اذان کی ابتدا جب ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں مسجد تعمیر کی گئی تو ضرورت محسوس ہوئی کہ نماز کا وقت ہونے کے اعلان کا کوئی خاص طریقہ اپنایا جائے۔پیارے آقائے دو جہاں ﷺ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو کسی نے کہا کہ آگ روشن کرکے، کسی نے یہودیوں کی طرح نارسانگہ بجانے کا۔ غرض کسی نے کوئی تو کسی نے کوئی مشورہ دیا پر آپﷺ کو کسی پر اطمینان نہ ہوا اور متفکر رہے جس سے صحابہ کرام بھی پریشان رہے۔ رات کو ایک صحابی حضرت عبداللہ بِن زید انصاری ؓنے خواب دیکھا جس میں اُنہیں اذان اور اقامت کی تلقین ہوئی۔ صبح ہی خواب آپﷺ کو سُنایا تو آپﷺ نے فرمایا کہ انشاءاللہ یہ رویہ (خواب) حق ہے۔ اور فرمایا کہ بلالؓ کو یہ کلمات یاد کروا دو، اُنؓ کی آواز بلند ہے۔ اور وہ ہر نماز کے لیے اسی طرح اذان دِیا کریں۔ اُسی دِن سے اذان کا یہ نظام قائم ہوا۔