معافی و توبہ کی دعا کے حوالے سے چند ٹپس :1 سب سے پہلے اپنی غلطی کا اعتراف کرنا معافی اورتوبہ کی دعا کرتے ہوئے یہ اہم ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنی غلطی کا اعتراف کریں۔یہ مانیں کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے ۔اپنی غلطی پہچان کر اسے ماننا ضروری ہے کیونکہ اگر غلطی کو پہچان کر نہیں مانیں گے تو اندر اس غلطی کو کرنے پر ندامت بھی نہیں آ سکے گی اور توبہ دل سے نہیں ہو سکے گی۔ اس لئے یہ اہم ہے کہ ہم سے جب غلطی ہو تو سب سے پہلے غلطی کو پہچان کے مان لیں۔یہ تسلیم کریں کہ ہم انسا ن ہیں اور ہم سے غلطی سر زد ہوئی ہے ،تبھی توبہ اور معافی کی دعا دل سے نکل سکے گی۔ :2احساس ندامت و شرمندگی معافی اورتوبہ کی دعا دل سے اللہ کے سامنے جھک کے کرنی ہوتی ہے۔ توبہ کی دعا میں دل میں ندامت کا احساس ہونا بہت اہم ہے۔ جتنا ندامت و شرمندگی کا احساس ہوگا ا تنا ہی جھک کر دعا میں پیش ہوسکیں گے۔ ایسے میں یہ احساس ہوتا ہے کہ میں اپنی تمام تر خامیوں، گناہوں، خطاﺅں کے ساتھ اللہ کے سامنے ہوں اوریہ اس کا کرم ہے کہ گو میری خطائیں اور گناہ بیشمار ہیں پر اس نے مجھے اپنے سامنے پیش ہونے کی توفیق عطا کی ۔ میرے پلے کج نہیں ، نہ ا عمال نا صفات نہ کمال،پر اس نے اپنی رحمت کے سائے میں لے لیا اور پھر اپنے در بلا لیا ،مجھے راستہ دکھا دیا ۔اللہ کے خاص کرم سے جب اس کے در پر حاضر ہونے کی توفیق ملی تو اس نے اپنی غفور الرحیمی اور تواب الرحیمی کی صفت کے صدقے میرے گنا ہوں کی پردہ پوشی بھی فرمائی اور معافی بھی عطاہوئی۔ دل میں ندامت یعنی شرمندگی کا احساس یوں ہوکہ غلطی کی، پسندیدہ فعل نہ کیا ، اللہ کی ناراضگی مول لے لی،عمل کو بگاڑلیا۔ جتنا ہمیں اپنی غلطی کی سنگینی کا احساس ہوگا،ندامت اندر اتنی ہی بڑھے گی ۔ہم اکثر ایسے کرتے ہیں کہ غلطی کو بھی ہلکا لے لیتے ہیں کہ یہ اتنی بڑی تو نہیں۔جبکہ ہمیں تو غلطی کی سنگینی کو اور بڑھ کے محسوس کرنا چاہیئے تاکہ ندامت کا احساس دل میں اترے ۔اور دل اس طرح شرمندہ ہو کہ ندامت کے آنسو جاری ہونے لگیں۔جیسے ایک پیالہ کو زیادہ بھریںتو وہ چھلک جاتا ہے ایسے ہی دل کو ندامت سے اتنا بھرنا ہوتا ہے کہ دل بھر بھر آئے اور کبھی آنسو چھلک جائیں۔ ندامت کے آنسو گناہوں کومٹا دیتے ہیں دھو دیتے ہیںاوراللہ اپنی رحمت سے بخش دیتاہے۔ یہ احساس دل میں ہوں تو ہر بار دعا میں پیش ہونے میں بہتری آتی جاتی ہے۔ :3توبہ کی دعا میں اللہ کی رحمت پہ یقین توبہ کی دعا میں یہ یقین اور احساس بھی دل میں رکھنا ہوتا ہے کہ وہ بخشنے والی ذات ہے ۔اس کی رحمت کی کوئی حد نہیں ہے۔ جتنا اپنے گناہوں پر ندامت کا احساس گہرا ہو گا اتنا ہی دل جھکے گا۔ اور جتنا دل جھکتا ہے اتنا ہی اللہ کی رحمت کا پلڑا بھاری ہوتا ہے اور اس کی رحمت جوش میں آجائے تو چاہے گناہ زمین و آسمان اور پہاڑوں سمندروں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں وہ ان کو اپنی رحمت کے صدقے بخش دیتا ہے۔ 4:معافی و توبہ کی دعا میں غفور الرحیمی اور تواب الرحیمی کا واسطہ: جب معافی و توبہ کی دعا کریں تو دعا میں سب سے پہلے اپنی خطاﺅں اور گناہوںکو یاد کرکے ان پر شرمندگی کا احساس بیدار کرنا ہے تا کہ سچائی سے احساس ندامت لیئے جھکے دل کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں۔ اور اسے اس کی غفور الرحیمی اور تواب الرحیمی کا واسظہ دے کر اپنے گناہوں کی معافی مانگ سکیں اور سچے دل سے توبہ کے لیئے اللہ کی طرف رجوع کر سکیں۔ معافی و توبہ کی دعاکے بعد مندرجہ ذیل سوالات راہی سے پوچھے جاسکتے ہیں۔اور ان کی مدد سے استاد مزید گائیڈ بھی کر سکتے ہیں۔ سوالات: سوال نمبر 1:معافی و توبہ کی دعا میں پیش ہو کر اپنی خطاﺅں کا اقرار کرتے ہوئے کس حد تک ندامت کا احساس دل میں محسوس کیا؟ سوال نمبر 2:معافی و توبہ کی دعا میں کس احساس نے ضمیر کو زیادہ جھنجھوڑا؟ سوال نمبر3:معافی و توبہ کی دعا کے دوران دل کی کیا کیفیت رہی؟ سوال نمبر4:معافی و توبہ کی دعا میں اللہ کی رحمت پر یقین کا لیول کیا رہا؟کیا یہ یقین تھا کہ اللہ اپنی رحمت کے صدقے تمام گناہوں سمیت قبول کر کے معاف کر دے گا؟ سوال نمبر5:معافی و توبہ کی دعا کرنے سے پہلے اور بعد میں دل کی حالت میں کیا تبدیلی محسوس کی؟کیا اپنے اور اللہ کے درمیان کھڑی دیوار گرنے کا احساس بیدار ہوا؟ ﴾﴿