دعامیں پیش آنے والی رکاوٹوں کے حوالے سے پوائنٹس
دعا میں اللہ کے سامنے بہترین طرح سے پیش ہونے اور اپنی حاجت بیان کرنے میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں ۔اکثر ہم ان رکاوٹوں سے لاعلم ہوتے ہیں اسی لیئے ان کا سدباب نہیں کر پاتے۔ہمیں احساس نہیں ہوتا کہ دعا جو فرش سے عرش تک پہنچ سکتی ہے ، اس کی راہ میں ہم خود ہی رکاوٹیں کھڑی کر دیتے ہیں اورپھر دعا کے قبول نہ ہونے پر رنجیدہ یا اللہ سے شکوہ کنا ں ہوتے ہیں ۔ ذیل میں ایسے پوائنٹ دیئے جا رہے ہیں جن کو پڑھ کر ہم جان سکتے ہیں کہ جب ہم اللہ کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو ہماری دعا میں کمی کن وجوہات کی بناءپر رہ جاتی ہے۔ اور کون سے پوائنٹ ہماری دعا کی قبولیت کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ::1سوچے ہوئے مخصوص وقت تک حاجت پوری نہ ہونا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی بھی دعا کی قبولیت کے حوالے سے ہم خود ہی ٹائم فریم سیٹ کر لیتے ہیں اور جب وہ ہمارے سوچے ہوئے مخصوص وقت تک پوری نہیں ہوتی تو ہم مایوس ہونے لگتے ہیں۔جب ہماری کوئی حاجت موجودہ وقت میں یا ہمارے سوچے ہوئے مخصوص وقت تک پوری نہیں ہوتی تو وہاں ہمیں اپنے احساسات کو صحیح ڈائیریکشن دینی ہوتی ہے کہ وہ اللہ جو زمین و آسمان کے ہر ہر معاملے کی خبر رکھتا ہے اس کے پاس ہماری دعا اور حاجت بھی پہنچ گئی ہے۔ اس نے وہ دعا اپنے پاس محفوظ کر لی ہے۔یہ اس کی اپنی حکمت اور ہمارے لیئے بھلائی ہوتی ہے کہ کبھی ہمارے پسندیدہ وقت کو آگے پیچھے کر کے تو کبھی حکمتیں دکھا کرہماری دعا کو بہترین اور اپنے مقررہ وقت پر قبولیت عطا کرتا ہے۔ 2:اللہ پر یقین کی کمی: اگر ہمارا یقین کمزور ہو کہ اللہ جو ، جب اور جیسے کرتا ہے وہی بہترین ہوتا ہے تویہ کمزور یقین بھی دعاکی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ ہم نے جتنے یقین سے دعا کی ہوتی ہے اتنا ہی خوش ہو کے اللہ ہمارے یقین پر ہمیں بہتر سے بہترین عطا کرتا ہے۔ہمیں یہاں یقین کو ہی تھام کر اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کر دینا ہوتا ہے کہ اب وہ جو کرے گا بہترین ہی کرے گا۔ہم نے جتنے یقین سے حاجت پیش کی ہو گی اتنا ہی دعا کے بعد سے ہم اپنا معاملہ اللہ پر چھو ڑ کر اب بے فکر اور پر امید رہیں گے۔ :3دل میں اللہ سے مدد مانگنے کے احساس کی کمی ہونا اکثر ہمیں دعا میں اللہ کے سامنے پیش ہونے میں اس رکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے کہ ہم اللہ کے سامنے جھک کر اس سے مدد نہیں مانگ پاتے۔ ہمارے اندر اس احساس کی کمی ہوتی ہے کہ ہمیں اللہ کی مدد کی ضرورت ہے... اپنے زور بازو پر کچھ ممکن نہیں...جب تک کہ اپنے مالک کا سہارا نہ طلب کریں۔ اپنے زور بازو ،ظاہری سہاروں اور وسائل پر بھروسہ ایسی رکاوٹ ہوتی ہے کہ ہمیں اللہ سے مدد مانگنے کے لیئے دعا میں پیش ہونے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہونے دیتی۔ دعا میں اپنا آپ پیش کر کے دنیا کے تمام وسائل پر بھروسہ کیے بغیربس اللہ کا سہارا چاہنا اور مانگنا ہوتا ہے، اسی کی مدد درکار ہوتی ہے لیکن ہم اکثر اس احساس سے غافل ہوتے ہیں۔ اگر یہ احساس ہو جائے تو ضرور ہر چھوٹی بڑی مشکل میں اللہ سے مدد مانگنے کے لیے دل سے دعا میں پیش ہوں گے۔ :4چڑ ، غصہ یا نفرت ہمارے اندر جب بھی کسی کے لیئے چڑ ، غصہ یا نفرت ہو یا پھر کسی بھی معاملے کی وجہ سے دل میں کسی بھی طرح کے منفی احساسات موجود ہوں تو بھی دعا میں اللہ کے ساتھ ٹانکا لگانے میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ہم جب بھی کسی نیگٹیویٹی کا شکار ہوئے ہوں اور رہبر و رہنما سے ٹپس لے کر دل کی حالت بہتربنانے کی کوشش بھی نہ کی ہو تو وہ نیگٹیویٹی دل و روح پر حاوی ہوتی جاتی ہے اورہمیں الجھا دیتی ہے ۔ ان منفی احساسات کے ساتھ دل کی حالت ایسی نہیں ہوتی کہ دل کا رابطہ اللہ سے بن سکے ۔ یہ نیگیٹیوٹیز اللہ سے دوری کا باعث ہوتی ہیں، اس لیئے دل سے اللہ کے سامنے دعا میں پیش نہیں ہو پاتے او ر اس ملاقات کے احساس سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔دعا میں بہترین طرح سے اللہ کے سامنے پیش ہونے کے لیئے ہمیں دل سے ان منفی احساسات کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہو گی اور دل کو صاف کرنا ہو گا تاکہ دل کا ٹانکا اللہ سے جڑسکے ۔ :5انا ،اکڑ یا سختی جب بھی ہم کسی معاملے میں یا کسی کے لئے بھی دل میں سختی رکھے ہوئے ہوتے ہیں یا انا سر اٹھائے ہوتی ہے تو ہم دعا میں اپنے اللہ کے سامنے جھک نہیں پاتے کیونکہ جھکنے کا احساس تب دل میںبیدار ہوتا ہے جب انا کا بت توڑ ڈالیں۔ جب سختی اور انا غالب ہو تو عاجزی اور جھکاﺅ کے احساسات دل میںبیدار نہیں پاتے ۔اسی لئے دعا میں پیش ہونے کے لئے اپنی انا کے بت کو توڑنا ہوتا ہے اور ایک ہی اعلی و اعلیٰ ذات کے آگے جھک کے دعا کرنی ہوتی ہے۔ :6 اللہ کی صفات کی نا آشنائی اور ان پر یقین کی کمی دعا میں اپنا معاملہ اللہ کے سامنے دل سے بیان کرتے ہوئے ایک طرح اپنے مالک سے دل کی گفتگو ہوتی ہے ۔یہ ایک ملاقات بھی ہے جس میں اس ذاتِ پاک کے سامنے یقین سے پیش ہونا ہوتا ہے کہ جو خوب قدرت رکھنے والا ہے اور مرادیں بر لانے والا ہے ۔اکثر ہم اپنی سوچ اپنی سمجھ کو اتنا محدود کر لیتے ہیں کہ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اب تو کچھ ممکن نہیں،اب تو حالات نہیں بدل سکتے،اب بہتری کاکوئی راستہ نہیں ہے جو ہونا تھا سو تو ہوگیا۔یہ اللہ کی صفات پریقین کی کمی ہوتی ہے ۔ہم اللہ کی صفات سے آشنا ہی نہیں ہوتے اسی لیئے ان صفات پر اس طرح یقین ہی نہیں مضبوط ہوتا کہ وہ کسی بھی لمحے کچھ بھی کر سکتا ہے ... بگڑی بھی بنا دیتا ہے ،نقصان کو نفع میں بدل سکتا ہے...دلوں کو پھیر سکتا ہے ...یہ یقین اگرمضبوط ہو تو بیشک اللہ کے در کی جانب ضرور بڑھیں گے کہ جہاں سے خالی نہیں لوٹایا جاتا۔ :7دل میں شکوہ نا شکری یا مایوسی کا آنا ہم اپنے کسی بھی معاملے میںظاہری نقصان ، اپنی مرضی کے پورا نہ ہونے یا کسی دعا کے اپنی چاہت کے مطابق قبول نہ ہونے پر مایوس ہو جاتے ہیںاور ہر وقت احساس ، سوچ اور عمل سے شکوہ اور مایوسی کااظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ دل کی ایسی ڈاﺅن حالت دعا میں پیش ہونے میں رکاوٹ بن کے کھڑی ہوجاتی ہے۔ہم مایوس ہو کر اللہ کی رحمت سے خود کو خود ہی دور کر رہے ہوتے ہیں ۔اللہ کے ہر کام میں بہتری پر یقین رکھ کراللہ کی رضا میں راضی رہنے کا احساس دل میں بیدار نہیں ہوتا۔اللہ پر یقین رکھ کر اللہ کی حکمت کو تلاش کرنا اور ہر معاملے میں سے مثبت پہلو ڈھونڈنا ہمیں شکوہ سے بچائے گا ۔دل شکو ہ کی بجائے شکر کی حالت میں رہے گا تو دعا بہترین ہوگی۔ :8دل کا دنیا میں کھو کر حقیقی مقصد سے غافل ہو جانا ہم دنیا میں رہتے ہوئے اکثر اس میں اتناپھنس جاتے ہیں کہ ہمیں پھر ارد گرد دنیا ہی نظر آنے لگ جاتی ہے ۔دنیا وی روٹین ، دنیا وی آسائشیں ،دنیا وی خوشیاں اور ان کے حصول کے لئے دن رات محنت کرتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا کی راہ پر چلیں توشیطان ہمیں اس طرح ورغلاتا ہے کہ ہم اللہ کے راستے سے دورہو کر دنیا کے ہی پیچھے بھاگتے ہیں۔اس بھاگ دوڑ میں ہم دنیا کی کامیابی تو حاصل کر لیتے ہیں مگر اپنی دائمی فلاح سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دنیا سے رخصت ہوتے وقت نہ تو مال و متاع ساتھ جاتا ہے اور نہ ہی دنیاوی اثاثے کام آتے ہیں۔ کام تو اعمال ہی آتے ہیں جن کا کھاتہ اکثر دنیامیں مگن ہو کر خالی ہی رہ جاتا ہے۔ افسوس شیطان ہمیں اس بارے میں سوچنے بھی نہیں دیتا اور نہ توہم اس دنیا میں کھو کر شوق اور لگن سے کبھی اللہ کے سامنے دعا میں پیش ہو پاتے ہیں اور نہ ہی وہ لطف و سرور محسوس کر پاتے ہیں جو ایک بندے کو اللہ کے سامنے جھک کر اس سے مانگنے میں آتا ہے۔ :9دعا میں دل کی طلب و تڑپ کی کمی یہ سچ ہے کہ اللہ مانگے، بن مانگے عطا کرتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے اندر جتنی طلب اور تڑپ ہوگی ا تنا ہی ہم اپنی عرضی دل کے بھرپور احسا س کے ساتھ اللہ کے سامنے پیش کر سکیں گے۔اللہ کو مانگنا پسند ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے ایک سائل ہمارے دروازے پر آئے تو ہم چاہے اسے خالی ہاتھ بھیجنا بھی چاہ رہے ہوں مگر جس انداز، شدت اور تڑپ سے وہ صدا لگاتا ہے ،وہ انداز ہی بعض اوقات ہمارے نہ چاہنے کے باوجود اسے اپنی توفیق سے بڑھ کر دے دلا کر رخصت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ایسے ہی اللہ تو بن مانگے بھی دیتا ہے پر ہم جس سلیقہ سے اس سے مانگتے ہیں اگر وہ اس کو پسند آجائے تو وہ حد سے سوا نوازتا ہے۔ اگرہمارے اندر طلب اور تڑپ کم ہوگی تو اللہ کو اس شدت سے پکار بھی نہیں سکیں گے اوردعا میں بھی رکاوٹ محسوس ہو گی ۔اسی لئے اندر کی طلب کو بڑھا کر تڑپ سے دعامیں پیش ہونا ہے کہ عرضی دل سے نکل کر مالک تک پہنچے۔ :10دل میں تنگی ہونے کی وجہ سے دعا میں رکاوٹ ہونا اللہ کی ذات باقی ہے اور اس کی شان و صفات بھی لا محدود ہیں۔ ایسی اعلیٰ ذات سے ٹانکا لگانے کے لئے ہمیں بھی دل کو وسعت دینی ہوتی ہے۔جب ہم کسی بھی معاملے میں اپنی سوچ محدود کر لیتے ہیں ، اپنی سمجھ /اپنے نظریے کو ہی کافی مان لیتے ہیں، کسی کے لئے دل کو تنگ کئے ہوتے ہیں یاذات کے خول میں خود کو بند کرلیتے ہیں تو اس صورت میں بھی دعا کے لئے اپنے مالک کے ساتھ ٹانکا نہیں بن پاتا ایسے میں زاویہ نظر کو سیٹ کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ رہبر و رہنما سے رہنمائی لے کر دل میں وسعت لانی ہوتی ہے تاکہ دعا میں بہتری لائی جا سکے۔ ۔ :11دعا کی اہمیت کا احساس نہ ہونا ہم جس چیز کی اہمیت جانتے ہیں اسی کو شوق، شدت سے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر ہمارے اندر دعا کی اہمیت،اس کی ضرورت اور اس کی پاور کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ وہ راہ ہے کہ جو فرش سے عرش تک جاتی ہے اور ایسی ملاقات ہے کہ جس کی گواہی دل دیتاہے۔دعا سے دل کے احساس بدلتے ہیں اور دعا بگڑی بناتی ہے۔ ہمیں دل سے کی ہوئی دعا، اس کی طاقت اوراس کے اثر پر جتنا یقین ہوگا اتنا ہم اللہ سے رجوع کرنے کے لیئے دعا کا سہارا لیں گے۔ جتنا ہمیں گناہوں کی معافی، شکرمیں جھکنے، اللہ کور اضی کرنے کی طلب ہو گی اتنا ہی ہم دعا کے وسیلے سے فائدہ اٹھائیں گے۔