سورة طارق کی پہلی آیت کے لفظ طارق کو اسکا نام قرار دیا گیا ہے اور یہ سورة مکی سورة ہے۔ اعوذ با اللٰہ من الشیطٰن الرجیم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيم *وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ* قسم ہے آسمان کی اور رات کو نمودار ہونے والے کی *وَمَا أَدْرَاكَ مَا الطَّارِقُ* اور آپکو کیا معلوم کہ یہ رات کو آنے والا کیا ہے *النَّجْمُ الثَّاقِبُ* ایک تارہ نہایت تاباں *إِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَمَّا عَلَيْهَا حَافِظٌ* کوئی شخص ایسا نہیں جس پر کوئی محافظ نہ ہو اس میں جو طارق ہے یہ طرق سے مشتق ہے۔ رات کے وقت آنے والے مہمان کو طارق اس لیے کہتے ہیں کہ وہ رات کو سوتے ہوۓ میزبان کو جگانے کے لیے اسکا دروازہ کهٹکهٹاتا ہے۔ ستارے کو بهی طارق کہتے ہیں کیوں کہ وہ صرف رات کے وقت نمودار ہوتا ہے۔ یہاں طارق سے مراد ستارہ ہے۔ کیوں کہ پهر اس کے آگے اس کی تشریح دی گئی ہے اور یہاں پہ الثاقب جو ہے، ثقب سراخ کو کہتے ہیں۔ اندهیرے میں روشنی کی کرن ایسی دکهائی دیتی ہے جیسے اس نے اندهیرے کی دیوار میں سوراخ کر دیا ہو۔ اس لیے وہ تارہ جو نہایت چمک دار ہو جس کی تیز روشںی اندهیرے کو چیرتی ہوئی دور سے نظر آئے اسے بهی النَّجْمُ الثَّاقِبُ کہتے ہیں۔ اس سے مراد کوئی مخصوص ستارہ نہیں ہے بلکہ جنس ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ صبح کے وقت نمودار ہونے والے تارے کو طارق کہتے ہیں کیوں کہ۔ وہ صبح کا پیغمبر بن کر طلوع ہوتا ہے اس لیے اس کی بڑی شان ہوتی ہے۔ یہاں پر آسمان اور چمکتے ستارے کی قسم کهائی گئی ہے تو یہ قسم کهانے کے بعد جوابی قسم کا بهی ذکر ہو رہا ہے اور فرمایا ہے ، کوئی شخص ایسا نہیں جس پر نگہبان مقرر نہ ہو۔ یعنی تم اس غلط فہمی کو دل سے نکال دو کہ تمہیں پیدہ کر کے یوں ہی بے لگام چهوڑ دیا ایسا نہیں ہے بلکہ ہم نے تمہاری نگہداشت کا پورا انتطام کیا ہے تا کہ تم اپنی منزل یعنی موت تک پہنچنے سے پہلے کہیں پر بهی رگڑ نہ دیئے جاؤ۔ یا ناگہانی حادثات تمہیں کہیں پیس کے نہ رکھ دے۔ حدیثِ پاک میں ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ؛ ہر شخص کی حفاظت کے لیے ایک سو ساٹھ فرشتے مقرر ہیں جو ایسے حادثات اور مصائب سے اس کی پاسبانی حفاظت کرتے ہیں جو اس کی تقدیر میں نہیں ہے.. اگر انسان کو اس کے اپنے حوالے کر دیا جائے تو شیطان اور دوسرے انسانی دشمن قوتیں اس کی تکہ بوٹی کرکے رکھ دیں ۔۔ غیر متوقع حادثات اور اچانک آنے والی آفات کے جو جھکڑ چل رہے ہیں ان میں سے انسان کا بچ کر نکلنا معجزے سے کم نھیں ہے۔ ہر انسان نے اپنی زندگی میں بار بار تجربہ کیا ہوگا کہ کہیں نہ کہیں پر کوئی غیر طاقت اس کی حفاظت کر رہی ہوتی ہے۔ یہاں پر جو نگہبان کہا گیا ہے۔ نگہبان سے مراد خود اللہ تعالی کی ذات ہے جو زمین اور آسمان کی ہر چهوٹی بڑی مخلوق کی دیکھ بھال اور حفاظت کر رہی ہے جس کے وجود میں لانے سے ہر شے وجود میں آئی ہے، جس کے باقی رہنے سے ہر شے باقی ہے ، جس کے سنبهالنے سے ہر شے اپنی جگہ سنبهلی ہوئی ہے اور جس نے ہر چیز کو اس کی ضروریات باہم پہنچانے اور اسے ایک مقررہ مدت تک آفات سے بچانے کا ذمہ لے رکها ہے۔ اس بات پر آسمان کی اور رات کی تاریکی میں نمودار ہونے والے ہر تارے اور سیارے کی قسم کهائی گئی ہے۔ تفہیم القرآن میں اسکی تشریح اس طرح بیان کی گئی ہے کہ "النَّجۡمُ الثَّاقِبُ" کا لفظ اگرچہ لوگوں کے اعتبار سے واحد ہے لیکن مراد اس سے ایک تارہ نہیں ہے بلکہ تاروں کی جنس ہے۔ یہ قسم اس معنی میں ہے کہ رات کو آسمان میں ہے بےحد و حساب اور سیارے جو چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں ان میں سے ہر ایک کا وجود اس عمل کی شہادت دے رہا ہے کہ کوئی ہے جس نے اسے بنایا ہے، روشن کیا ہے، فضا میں معلق رکھ چهوڑا ہے اور اس طرح اس کی حفاظت اور نگہبانی کر رہا ہے کہ نہ وہ اپنے مقام سے گرتا ہے اور نہ وہ بیشمار ستاروں کی گردش کے دوران کسی سے ٹکراتا ہے اور نہ کوئی تارہ اس سے ٹکراتا ہے۔ *فَلۡیَنۡظُرِ الۡاِنۡسَانُ مِمَّ خُلِقَ ؕ﴿۵﴾* پس انسان کو غور کرنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ۔ *خُلِقَ مِنۡ مَّآءٍ دَافِقٍ ۙ﴿۶﴾* وہ قو ت سےاچھلنےوالے پانی میں سے پیدا کیا گیا ہے ۔ *یَّخۡرُجُ مِنۡۢ بَیۡنِ الصُّلۡبِ وَ التَّرَآئِبِ ؕ﴿۷﴾* جو پیٹھ اور کہولے کی ہڈیوں کے درمیان سے گزر کر باہر نکلتا ہے ۔ *اِنَّہٗ عَلٰی رَجۡعِہٖ لَقَادِرٌ ؕ﴿۸﴾* بیشک وہ اسےکو پھر واپس لانے پر قادر ہے۔ تفہیم القرآن میں اسکی تفصیل اس طرح سے کی گئی ھےعالم بالیٰ کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب انسان کو دعوت دی جا رہی ھے کہ وہ خود ذرا اپنی ھستی ہی پر غور کر لے کہ وہ کس طرح پیدا کیا گیا ھے کون ھے جو باپ کے جسم سے خارج ھونے والےعربوں جرثوموں میں سےایک جرثومے اور ماں کے اندر سے نکلنے والے باکثرت بیضو ں میں سےایک بیضے کاانتخاب کر کے دونوں کو کسی وقت جوڑ دیتاھےاور اس سے ایک خاص انسان کا استقرار حمل واقع ھو جاتاھے پھر وہ کون ھے جو استقرار حمل کے بعد سے ماں کے پیٹ میں درجہ با درجہ اسے نشوونما دے کر اسے اس حد کو پہنچاتا ھے کہ وہ ایک زندہ بچے کی شکل میں پیدا ھو تا ھے پھر وہ کون ھے رحم مادر ہی میں اس کے جسم کی ساخت اور اسکی جسمانی اور ذھنی صلاحیتوں کا تناصب قائم کرتا ھے اور وہ پھر کون ھے جو پیدائش سے لے کہ موت تک اس کی مسلسل نگہبانی کرتا ھے اسے بیماریوں سے بچاتا ھے حا دثات سے بچاتا ھے طرح طرح کی آفات سے بچاتا ھے اس کےلیے زندگی کے اتنےذرائع بہم پہنچتا ھے جن کا شمار بھی نہیں ھو سکتا اور اس کے لیے ھر قدم پر دنیا میں باقی رہنے کے وہ مواقع فراہم کرتا ھے جن میں سے اکثر کا اسے شعور تک نہیں ھوتا یعنی خود کو فراہم کرنا تو دور کی بات انکے بارے میں شعور بھی نھیں ھوتا تو کیا یہ سب کچھ ایک خدا کی تدبیر اور نگرانی کے بغیر ھو رھا ھے یہاں پہ "صلب اور ترائب" کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔"صلب ریڑھ کی ہڈی کو کہتے ہیں اور ترائب کے معنی ہیں ۔سینے کی ہڈیاں۔یعنی پسلیاں۔ چونکہ عورت اور مرد دونوں کے مادے تولید انسان کے اس دھٹر سے خارج ھوتے ھیں ۔جو صلب ۔اور سینے کے درمیان واقع ھیں اس لیے فرمایا گیا ھے کہ انسان اس پانی سے پیدا کیا گیا ھے جو پیٹ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ھے یہ مادہ اس صورت میں بھی پیدا ھوتا ھےجب کے ھاتھ اور پاٶں کٹ جائیں اس لیے یہ کہنا ٹھیک نہیں ھے کہ یہ انسان کے پورے جسم سے خارج ھوتا ھے در حقیقیت جسم کے اعضاء رئیسا اس کے ماخذ ہیں اور وہ سب آدمی کے دھٹر میں واقع ھے دما غ کاالگ ذکر اس لیے یہاں نہیں کیا گیا کہ صلب دماغ کا وہ حصٌہ ھے جسکی بدولت ھی جسم کے ساتھ دماغ کا تعلق قائم ھو تا ھے آگے جو کہا گیا ھے۔ *اِنَّہٗ عَلٰی رَجۡعِہٖ لَقَادِرٌ ؕ﴿۸﴾* بیشک وہ اسے یعنی زندگی کو پھیر لانے پر یقیناً قدرت رکھنے والا ہے۔ اس حوالے سے تفہیم القرآن میں بیان کیا جا رھا ھے جس طرح انسان کو وجود میں لاتا ھے اور استقرار حمل کے وقت سے مرتے دم تک اس کے نگرانی کرتا ھے یہی اس بات کا کھلا ثبوت ھے کہ وہ اسے موت کے بعد پلٹاکر پھر وجود میں لا سکتا ھے. اگروہ پہلی چیز پر قادر تھااور اسی قدرت کی بدولت انسان دنیا میں آج موجود ھے تو آخر میں کیا معقول دلیل یہ گمان کرنے کے لیے پیش کی جا سکتی ھے کہ دوسری چیز پر وہ قادر نہیں ھے اس قدرت کا انکار کرنے کے لیے سرے سےاس بات ہی کا انکار کرنا ھو گا کہ خدا اسے وجود میں لایا ھے جو شخص اس کا انکار کرے اسے کچھ بعید نہیں کہ ایک روز اس کے دماغ کی خرابی اسے یہ دعوہ بھی کرا دے کہ دنیا کی تمام کتابیں ایک حادثے کے طور پر چھپ گئی ھیں اور زمین پر کوئی اتفاقی حادثہ ھو گیا تھا جس سے تمام کارخانے خود بہ خود چلنے لگے ھیں حقیقت یہ ھے کہ انسان کی تخلیق اور جسم کی بناوٹ اور اس کے اندر کام کرنےوالی قوتوں اور صلاحیتوں کا پیدا ھو نا اور اسکا ایک زندہ ہستی کی حثیت سے باقی رہناان تمام کاموں سے بہ درجہ زیادہ پیچیدہ عمل ھے جو انسان کے ہاتھوں دنیا میں ہوۓ اور ہو رہے ھیں اتنا بڑا پیچیدہ عمل اس حکمت اور تناصب تنظیم کے ساتھ اگر اتفاقی حادثے پر ھو سکتا ھوتو پھر کون سی چیز ھے جسے ایک دماغی مریض حادثہ نہ کہے سکے۔ *سورة الطارق 9* *یَوۡمَ تُبۡلَی السَّرَآئِرُ ۙ﴿۹﴾* جس دن سب راز ظاہر کر دیئے جائیں گے. معارف القرآن میں ہے کہ *تُبۡلَی* کے لفظی معنی امتحان لینے اور آزمانے کے ہیں.اور *السَّرَآئِرُ* کے معنی ہیں مخفی امور. تو مطلب یہ کہ قیامت کے روز انسان کے تمام عقائد و خیالات اور نیت و عزم جو دل میں پوشیدہ تھی. دنیا میں اس کو کوئی نہیں جانتا تھا .اسی طرح وہ اعمال و افعال جو اس نے چھپ کر کیے دنیا میں کسی کو ان کی خبر نہیں تھی .محشر میں سب کا امتحان لیا جائے گا. یعنی سب کو ظاہر کر دیا جائے گا. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز انسان کے ہر مخفی راز کو کھول دے گا .ہر اچھے بُرے عقیدے اور عمل کی علامت انسان کے چہرے پر یا زینت ہو کر یا ظلمت و سیاہی کی صورت میں ظاہر کر دی جائے گی. تفہیم القرآن میں بھی اس حوالے سے بتایا گیا ہے .کہ *پوشیدہ اسرار* سے مراد ہر شخص کے وہ اعمال بھی ہیں. جو دنیا میں ایک راز بن کر رہ گئے . اور وہ معاملات بھی ہیں جو اپنی ظاہری صورت میں تو دنیا کے سامنے آئے مگر اس کی پیچھے جو نیتیں اور اغراض اور خواہشات کام کر رہی تھیں اور ان کے جو باطنی محرکات تھے .ان.کا حال لوگوں سے چھپا رہ گیا. تو قیامت کے روز یہ سب کچھ کھل کر سامنے آ جائے گا. اور جانچ پڑتال صرف اسی بات کی نہیں ہو گی.کہ کس شخص نے کیا کچھ کیا؟ بلکہ اس بات کی بھی ہو گی کہ کس وجہ سے کیا ؟کس غرض اور کس نیت اور کس مقصد سے کیا۔؟ تو اسی طرح یہ بات بھی ساری دنیا سے حتیٰ کہ خود ایک وہ فعل کرنے والے انسان سے بھی مخفی رہ گئی ہے کہ جو فعل اس نے کیا اس کے کیا اثرات دنیا میں ہوئے؟ کہاں کہاں پہنچے اور کتنی مدت تک چلے۔ یہ راز بھی قیامت ہی کے روز کھلے گا۔ اور اس کی پوری جانچ پڑتال ہو گی کہ جو بیج بھی کوئی شخص دنیا میں بو گیا تھا اس کی فصل کس کس شکل میں کب تک کٹتی رہی۔ اور کون کون اسے کاٹتا رہا۔ *سورة الطارق 10* *فَمَا لَہٗ مِنۡ قُوَّۃٍ وَّ لَا نَاصِرٍ ﴿ؕ۱۰* پھر انسان کے پاس نہ کوئی قوت ہو گی اور نہ کوئی مددگار۔ یعنی کہ نہ تو اس کے بازووں میں اتنا زور ہو گا۔کہ وہ اپنے آپ کو بچا سکے۔اور نہ اس کے دوست احباب اس کے مددگار بن کر آئیں گے. اور اس کو عذابِ الٰہی سے چھڑائیں گے. *وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجۡعِ ﴿ۙ۱۱﴾* *وَ الۡاَرۡضِ ذَاتِ الصَّدۡعِ ﴿ۙ۱۲﴾* *وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجۡعِ* قسم ہے آسمان کی جس سے بارش برستی ہے . *وَ الۡاَرۡضِ ذَاتِ الصَّدۡعِ* اور زمین کی جو بارش سے پھٹ جاتی ہے. *اِنَّہٗ لَقَوۡلٌ فَصۡلٌ ﴿ۙ۱۳﴾* *وَّ مَا ہُوَ بِالۡہَزۡلِ ﴿ؕ۱۴﴾* *اِنَّہٗ لَقَوۡلٌ فَصۡلٌ* بیشک یہ قرآن قولِ فیصل ہے . *وَّ مَا ہُوَ بِالۡہَزۡلِ ﴿ؕ۱۴* اور یہ ہنسی مذاق نہیں ہے. اس میں *وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجۡعِ ﴿ۙ۱۱﴾* میں آسمان کیلیے *ذَاتِ الرَّجۡعِ*کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں. تو *رجوع* کے لغوی معنی تو پلٹنے کے ہیں.مگر مجازً عربی زبان میں یہ لفظ بارش کیلیے استعمال کیا جاتا ہے. کیونکہ وہ بس ایک ہی دفعہ برس کر تو ختم نہیں ہو جاتی.بلکہ بار بار اپنے موسم میں اور کبھی خلافِ موسم بھی پلٹ پلٹ کر آتی ہے اور وقتاً فوقتاً برستی رہتی ہے. ایک اور وجہ بارش کو *رجع* کہنے کی یہ بھی ہے کہ زمین کے سمندر سے پانی بھاپ بن کر اٹھتا ہے اور پھر پلٹ کر زمین پر ہی واپس آتا ہے. تو یہ کہ یعنی جس طرح آسمان سے بارشوں کا برسنا اور *وَ الۡاَرۡضِ ذَاتِ الصَّدۡعِ ﴿ۙ۱۲﴾* یعنی کہ زمین کا شک ہو کر نباتات اپنے اندر سے اگانا .یہ سب جو ہے یہ کوئی مذاق نہیں ہے. بلکہ ایک سنجیدہ حقیقت ہے. یہ جو آگے کہا گیا ہے کہ *اِنَّہٗ لَقَوۡلٌ فَصۡلٌ ﴿ۙ۱۳﴾* بیشک یہ فیصلہ کن فرمان ہے. *وَّ مَا ہُوَ بِالۡہَزۡلِ ﴿ؕ۱۴﴾* *یہ ہنسی کی بات نہیں ہے* تو اسی لیے کہا جا رہا ہے کہ اسی طرح قرآن جس چیز کی خبر دے رہا ہے کہ انسان کو پھر اپنے خدا کی طرف پلٹنا ہے.یہ بھی کوئی ہنسی مذاق کی بات نہیں ہے. بلکہ ایک دوٹوک بات ہے . ایک سنجیدہ حقیقت ہے اور ایک اٹل قولِ حق ہے جسے پورا ہو کر رہنا ہے. ضیاء القرآن میں بھی *اِنَّہٗ لَقَوۡلٌ فَصۡلٌ ﴿ۙ۱۳﴾* اس حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ ان حقیقتوں کی قسم جن کا تم بار بار مشاہدہ کر رہے ہو جو اوپر ساری بتائی گئی ہیں. تم انجان اور بھولے بننے کی ہزار کوشش کرو پھر بھی ان کا انکار نہیں کر سکتے. اسی طرح قرآن بھی ایک روشن حقائق کا مجموعہ ہے. جس کا انکار کسی ہوش مند انسان کے بس کی بات نہیں ہے. یہ قولِ فیصل ہے.اور اس کا ہر فیصلہ قطعی اور اٹل ہے. جس چیز کو اس نے حق کہہ دیا.وہی حق ہے. جس کو اس نے باطل کہہ دیا وہی باطل ہے. زمانے کے تغیرات حالات کے تقاضے قرآنی حقائق کو الٹ پلٹ نہیں کر سکتے.یہ ایسی باتیں نہیں ہیں جو ازراہِ مذاق محض دل لگی کیلیے کہہ دی گئی ہوں اور جن کا ظاہر ان کے باطن کے برعکس ہو. *اِنَّہُمۡ یَکِیۡدُوۡنَ کَیۡدًا ﴿ۙ۱۵﴾* یہ لوگ طرح طرح کی تدبیریں کر رہے ہیں. . *وَّ اَکِیۡدُ کَیۡدًا ﴿ۚ ۖ۱۶* اور میں بھی تدبیر فرما رہا ہوں. *فَمَہِّلِ الۡکٰفِرِیۡنَ اَمۡہِلۡہُمۡ رُوَیۡدًا ﴿٪۱۷﴾* پس آپ کفار کو مہلت اور دے دیں کچھ وقت انہیں کچھ نہ کہیں. یعنی *فَمَہِّلِ الۡکٰفِرِیۡنَ* پس آپ کفار کو تھوڑی مہلت اور دے دیں. *اَمۡہِلۡہُمۡ رُوَیۡدًا* کچھ وقت انہیں کچھ نہ کہیں. تو اس حوالے سے بھی ضیاءالقرآن میں اس طرح سے تفسیر کی گئی ہے کہ کفار اسلام کو زک پہنچانے کیلیے اور حضور علیہ صلوة والسلام کو ناکام بنانے کیلیے ہر وقت سازشیں کرتے رہتے تھے. چھپ چھپ کر منصوبے تیار کرتے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے. جو چاہیں منصوبے وہ بنائیں مکرو فریب کے جو چاہیں دام بچھائیں میں ان کا توڑ کرتا جاوں گا اور ان کی ہر تدبیر الٹی ہو گی. ان کی ہر کوشش ان کی ناکامی کا باعث بنے گی. اللہ تعالیٰ ان کی جدوجہد کو جو وہ کہ کفر کے غلبے کو برقرار رکھنے کیلیے کر رہے ہیں. ان.کی ناکامی اور شکست کا باعث بنا دے گا. وہ جو بڑے شان و شوکت سے بدر کے میدان میں آئے تھے اور انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ آج اسلام کا چراغ بجھا کر جائیں گے. بڑے بڑے بہادر سورماوں کا لشکر وہ ہمراہ لائے تھے. لیکن ان کی یہی چال ان کی بربادی کا باعث بن گئی. ان کے بڑے بڑے رئیس مارے گئے .مکہ کے گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی. یہی حال ان کی دیگر سازشوں کا ہوا .تو یہاں پر کس طرح اپنے محبوب کی دلنوازی کی جا رہی ہے. . کہ آپ ابھی ان نابکاروں کو کچھ مہلت اور دیں .مختصر عرصے کیلیے انہیں اپنے سارے ارمان پورے کرنے دیں ان کی تکلیفیں دینے پر بںھی آپ صبر کریں . میں خود ان سے نپٹ لوں گا. میں خود ان کو ان کے کرتوتوں کا مزہ چکھا دوں گا.