔

ضیاء القرآن میں اس بارے میں اس طرح بتایا جاتا ہے کے اس سورة کے آغاذ میں تین قسمیں کھائی گئی ہیں اور قسم اس بات پر کھائی جا رہی ہے
کہ *قُتِلَ اَصۡحٰبُ الۡاُخۡدُوۡدِ ۙ﴿۴﴾*
یعنی ،
جن کھائی والوں نے اہلِ حق والوں کو پکڑ پکڑ کر ان دہکتے انگاروں اور بھڑکتے شعلوں میں پھینکا تھا اور یہ ارادہ کیا تھا کے حق کے ماننے والوں میں سے کوئی نہ رہے ہر طرف باطل کا غلبہ ہو ہر طرف کفر اور شرک کا اندھیرا چھا جائے۔
ایسے کرنے والے، ایسے چاہنے والے برباد ہو گئے..ان کا نام و نشان تک نہ رہا ان کی عظمت خاک میں مل گئی..ان کے محلات کھنڈرات بن گئے...ان کے سنگین قلعے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر گئے اور حق کا بول بالا اب بھی ہے۔ صداقت کے آفتاب اب بھی روشن ہیں ..حق کی شمع پر جو قربان ہوگئے وہ انسانیت کا سر بلند کر گئے۔
اور اپنے پیچھے وہ ایسے جان نثار اور جوان مردوں کا ایک بڑا جمعِ حفیر چھوڑ گئے جن کے نعروں کی گونج سے باطل آج بھی لرز جاتا ہے..

ان ہی کےنقوشِ پا سے زندگی کی شاہراہ آج بھی جگ مگ جگ مگ کر رہی ہے..
جب تک اس گلشن ہستی میں کوئی پھول کھلتا رہے گا کوئی بھی کلی مسکراتی رہے گی ..کوئی بھی بلبل نغمے گاتی رہے گی ...حق کا پرچم اونچا اور بہت اونچا لہراتا رہے گا۔
تفہیم القرآن میں بھی اس کی تفسیر اس طرح بیان کی گئی ہے کہ گڑھے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے بڑے بڑے گڑھوں میں آگ بھڑکا کر ایمان لانے والے لوگوں کو اس میں پھینکا اور اپنی آنکھوں سے ان کے جلنے کا تماشا دیکھا...
تو مارے گئے کا مطلب یہ ہے کہ ان پر اللّٰه کی لعنت پڑی اور وہ عذابِ الٰہی کے مستحق ہوگئے اور اس بات پر تین چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے..

ایک برجوں والے آسمان کی۔
دوسری روزِ قیامت کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔
اور تیسری قیامت کے ہولناک مناظر کی اور اس ساری مخلوق کی جو ان مناظر کو دیکھےگی۔
تو یہاں پہلی چیز اس بات پر شہادت دے رہی ہے کہ جو قادرِ مطلق ہستی کائنات کے عظیم الشان ستاروں اور ںسیاروں پر حکمرانی کر رہی ہے اس کی گرفت سے یہ حقیر و ذلیل انسان بھلا کہاں بچ کر جا سکتے ہیں۔
دوسری چیز کی قسم اس بنا پر کھائی گئی ہے کہ دنیا میں ان لوگوں نے جو ظلم کرنا چاہا کر لیا مگر وہ دن بحرحال آنے والا ہے جس سے انسانوں کو خبر دار کیا جا چکا ہے کہ اس میں ہر مظلوم کی داد رسی اور ہر ظالم کی پکڑ ہو گی اور تیسری چیز کی قسم اس لئے کھائی گئی ہے کہ جس طرح ان ظالموں نے ان بےبس اہلِ ایمان کے جلنے کا تماشا دیکھا اسی طرح قیامت کے روز ساری مخلوق دیکھے گی کہ ان کی خبر کس طرح سے لی جاتی ہے۔
*اِذۡ ہُمۡ عَلَیۡہَا قُعُوۡدٌ ۙ﴿۶﴾*
جب وہ اس کے کناروں پر بیٹھے تھے۔

*وَّ ہُمۡ عَلٰی مَا یَفۡعَلُوۡنَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ شُہُوۡدٌ ؕ﴿۷﴾*
اور وہ خود گواہ ہیں جو کچھ وہ اہلِ ایمان کے ساتھ کر رہے تھے۔
یعنی کے جیسے انہیں آگ میں پھینک پھینک کر جلا رہے تھے۔

*وَ مَا نَقَمُوۡا مِنۡہُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَمِیۡدِ ۙ﴿۸﴾*
اور انہیں ان کی طرف سے اور کچھ نا گوار نہ تھا سواۓ اس کے وہ اللّٰه پر ایمان لے آۓ تھے جو غالب لائقِ حمد وثنا ہے۔

یعنی انہیں مومنوں کی طرف سے اور کچھ بھی نا گوار ایسا نہیں تھا۔
سواۓ اس کے کہ وہ اللہ پر ایمان لے آۓ تھے جو غالب اور لائقِ حمدو ثنا ہے۔

*الَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ*
جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے۔

*وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍشَہِیۡدٌ ؕ*﴿۹﴾
اور اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔

اس میں منظر کی ہیبت کو بیان کر کے کہ اس میں آگ جل رہی ہے لکڑی اور ایندھن ڈالا جا رہا ہے اور ساتھ میں یہ بتایا گیا ہے کہ انکی سنگدلی کا یہ عالم تھا کہ انہی کہ بھائی انہی کے ہم قوم انہی کہ ہم وطن بڑی بے رحمی سے آگ میں دھکیلے جا رہے تھے اور یہ پاس بیٹھے تماشا دیکھ رہے تھے تو کس جرم میں ان کو یہ سزا دی جا رہی تھی۔ کو نسا قصور ان سے سر زد ہوا تھا جس کا انتقام ان سے لیا جا رہا تھا انکی کونسی ایسی حرکت تھی جو انہیں اتنی سخت ناگوار اور ناپسند تھی اور اس پر وہ اتنا زیادہ غصے میں آ گئے اور یہ ستم کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے۔
تو بتایا جا رہا ہے کہ ان پاک بازوں کا اس کے سوا کوئی جرم نہ تھا کہ وہ اللہ تعالی کی توحید پر ایمان لے آۓ تھے۔ اس کے احکام کی تعمیل کرتے تھے ۔ بے جان مجسموں یا اپنے فرعون صفت حکمرانوں کو خدا ماننے کے لیے تیار نہ تھے اور اللہ تعالی کو اپنا خالق اور مالک سمجھتے تھے جو سب پر غالب زبردست اور تمام صفاتِ کمال سے موصوف ہے۔ جس کی حکمرانی کا سکہ آسمانوں و زمینوں میں چل رہا ہے اور کائنات عرضی و سماوی میں کوئی پتا کوئی ذرا اس کے حکم کے بغیر جنبش نہیں کر سکتا۔ بلندیوں اور پستیوں میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کا اسے علم نہ ہو۔ یہ ان آیات کی تفسیر ہے جو کہ ضیاءالقرآن میں اس طرح سے بیان کی گئی ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں اس طرح سے بتایا گیا ہے کہ مفسرین کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ وہ کون لوگ تھے جنہیں آگ کی خندق میں ڈالا گیا۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں اس سے مراد اہل ایران ہیں جب انکے بادشاہ نے محرمات کے ساتھ نکاح کو جائز قرار دیا تو اسی کے علماء اس کے خلاف ڈٹ گئے اس نے ایک خندق کھدوائی اور جو بھی اسکا حکم ماننے سے انکار کرتا اسے اس میں پھینکوا دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ آج بھی محرم کے ساتھ نکاح کو حلال سمجھتے ہیں۔ آپ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ یمن کے باشندے تھے وہاں مومنین اور مشرکین کے درمیان جنگ ہوئی تو مومن کفروں پر غالب آگئے پھر دوبارہ جنگ ہوئی تو کافر مومنین پر غالب آگئے۔
تو پھر کافروں نے خندقیں کھود کر مومنین کو ان میں پھینک کر جلا دیا اور آپ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس سے مراد حبشہ کہ رہنے والے لوگ ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضیؓ سے مروی ہے کہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں نے زمین میں خندق کھودی اور اسی میں آگ جلا کر کچھ مردوں اور عورتوں کو اس میں ڈال دیا۔
حضرت صہیبؓ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلن نے ارشاد فرمایا کہ پہلے وقت میں ایک بادشاہ تھا۔ اس کا ایک جادوگر تھا جب وہ جادوگر بوڑھا ہو گیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں میری موت کا وقت قریب آگیا ہے مجھے کوئی نوجوان لڑکا دو میں اسے یہ جادو سکھا دوں۔ تو بادشاہ نے اسے نوجوان لڑکا دے دیا ۔ لڑکے کے راستے میں ایک راہب کا گھر تھا وہ لڑکا ایک دن اس راہب کے پاس آیا اس نے راہب کی گفتگو سنی تو بڑا متاثر ہوا اور کچھ دیر اسی کے پاس ٹھہرا رہا۔ جب وہ جادوگر کے پاس پہنچا تو اس نے اس لڑکے کو بہت مارا اور اسے تاخیر کا سبب پوچھا جب وہ گھر آیا تو گھر والوں نے بھی اسے مارا اس سے پوچھنے لگے کہ تم دیر سے کیوں گھر آۓ ہو۔
اس لڑکے نے اس واقعہ کی شکایت راہب سے کی اس نے کہا جب تجھے جادوگر مارنے لگے تو اسے کہنا مجھے گھر میں دیر ہو گئی تھی اور جب تجھے تیرے گھر والے مارنے لگیں تو اسے کہنا کہ مجھے جادوگر کے پاس تاخیر ہو گئی تھی۔ اسی طرح کچھ عرصہ گزر گیا اس دوران وہ راہب سے دینی علوم سیکھتا رہا۔
ایک دن وہ واپس آرہا تھا تو اس نے دیکھا کہ راستے میں ایک بھاری بھرکم جانور ہے جس نے لوگوں کا راستہ بند کر رکھا ہے۔ نوجوان نے اپنے دل میں کہا کہ آج معلوم ہو جاۓ گا کہ اللّٰه کے نزدیک زیادہ محبوب راہب ہے یا جادو گر۔ اس نے ایک پتھر پکڑا اور اللّٰه تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا کی کہ اے خدا اگر راہب تیرے نزدیک جادو گر سے زیادہ پسندیدہ ھے اور محبوب ھے تو اس پتھر کے ساتھ اس جانور کو ہلاک کر دے تاکہ لوگ یہاں سے گزر سکیں۔ پھر اس نے وہ پتھر مارا جس سے وہ جانور مر گیا۔ اور لوگوں کے لیے راستہ صاف ھو گیا۔ اس نے اس واقعہ کا ذکر راہب سے کیا ۔تو اس نے کہا "اے بیٹا تم مجھ سے افضل ہو، اب تمہیں آزمائش میں مبتلا کیا جاۓ گا ، اگر ایسا ہوا تو کسی کو میرے بارے میں نہ بتانا۔"

اس کے بعد وہ لڑکا خلقِ خدا میں مشہور ہو گیا۔ اسکی دعا سے مادر زاد اندھے ، کوڑھی ، بیماریوں والے شفا یاب ہوتے۔

ایک دفعہ بادشاہ کا ایک وزیر اندھا ھو گیا اس نے اس بچے کے بارے میں سنا تو بہت سے تحفے تحائف لے کر اسکی خدمت میں پہنچا اور اس سے کہنے لگا مجھے شفاء دو۔ اس نے کہا میں تو کسی کو شفاء نہیں دے سکتا بلکہ شفاء اللّٰه تعالیٰ کی ذات دیتی ھے۔ اگر تو اس پر ایمان لاۓ تو میں اللّٰه تعالیٰ سے دعا کروں گا وہ تمہیں شفاء عطا فرماۓ گا۔ یہ بات سن کر وہ ایمان لے آیا۔
اور نوجوان کی دعا سے وہ شفاء یاب ھو گیا ، جس وقت وہ بادشاہ کی مجلس میں دوبارہ حاضر ہوا اور بادشاہ نے اسکی آنکھوں کو بینا دیکھا تو اس سے پوچھا کہ یہ تیری بینائی کس نے لوٹائی ھے۔
اس نے کہا، میرے رب نے۔
تو بادشاہ نے کہا کیا میں نے۔
اس نے کہا
نہیں ۔۔
بادشاہ نے پوچھا میرے سوا بھی تیرا کوئی رب ھے۔
اس نے کہا
ہاں میرا اور تمہارا سب کا رب اللّه تعالیٰ ھے۔
یہ سن کر بادشاہ آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے اسے سخت سزا دینے کا حکم دیا۔ یہاں تک کہ اس نے اس نوجوان کے بارے میں بتایا۔
بادشاہ نے اسے اپنے دربار میں بلایا اور اسے کہنے لگا کہ تم جادو میں کمال مرتبہ تک پہنچ گے ہو کہ تم مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں اور مختلف بیماریوں والوں کو شفاء دینے لگے ہو۔ تو اس نوجوان نے جواب دیا یہ غلط ہے۔ میں کسی کو شفاء نہیں دیتا۔ شفاء تو صرف اللّٰه تعالیٰ دیتا ہے۔ تو بادشاہ نے کہا، میں؟
تو اس نے کہا نہیں۔
اس نے پوچھا کیا میرے سوا بھی تیرا کوئی رب ہے؟
تو لڑکے نے جواب دیا میرا اور تمہارا اللّٰه تعالیٰ ھے۔
بادشاہ نے اسے بھی سخت سزا دینے کا حکم دیا، اسے سخت سے سخت سزا دی گئی یہاں تک کہ اس نے راہب کے بارے میں بتا دیا۔ راہب کو بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا۔
بادشاہ نے راہب سے کہا اپنا دین چھوڑ دو۔ جب اس نے انکار کیا تو اس کے سر میں آرا چلا کر اسے دو حصّوں میں تقسیم کر دیا گیا۔
بادشاہ نے وزیر سے کہا تم یہ دین چھوڑ دو تو اس نے بھی انکار کر دیا اور اسے بھی آرا چلا کر دو حصّوں میں تقسیم کر دیا۔ پھر اس نوجوان سے بھی یہی کہا۔ نوجوان نے بھی انکار کیا تو بادشاہ نے اپنے سپاہیوں سے کہا اسکو فلاں پہاڑ کی چوٹی پر لے جاؤ، اگر یہ اپنے دین سے واپس لوٹ آے تو ٹھیک ورنہ اسے دھکا دے کر نیچے گرا دینا۔ جب وہ اسے لے کر پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو لڑکے نے دعا کی کہ یا اللّٰه مجھے ان سے نجات دلا۔ دعا کرنے کی دیر تھی کہ پہاڑ لرزنے لگا۔ بادشاہ کے تمام سپاہی ہلاک ہو گے اور وہ صحیح سلامت لوٹ آیا۔ جب وہ بادشاہ کے پاس پہنچا تو اس سے پوچھا کہ تمھارے ساتھی کہاں ہیں؟
اس نے کہا کہ اللّٰه تعالیٰ نے مجھے ان سے نجات دلائی ھے ۔
پھر بادشاہ نے اسے کچھ سپاہیوں کے ساتھ بھیجا اور سپاہیوں کو حکم دیا کشتی میں بیٹھا کر لے جاؤ۔ جب گہرے سمندر میں پہنچو تو اس سے پوچھو اگر اس نے اپنے دین سے رجوع کر لیا تو ٹھیک ورنہ اسے سمندر میں غرق کر دینا۔ جب سمندر میں پہنچے تو اس نے پھر دعا کی۔
جسکی وجہ سے تمام سپاہی غرق ہو گے اور لڑکا صحیح سلامت واپس بادشاہ کے پاس پہنچ گیا ، بادشاہ نے اس سے اپنے سپاہیوں کے بارے میں پوچھا تو لڑکے نے بتایا کہ مجھے اللّٰه تعالیٰ نے ان سے نجات عطا فرمائی ہے۔ پھر بادشاہ سے کہا کہ جب تک تم میرے کہنے پر عمل نہیں کرو گے تو تم مجھے مار نہیں سکو گے۔ تو بادشاہ نے کہا میں تمھارء بات پر عمل کرنے کو تیار ہوں بتاؤ کیا بات ہے۔
اس نے کہا تمام لوگوں کو جمع کرو ، پھر کھجور کے تنے پر مجھے سولی چڑھا دینا اور پھر میرے ترکش سے ایک تیر لیکر کہنا کہ اس نوجوان کے پروردگار اللّٰه کے نام پر۔ یہ کہہ کر پھر مجھے تیر مار دینا۔ تیر مجھے لگے گا میں مر جاؤں گا۔ بادشاہ نے ایسا ہی کیا۔ وہ تیر لڑکے کی کنپٹی پر لگا۔ اس نوجوان نے اپنا ہاتھ کنپٹی پر رکھا اور پھر اسکی روح پرواز کر گئی۔
یہ منظر دیکھ کر لوگوں نے کہا ہم اس کے پروردگار پر ایمان لاتے ہیں۔
بادشاہ کے لوگوں نے اس سے کہا کہ تم اسی چیز سے ڈرتے تھے اور یہی مصیبت تم پر نازل ہوئی۔ تمام کے تمام اس نوجوان کے پروردگار پر ایمان لے آئے۔ یہ حالات دیکھ کر بادشاہ غصے سے باہر ہو گیا۔ اس نے حکم دیا شہر کے بازاروں میں خندقیں کھود کر اس میں آگ جلا دو اور جو شخص اسکے دین کو نہ چھوڑے اسکو اس میں پھینک دیا جاۓ۔ جب مومنین نے یہ حکم سنا اللّٰه کی رضا کی خاطر خود ہی اس میں چھلانگ لگانے لگے۔
ایک عورت آئی جس کے پاس ایک چھوٹا دودھ پیتا بچہ تھا وہ آگ میں چھلانگ لگاتے ہوئے ہچکچائی تو معصوم بچہ بول پڑا اے امی جان صبر کر تم حق پر ہو۔
اس حدیث کو امام مسلم نے صحیح مسلم میں حبہ بن خالد سے روایت کی ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ
*بےشک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پهر توبہ بهی نہ کی تو ان کے لیے عذاب جهنم ہے اور انکے لیے آگ میں جلنے کا عذاب ہے۔*

یعنی کے جو شخص اپنی طاقت کے نشے میں اللہ تعالی کے بندے اور بندیوں کو اذیت پہنچاتے ہیں اور پهر اپنی ان غیر انسانی ہرکتوں سے طائب نہیں ہوتے وہ یہ نہ سمجهیں کے انکی یہ خدسری گوارا کرلی جائے گی۔ قدرت کا قانون مقافات انکے معاملے میں بے اثر ہو کے رہ جائگا تو ایسا ہرگز نہ ہوگا انہیں درد ناک سزا ملےگی۔
اور جلانے کا جو عذاب انہوں نے اللہ کے مقبول بندوں کے لیئے تجویز کیا تھا انہیں بھی اسی قسم کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ اگرچہ کہ ان دونوں آگوں کا جو فرق ہے وہ بہت زیادہ ہوگا۔ اس طرح سے کہ جہنم میں جا کر انکو ہمیشہ آگ میں جلتے رہنے کا عذاب ملے گا۔
معارف القرآن میں اس حوالے سے یہ بتایا گیا ہے کہ ان لوگوں کے لیے عذابِ جہنم اور عذابِ ہریق کی خبر کے ساتھ قرآنِ کریم نے یہ قید بهی لگا دی۔
ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا
یعنی عذاب ان لوگوں پر پڑے گا جو اپنے اس فعل پر نادم ہو کر طائب نہیں ہوئے اس میں ان لوگوں کو توبہ کی طرف دعوت دی گئی ہے۔
حضرت حسن بصری رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کے اس جود و کرم کو دیکهو کہ ان لوگوں نے اللہ کے اولیاء کو زندہ جلا کر تماشہ دیکها اور حق تعالی اس پر بهی توبہ اور مغفرت کی طرف دعوت دے رہا ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں اسکی تفصیل اس طرح سے بیان کی گئی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ "فَتَنُوا" کا معنی یہ ہے کہ انهوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو آگ میں جلایا۔ اور " ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا" کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنے اس فعل سے بعض نہ آئے اور نہ ہی اپنے گزشتہ اعمال پر نادم ہوئے جس قسم کا ان کا عمل تها اسی قسم کی انہیں سزا دی گئی۔
یہاں پر بهی یہ بتایا گیا حضرت حسن بصری رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کے اس جود و کرم کو دیکھو ان لوگوں نے اللہ کے اولیاء کو قتل کیا اور وہ انہیں توبہ اور مغفرت کی دعوت دے رہا ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ
*بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لیے جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں*

ذَلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ
*یہی بڑی کامیابی ہے*

إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ
*بے شک آپ کے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے*

جس طرح پچهلی آیات میں اللہ تعالی نے اپنے دشمنون کا انجام بیان کیا ہے اس میں اس کے لیے بهڑکتی ہوئی آگ کا عذاب تیار کر رکها ہے تو یہاں اپنے مومن بندوں کے بارے میں بهی اللہ بیان فرماتا ہے کہ ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور پهر اسی کے لیے فرمایا گیا کہ یہی بڑی کامیابی ہے۔ ارشادِ باری تعالی ساتھ یہ بھی ہے کہ بیشک آپ کے رب کی پکڑ بہت شدید ہے اور سخت ہے۔ یعنی اللہ کے رسولوں کی تکذیب اور انکے کام کی مخالفت کرنے والوں کیلئے اسکی پکڑ اور انتقام بہت شدید ہے اور یہ عقل کے اندھے رب کو کمزور نہ جانیں۔
اس کا ہر کام حکمت بھرا ہوتا ہے، ہر کام کیلئے اس نے وقت مقرر کر رکھا ہے اور جب وہ وقت آجاتا یے تو پھر وہ یوں سخت پکڑ کرتا ہے کہ اسکے عذاب سے کوئی چھڑا نہیں سکتا اور کوئی بچا نہیں سکتا۔

إِنَّهُ هُوَ يُبْدِئُ وَيُعِيدُ
*بیشک وہ ہی پہلی بار پیدا فرماتا ہے اور وہ ہی دوبارہ پیدا فرمائے گا۔*

وَهُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ
*اور وہ بڑا بخشنے والا بہت محبت فرمانے والا ہے۔*

ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ
*مالکِ عرش بڑی شان والا ہے۔*

فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ
*وہ جو بھی ارادہ فرماتا ہے خوب کر دینے والا یے*۔

ان آیات میں ربِ کریم کی مزید شانیں بیان کی جا رہی ہیں۔ کہ تمہیں پہلے پیدا بھی اسی نے کیا۔ تمہیں دوبارہ زندہ بھی وہ ہی کرے گا۔ اسی کی مغفرت کا دامن بڑا وسیع ہے۔ اسکو اپنے فرماں بردار بندوں سے بڑی محبت ہے اور بے اندازہ پیار ہے۔ اسکی غیرت انہیں تکلیف پہنچانے والوں کو زیادہ مہلت نہیں دیتی۔

تفہیم القرآن میں بھی ان آیات کی تفصیل اس طرح بیان کی گئی ہے کہ بخشنے والا کہہ کر یہ امید دلائی گئی ہے کہ کوئی اگر اپنے گناہوں سے بعض آ کر توبہ کر لے تو اس کے دامن رحمت میں جگہ پا سکتا ہے۔ محبت کرنے والا کہہ کر یہ بتایا گیا ہے کہ اسکو اپنی خلق سے عداوت نہیں ہے کہ خواہ مخواہ اسکو مبتلا عذاب کرے۔ بلکہ جس مخلوق کو اس نے پیدا کیا ہے اس سے محبت رکھتا ہے اور سزا صرف اس وقت دیتا ہے جب وہ سرکشی سے بعض نہ آئے۔ مالکِ عرش کہہ کر انسان کو یہ احسااس دلایا گیا ہے کہ سلطنتِ کائنات کا فرماروا صرف وہی ہے۔ اس سے سرکشی کرنے والا اس کی پکڑ سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتا۔ اور بزرگ و برتر کہہ کر انسان کو اپنے انتہائی کمتر ہونے کا احساحس دلایا گیا ہے کہ وہ ایک ایسی ہستی کے مقابلے میں ایسا رویہ اختیار کرتا ہے اور آخری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ جو کچھ چاہے کر ڈالنے والا ہے یعنی پوری کئنات میں کسی کی بھی یہ طاقت نہیں ہے کہ اللہ جس کام کا ارادہ کرے تو اسکے رستے میں وہ حائل ہو یا مزاحم ہو یا روک سکے۔
*سورة البروج 17*

*ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ الۡجُنُوۡدِ ﴿ۙ۱۷﴾*
کیا پہنچی ہے آپ کے پاس لشکروں کی خبر۔

*فِرۡعَوۡنَ وَ ثَمُوۡدَ ﴿ؕ۱۸﴾*
فرعون اور ثمود کی۔

یعنی فرعون اور ثمود کے لشکروں کی۔

ضیاءلاقرآن میں اس طرح سے بتایا جا رہا ہے کہہ کہا گیا ہے کہ اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرکش اور بغاوت کا علم بلند کرنے والے صرف یہی لوگ نہیں ہیں ان سے پہلے کئی فرعون و ثمود اور ان کے لشکر اپنا جاہ و جلال دکھا چکے ہیں ، خدا کی مخلوق پر ستم کی انتہا کر چکے ہیں، خدا کی زمین کو بے گناہوں کے خون سے رنگین بنا چکے ہیں لیکن وہ سب فنا ہو چکے ہیں۔

*بَلِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِیۡ تَکۡذِیۡبٍ ﴿ۙ۱۹﴾*
بلکہ ایسے کافر جھٹلانے میں ہیں۔ یعنی ایسے کافر ہمیشہ حق کو جھٹلانے میں ہی کوشاں رہتے ہیں۔

*وَّ اللّٰہُ مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ مُّحِیۡطٌ ﴿ۚ۲۰﴾*
اور اللہ تعالٰی بھی انہیں گردو پیش سے گھیرے ہوئے ہے۔
*بَلۡ ہُوَ قُرۡاٰنٌ مَّجِیۡدٌ ﴿ۙ۲۱﴾*
بلکہ یہ قرآن ہے بڑی شان والا ۔

*فِیۡ لَوۡحٍ مَّحۡفُوۡظٍ ﴿٪۲۲﴾*
جو لوحِ محفوظ میں ہے۔

تو بتایا جا رہا ہے کہ سب کا نام و نشان مٹ گیا وہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ان سے زیادہ طاقتور اور کوئی نہیں ہے۔
اور انکا گھیراؤ نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ خداوندِ عالم اور اسکی طاقتوں کو بھلائے ہوئے تھے۔

*وَّ اللّٰہُ مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ مُّحِیۡطٌ ﴿ۚ۲۰﴾*
کہ اللّٰه تعالی حالانکہ ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے اور یہ قرآن بڑی عظمت والی اور اونچی شان والی کتاب ہے۔ اس میں سارا کچھ حق ہے سچ ہے، ہر شک و شبہ سے با لاتر ہے یہ ایسی لوح میں مکتوب ہے جو ہر بیرونی دخل اندازی سے قطعاً محفوظ ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضرت عمر بنؓ میمون ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو
*ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ الۡجُنُوۡدِ ﴿ۙ۱۷﴾*
تلاوت کر رہی تھی آپؐ یہ آیت سن کر کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے ہاں میرے پاس خبر آ گئی ہے فرمایا بلکہ یہ جھٹلانے میں مصروف ہیں۔۔۔
یعنی ہر شک و شبہ اور کفر و عناد میں مبتلا ہیں۔ حالانکہ ان کو اللّٰه تعالی ہر طرف سے گھیرے ہوۓ ہے وہ ان پر غالب ہے وہ نہ تو اس کو عاجز کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے بچ کے نکل سکتے ہیں۔ بلکہ وہ کمال شرف والا قرآن ہے ایسی لوحہ پر لکھا ہوا ہے جو محفوظ ہے۔

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ یہ لوحِ محفوظ حضرت اسرافیلؑ کی پیشانی پر ہے۔ عبدالرحمن بن سلیمانؓ فرماتے ہیں کہ دنیا میں جو کچھ ہوا، ہو رہا ہے اور ہو گا وہ سب لوحِ محفوظ میں موجود ہے اور لوحِ محفوظ حضرت اسرافیلؑ کی دونوں آنکھوں کے سامنے ہے لیکن جب تک انہیں اجازت نہ ملے وہ اسے دیکھ نہیں سکتے۔ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے لوحِ محفوظ کی پیشانی پر یہ عبارت ہے کہ کوئی معبود نہیں بجز اللّٰه تعالی کے وہ اکیلا ہے۔ اس کا دین اسلام ہے محمدﷺ ّ اس کے بندے ہیں اس کے رسول ہیں جو اللّٰه تعالی پر ایمان لاۓ اس کے وعدے کو سچا جانے اس کے رسولوں کی تابعدری کرے، خدائے وحدہ لا شریک اس کو جنت میں داخل کرے گا۔
فرماتے ہیں یہ لوح سفید موتی کی ہے۔ اس کا طول آسمان اور زمین کے برابر ہے اور اس کی چوڑائی مشرق اور مغرب کے برابر ہے۔ اس کے دونوں کنارے موتی اور یاقوت کے ہیں اس کے دونوں پٹھے سرخ یاقوت کے ہیں اس کا قلم نور ہے اس کا کلام عرش کے ساتھ وابستہ ہے اس کی اصل فرشتے کی گود میں ہے میکائلؒ فرماتے ہیں یہ خدا کے عرش کے دائیں طرف ہے۔
طبرانی میں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللّٰه تعالی نے لوحِ محفوظ کو سفید موتی سے پیدا کیا اس کے صفحے سرخ یاقوت کے ہیں اس کا قلم نور کا ہے اس کی کتابت نور کی ہے اللّٰه تعالی ہر دن 360 مرتبہ اسے دیکھتا ہے وہ پیدا کرتا ہے روزی دیتا ہے مارتا ہے جلاتا ہے عزت دیتا ہے ذلت دیتا ہے اور جو چاہے کرتا ہے۔