User Tag List

Results 1 to 1 of 1

Thread: احساسِ آشنائی۔۔۔عبادات

  1. #1
    Administrator
    Join Date
    Feb 2017
    Posts
    1,587
    Thanked: 5
    Mentioned
    0 Post(s)
    Tagged
    0 Thread(s)

    احساسِ آشنائی۔۔۔عبادات

    ا حساسِ آشنائی۔۔۔عبادات 🖍عبادات اللہ ہمارا رب اور ہمارا معبود ہے، سورةالبقرة آیت۱۲ ميں ارشاد ہوتا ہے: اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو، جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان لوگوں کو (بھی) جو تم سے پیشتر تھےتاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ اللہ ہمارا معبودِ برحق ہے اور وہى لائقِ عبادت ہے۔ عبادت ہمیں اللہ کے سامنے جھکنا اور اس کی کبریائی کا اقرار سکھاتی ہے۔ یہ صرف ظاہر کا ہی نہیں بلکہ دل سے جھک کر اقرار کرنا ہوتا ہے کہ تُو ہے اللهُ اکبراور ہم تیرے عاجز اور حقیر بندے ہیں ۔ اللہ نے اس بات پر گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی (اور ساتھ یہ بھی) کہ وہ ہر تدبیر عدل کے ساتھ فرمانے والا ہے، اس کے سوا کوئی لائقِ پرستش نہیں وہی غالب حکمت والا ہے۔آل عمران:۸۱ اللہ کو اپنے بندے کا اپنے سامنے یوں جھک جانا ،اپنی کمزوری اور اللہ کی عظمت و بزرگی کا اعتراف کر لینا پسند آتا ہے اور وہ اسے اپنے قریب کر لیتا ہے۔ اسے ان جنتوں میں داخل ہونے کی بشارت دیتاہے جواس نے آخرت میں اپنے پیارے بندوں کےلئے تیار کر رکھی ہیں ۔ وہ جنتیں جن میں داخل ہونے کےلئے عمل کی مہلت اس دنیا میں سانس کے رکنے تک ملی ہوئی ہے اور جن کی قبولیت اللہ کی رحمت اور ہمارے پیارے آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی صلى الله عليه وآله وسلم کی شفاعت پر منحصر ہے۔ 🖍اپنی عبادتوں کا زعم: اس جہاں میں ہر عمل اور عبادت اللہ کی خوشی کےلئے کرتے ہیں تاکہ ہماری عاقبت بھلی ہو۔ وہ ہم سے راضی ہو جائے لیکن باطل ہمیں یہاں بھی اپنے جال میں پھنسا نے کی کوشش کرتاہے۔ ہم اپنی کی ہوئی عبادتوں کے زعم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اپنے نیکوکار اور صالح ہونے پر تکبر کا شکار ہو جاتے ہیں اور باطل اس جانب توجہ ہی مبذول ہی نہیں ہونے دیتا کہ عبادات اور نیک عمل پر تکبر کرنے سے ہم اپنے ہی ہاتھوں ان اعمال اور عبادات کو ضائع کر ڈالتے ہیں ۔ ہمارا یوں فخر کرنا شیطان کو تو خوش کر سکتا ہے مگر اللہ اس پر خوش نہ ہو گا۔ وہ اللہ تعالٰی اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں، لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں مگر سمجھتے نہیں۔ البقرة:۹ عبادت کی توفیق پر اللہ کاشکر ادا کرنا: یہاں اگر پَل بھرکو اپناجائزہ لیں تواحساس ہوگاکہ واقعی یہ تو اللہ کی دی ہوئی توفیق ہے کہ ہمیں اچھائی کی نیت اور عبادت کا ارادہ کرنا نصیب ہو جائے تو اب بھلا اس میں اپنا کیسا کمال؟ اور کہاں کی بڑائی؟ غور کریں اللہ تو ہمیں اپنے کرم اور فضل سے توفیق عطا کر دیتا ہے اور اپنی راہ پر چلنے کی طاقت دیتا ہے۔ یعنی اس راہ پر جس پر اس کے پیارے اور پسندیدہ بندے چلے اور اس راہ پر چل کر انھیں اللہ کا پیار اس کی رضا نصیب ہوئی ۔ اللہ کی راہ پر چلتے ہوئے اللہ کا خود پر ہوئے کرم کا یہی احساس ہر لمحہ دل میں جاگزیں رہنا شیطان کو پسند نہیں آتا۔ جب جب ہم عبادت کی توفیق پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں پسند فرما لیا اور ہمیں توفیق عطا ہوئی کہ اس کے سامنےسرجھکا سکیں تو شیطان سٹپٹاتا ہے اورایسی تدبیریں کرتا ہے کہ ہم بجائے شکر گزار ہونے کے اس بات پر اکڑ جائیں کہ ہم تو عبادات کے پابند اور پرہیز گار بندے ہیں ۔ 🖍عبادت اور نیکی کی توفیق اللہ کا کرم ہے: اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں سورة الفاتحہ: آیت٤ اللہ کو یہ پسند ہے کہ اس کا بندہ جھک جائے اور اس عبادت اور نیکی کی توفیق کو بھی اللہ کی طرف سے خود پر کرم سمجھے کیونکہ اگر وہ نہ چاہے تو اس کو یہ نیکی اور عبادت کی چاہ اور شوق نصیب نہ ہو ۔ہم اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ہم توایک بال کے برابر بھی قوت اور طاقت نہیں رکھتے۔ ہم سے سرزد ہونے والا ہر اچھا عمل اسی کی دی ہوئی توفیق سے ہے۔ جیسا کہ اللہ خود فرماتا ہے، کہ ہراچھائی کی توفیق اسی کی طرف سے ہے لیکن ہم علم رکھنے کے باوجود اس طر ح سے غافل ہو جاتے ہیں کہ جب شیطان دماغ میں سوچ ڈالے کہ ہاں! تم خود ہی ایسے باعمل انسان ہو اور یہ تمہارا اپنا کمال ہے کہ نیکو کار اور عبادت گزار ہو، تو ہم بھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتے اور خود کو باکمال انسان سمجھنے لگتے ہیں. سچ تو یہ ہے کہ ہم سے رائی برابر بھی اچھائی، نیکی یا عبادت کا ادا ہونا صرف اور صرف اللہ کی ہم پر ہوئی خاص رحمت ہے کہ اس نے ہمیں ان بندوں میں شامل کر لیا جو اس کے راستے پر چلنے والے ہیں، نہ کہ ان میں سے جن پر ان کا غضب ہوا۔ عبادات پر انکساری کی بجائے احساس تفاخرمیں مبتلا ہو جانا: یہ شیطان ہی ہے جو دماغ میں خناس بھرتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پرہیز گاری ہمارا انجام دیا ہوا کوئی معرکہ ہے۔ یہاں باطل نے اپنے پنجے دماغ میں گاڑھ رکھے ہوتے ہیں۔ ہم عبادات پر انکساری کی بجائے احساس تفاخرمیں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اللہ کی ذات کو ہی تکبر زیباہے ۔ اللہ کو یہ بات ذرہ بھر پسند نہیں کہ انسان تکبر میں مبتلا ہو کیونکہ تکبر میں مبتلا ہونا اس کے غیض و غضب کو آواز دینے کے مترادف ہے۔ یہی باطل چاہتا ہے کہ وہ عبادات، نیک اور صالح اعمال جن کی وجہ سے اللہ کے ہاں پسندیدہ بندوں میں شمار ہوتے، اب ان پر تکبر کی بناءپر ہم اللہ کی ناراضگی مول لے لیں اور یوں وہ کامیاب ہوجائے۔ 🖍شیطان ہم سے بدلہ لیتا ہے: شیطان ہمیں اللہ کی خوشی سے محروم کر کے اپنا ازلی مقصد پورا کرتاہے یعنی ہمیں جنت سے دور لے جانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ ہم سے اپنا بدلہ لے سکے۔ وہ جنت سے نکالے جانے کا ذمہ دار حضرتِ آدم کو ہی سمجھتا ہے۔ اسی لیئے وہ ہر لحظہ اسی مقصد کے لئے سر گرمِ عمل ہے کہ اب اولادِ آدم کو جنت سے نکالنے کے لئے ایسے گُر آزمائے کہ اللہ کے بندے کے اللہ کےلئے کیے ہوئے عمل میں ہی کھوٹ اور ایسی ملاوٹ ہو جائے کہ وہ تمام عمل ضائع ہو جائیں اور بندے کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو بلکہ وہ مطمئن رہے کہ اس کے نامہ اعمال میں بے شمار عبادات اور نیکیاں درج ہو رہی ہیں ۔ شیطان چال چلتا ہے: شیطان بے حد مکار اور چال باز ہے۔ وہ کھل کر سامنے نہیں آتا بلکہ ایسے چال چلتا ہے کہ عقل گنگ ہوجائے۔ ہماری عبادات ہوں یا ہماری نیکیاں، ہمارے اچھے ارادے ہوں کہ عمل، شیطان کو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ کہیں وہ عمل کے ارادے متزلزل کرتا نظر آتا ہے تو کہیں عمل کی نیت کھوٹی کر ڈالتا ہے۔ اور اگر ہم اس سے لڑ کر اس کو شکست دے کر عمل کی حد تک آہی پہنچیں تو وہ یہاں بھی آرام سے نہیں بیٹھتا بلکہ اب اطمینان کے پر دے میں، دل میں اٹھی ہوئی تکبر کی اونچی اونچی دیوار وں کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ اسی لیئے تو ہم اسے پہچان نہیں پاتے۔ یہ ہمیں اپنا چہرہ نہیں دکھاتا مگر اگر ہم دیکھنے کی کوشش کریں تو یہ چھپ بھی نہ پائے۔ ایک ذرا سی للکار اسے الٹے پاﺅں بھاگ جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ادھر اللہ کا نام لیا اور ادھر یہ نو دو گیارہ ہوا۔ ادھر ہم الرٹ ہوئے اور ادھر شیطان کی چالیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ يہاں ضرورت تو صرف سمجھنے اور عمل میں اخلاص کی ہے۔ 🖍عبادت گذار تو ابلیس بھی تھا: اور (وہ وقت بھی یاد کریں) جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار اور تکبر کیا اور نتییجةَ کافروں میں سے ہو گیا سورة البقرة ،آیت ۴۳ بات یہ ہے کہ عبادت گذار تو ابلیس بھی تھا۔ روزِ اول اس نے حضرتِ آدم ؑکو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور اسی پر اللہ کے غضب کا شکار ہو کر جنت سے نکال دیا گیا ابلیس فرشتہ نہیں تھا بلکہ جنّات میں سے تھا لیکن بہت زیادہ عبادت گزار ہونے کی وجہ سے اسے فرشتوں کے ساتھ رکھا گیا تھا، اسے طاؤس الملائکہ کہا جاتا تھا. اسے فرشتوں کے اتالیق یعنی استاد ہونے کا شرف حاصل تھا۔ پھر جب سر میں غرور اور اپنے اعلیٰ ہونے کا سودا سمایا تو لمحہ بھر میں ساری عبادت اکارت ہوئی اور چھن گیا اس سے سارا مقام و مرتبہ! ایسا نہیں کہ اللہ اس سے یہ مقام اور مرتبہ واپس لینا چاہتا تھا بلکہ اس نے اللہ کی نہ مان کے خود کو اس مقام سے نیچے گرا لیا جس پر اللہ نے اپنے کرم سے اس کو فائز فرما رکھا تھا۔ بالكل اسى طرح اللہ کے بندے بھی اللہ کے کرم سے عبادات کرنے کی توفیق پالینے کے بعد شیطان کے گمراہ کر دینے پر اپنی عبادات پر نازاں ہونے کے سبب اس انعام و فضلِ مزید سے محروم رہ جاتے ہیں جو اللہ نے انہیں جنت کی صورت میں عطا کرنا تھا۔ اب بھی اگر ہم یہ بات نہ سمجھیں اور شیطان کی سازشوں کا شکار ہو کر اپنی عبادتوں پر ناز کرتے ر ہیں تو یہ ہماری نادانی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ بندگی تو عاجزی سے مشروط ہے: اللہ نے تو ہمیں بتا دیا ہے کہ وہی لائقِ عبادت ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ہم اس کے بندے اس کی بندگی کے سبب ہی کہلاتے ہیں اور بندگی تو عاجزی سے مشروط ہے۔ اگر عاجزی ہی نہ رہے اور بندگی ہمیں جھک جانے ہی کا درس نہ سکھا پائے تو ہمارے جھکنے اور عاجزی میں کہیں کوئی کمی ضرور ہے جو ہمارے اندر انا اور تکبر کی گنجائش پیدا کرتی ہے اور جب انا اور تکبر سر اٹھانے لگیں تو عبادات دکھاوے کی ہی رہ جاتی ہیں اللہ کے ہاں ان کی پسندیدگی شک و شبہ میں پڑجاتی ہے۔ 🖍اپنی عبادتوں کا تذکرہ : اللہ تک دل سے لگائی ہوئی ہر صدا اور خاموشی سے مانگی ہوئی ہر دعا بھی پہنچتی ہے بشرطیکہ ہم سچائی سے اللہ کے سامنے اپنا آپ کھول کے رکھ دیں ۔ بے شک وہ خوب جاننے والا ہے مگر جب ہم پیش ہو کر اس کے قدموں میں سر رکھ دیتے ہیں تو اسے حیا آتی ہے۔ پھر وہ ندامت سے جھکے ہوئے سر کو اپنے در کے سوا کہیں جھکنے نہیں دیتا اور ہماری معافی و توبہ قبول کر لیتا ہے۔ اس لیئے شیطان کا رچایا ہوا یہ کھیل مزید جاری نہ رہنے دیں۔ اپنی عبادات اور فرائض کی ادائیگی پر اطمینان شیطان کا ہی دلایا ہوا ہوتا ہے ۔ وہ نہیں چاہتا کہ بندے اپنے رب کے حضور بار بار پیش ہوں اور سچے دل سے جھک کر اس کی ربوبیت کا اقرار کریں۔ وہ عبادت کو بھی ڈھونگ بنا کر رکھ دیتا ہے۔ فرائض کی ادائیگی بھی محض ایک رسمی کاروائی ہی بن کر رہ جاتی ہے۔ ہم جگہ جگہ اٹھتے بیٹھتے جب اپنی عبادتوں کا تذکرہ کریں تو اس میں شیطان ہی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ وہ ہمیں اکساتا ہے کہ باتوں باتوں میں ایسا ذکر ہو جائے کہ سب جان جائیں کہ ہم کس قدر عبادت گزار اور پرہیز گار ہیں اور پھر لوگوں کی ستائش اور تعریف پر پھولے نہ سمائیں۔ یوں شیطان عبادت کا اصل مقصد پسِ پشت ڈال دیتا ہے اور ہمیں مزید اچھے عمل کرنے ، سیکھنے اور آگے بڑھنے کی جستجو میں نہیں رہنے دیتا۔ سچائی سے لیا ہوا جائزہ اوراحساسِ ندامت: سچائی سے لیا ہوا جائزہ جب حقیقت کھول دے تو تسلی سے خود بیٹھ کر سوچئے کیا وہ عمل ہم جو اپنے کھاتے میں درج کروا رہے ہیں اور شیطان نے ان پر مطمئن کر رکھا ہے... ہماری راہ نجات آسان کرنے کی بجائے مشکل تو نہیں کر رہے؟ اپنے تکبر اور غرور سے جس قدر شرمندہ ہو سکیں ...ہوں۔ اور پھر اسی شرمندگی کے بھر پور احساس کے ساتھ اللہ کے سامنے پیش ہو جائیں اور اعتراف کر لیں کہ... میرے مالک! نہ تو میری عبادتیں کسی کام کی ہیں نہ میرے اعمال کا ہی اپنا کوئی وزن ہے.... تو ان کو پسند کر کے اپنے فضل سے انہیں قبولیت عطا نہ کرے تو یہ اکارت ہیں۔ مجھ پر اپنے حبیب کے صدقے فضل فرما اور مجھے اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت سے نواز دے کیونکہ ... اگر تو فضل نہ کرے تو میرے سارے اعمال دھرے رہ جائینگے ... چاہے وہ سمندر زمین اور آسمانوں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں ... ان کو قبول کر کے میرے ليئے اپنی طرف آنے والی راہیں آسا ن فرما۔ یوں بھی نادم ہوں کہ میں شیطان کے بہکاوے میں آگیا...اور پھنس گیا اس کے دام میں...اور اس کی طرح متکبر ہو گیا تھا مگر اب شرمندہ اور نادم ہوں۔ مجھے اس کی طرح راندۂِ درگاہ نہ فرمانا...میں شرمندہ ہو کر تیرے سامنے آگیا ہوں...مجھے اپنے در سے خالی نہ لوٹانا۔ میں تیری جنتوں کا امیدوار ہوں مجھے ان سے محروم نہ کرنا...اور اپنی رحمت کے سائے میں ان جنتوں میں داخل کرنا کہ...اگر ایسا نہ ہوا تو میں دنیا و آخرت میں خسارا پانے والوں میں سے ہو جاﺅں گا۔ 🖍ورد ، وظائف ،تسبیحات: فرائض کی ادئیگی کے ساتھ ساتھ اگر ہم ورد ، وظائف ،تسبیحات بھی کرتے ہوں تو یہاں بھی باطل ہی ہمیں قربت کی راہ پر آگے بڑھنے سے روکنے کی چال چل رہا ہوتا ہے۔ وہ ہمیں تسلیاں اور تھپکیاں دیتا ہے اور ہم اکڑ جاتے ہیں کہ کیا یہ کم ہے کہ سارا دن تسبیحات ، وظائف ، ورد کرتے ہیں اور ساری رات بھی آنکھ نہیں لگتی بلکہ اللہ کی یاد میں گزر جاتی ہے ۔ اب یہاں اس حقیقت پر باطل ہی نے گہرے اور موٹے پردے ڈال رکھے ہیں کہ جیسے وہ عبادات کو خالص نہیں رہنے دیتا ایسے ان ورد، وظائف، تسبیحات پر بھی اس نے دن دیہاڑے ڈاکہ ڈال کر لوٹ مار لگا رکھی ہوتی ہے اور رات کے اندھیرے میں بھی یہ نہیں چوکتا۔ غور کیجئے ہم تسبیحات پڑھتے ہیں تو پوری لگن اور توجہ سے پڑھتے ہیں ؟ ورد وظائف پڑھتے ہوئے اللہ کا احساس دل میں موجود ہوتا ہے یا نہیں؟ایسا تو نہیں کہ ہم صرف زبانی کلامی ہی وہ تسبیحات اور وظائف دہراتے رہنے کو تو کافی نہیں سمجھتے؟کیا تسبیح کے ہر دانے کے ساتھ دل کی حالت بدلتی ہے؟زبان کے ساتھ دل بھی محوِ ذکر ہوتا ہے؟ اگر ایسا ہو تو بہت اچھا ہے کہ ہمیں ان وظائف اور تسبیحات سے پاور وصول ہو رہی ہے اور اللہ پر یقین پہلے سے بڑھتا جارہا ہوگا جس کی وجہ سے معاملات میں ڈاﺅن ہونے سے بچ پاتے ہوں گے لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو یہاں پھر سے اپنے اندر جھانکنے اور اپنے عمل کی جانچ پڑتا ل کی ضرورت ہے تاکہ اپنے اصلاح کی کوشش کی جاسکے ۔ اگر ہم اپنی اصلاح کی کوشش کرینگے تو ہی باطل کو نیست و نابود کر سکیں گے جو یہاں بھی ہماری راہ میں روڑے اٹکانے سے باز نہیں آتا ۔ ورد وظائف اور تسبیحات کی حقیقت: ذرا سا سوچئے! ہم اکثر ھاتھ میں تسبیح پکڑے ایک ایک دانہ شمار کرتے ہوئے باتوں میں یوں مشغول ہوتے ہیں کہ دھیان تک نہیں رہتا کہ تسبیح پڑھتے ہوئے کسی اسم اللہ کو دہرا رہے تھے یا کوئی وظیفہ کر رہے تھے ۔ باتوں کی رفتار میں دانوں کا شمار بھی ہونے سے رہ جاتا ہے۔ بس انگلیوں پر ہی ایک کے بعد ایک دانہ گنتے چلے جاتے ہیں۔ زبان پر جہاں بھر کے قصے اور دل احساس سے غافل ہوتا ہے ۔ افسوس کہ یہی ہے ہمار ے ورد وظائف کی حقیقت! اب ہم مانیں یا نہ مانیں۔ ہم ایسی ہی تسبیحات، ورد وظائف کے لاکھ نکالنے کے بعد خوش پھرتے ہیں کہ ہم سے تو اللہ خوش ہے ۔ ہم تو ایک ایک دن میں اتنے اتنے ہزار اور اتنے اتنے لاکھ پڑھ لیتے ہیں۔ 🖍وظائف اور تسبیحات سے حقیقی فائدہ : باطل یہ نہیں سمجھنے دیتا کہ ان ورد و وظائف کا اصل مقصد تو یہ نہ تھا کہ ہم باتوں کی روانی متاثر کئے بنا اس زبانی دہرائی کے عمل کو اپنا طرۂِ امتیاز سمجھ بیٹھیں۔ یہ بھی سوچنے اور سمجھنے کی کوشش نہ کریں کہ اصل میں ان اسماءالحسنیٰ، اللہ کے صفاتی ناموں ،درود پاک یا جس بھی اسم کو ہم پڑھ رہے ہوں،ان کے ذریعے اللہ کی محبت اور یقین کے احساس ہمارے دل میں بیدار ہونے چاہئیں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم ان الفاظ کے معانی سے بھی باخبر نہیں ہوتے بلکہ ایک رٹی رٹائی بات کی طرح مسلسل اس اسم یا کلمے کو دہراتے چلے جاتے ہیں۔ اگر ہم ذرا سا غور کریں اور پھر ان الفاظ کو محبت کے احساس میں چاہے ہزار یا لاکھ مرتبہ نہ سہی مگر چند بار ہی دہرائیں تو یوں احساس کے ساتھ معانی سمجھ کر ان کو دہرانا ہمارے دل میں یقین بھی بڑھا دے گا تبھی ہم اس طر ح کے وظائف اور تسبیحات سے حقیقی فائدہ بھی حاصل کر پائیں گے۔ اس طرح ہی دل میں اللہ کا نور بھی اترے گا اور اندر کے زنگ کو دھوڈالے گا۔ دنیا کی کثافتوں سے آلودہ دل کو اللہ کا ذکر ہی پاک کر سکتاہے اور اس طرح سے ہی ہم اس خانۂِ خدا کو اللہ کے ليئے سجا اور سنوار سکتے ہیں جیسے کہ اللہ کو پسند آئے۔ افسوس تو یہی ہے کہ ہم اپنے دنیاوی مقاصد کے حصول کےلئے تو یہ وظائف و تسبیحات کرتے ہیں مگر نہ تو ان سے حقیقی معنوں میں استفادہ کر پاتے ہیں اور نہ ہی سچائی سے پڑھ کے اللہ پر مضبوط یقین کا حصول ممکن ہو پاتا ہے۔
    وظائف سے دہرا فائدہ: اپنی مشکلات اور پریشانیوں کے حل کےلئے وظائف کرنا اور مطلوبہ تعداد میں تسبیحات پڑھنا درست ہے لیکن اگر دل کا رابطہ اس وقت اللہ سے بھی بنانے کی کوشش کی جائے تو اس سے روحانی پاور بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ جیسے کہ اگر یارزاق ہی کا وظیفہ کر رہے ہوں تو اس وقت یہ صرف تسبیح پر ہی نہ پڑھتے چلے جائیں بلکہ پہلے دل میں یہ احساس ہو کہ واقعی اللہ ہی ہمارا رزاق ہے ۔ وہ ہمیں روزی اور رزق دینے والا ہے۔ اور اگر ہمیں رزق کی کمی کا سامنا ہے تو بھی وہ کبھی ہمیں بھوکا نہیں سلائے گا ۔ ہمارے ليئے غیب سے وسیلے بنیں گے اور اس کے کرم سے ہی جہاں سے بھی رزق عطا ہونا ہوا، ضرور عطا ہو گا۔ اب جب ہم اللہ کی اس صفت پر یقین کے ساتھ یہ اسم(یارزاق) دہرائیں گے اور اللہ کا احساس بھی دل میں ہو گاتو ہمارا یقین اللہ کی اس صفت پر خود بخود بڑھتا چلا جائے گا کہ وہ ضرور ہمارے لیئے غیب سے رزق کے وسیلے بنائے گا۔ اور ہم اگر محسوس کریں تو احساس کے ساتھ وظیفہ پڑھتے ہوئے دل میں مایوسی کی لہر موجود نہ ہو گی جو کہ اکثر تب موجود ہو تی ہے جب ہم احساس اور یقین کے بنا کسی وظیفہ کو دہرا رہے ہوں ۔ الفاظ کے معانی سمجھنا ، دل کے احساس بیدار ہونا اور یقین کی مضبوطی کے ساتھ کسی بھی وظیفہ یا تسبیح کو دہرانا ہی شیطان کے منہ پر چانٹا رسید کرے گا کیونکہ اب نہ صرف دنیاوی مقصد کا حصول ہی پیش نظر ہو گا بلکہ ہم یہ معمول کی دہرائی کرتے ہوئے بھی اللہ کے احساس سے غافل نہ ہوں گے ۔

    🖍دل کی پسندیدہ حالت: دل کا ٹانکا اللہ سے جڑا ہو گا تو خود بخود دل کی حالت پسندیدہ ہوتی چلی جائے گی اور دل کی اسی پسندیدہ حالت اور یقین کے ساتھ جب ہم اللہ کو پکاریں گے تو اللہ تک وہ پکار خود بخود پہنچتی ہے اور اب وہ نہ صرف ہماری حاجت روائی فرماتا ہے بلکہ اسے پسند آتا ہے کہ میرا بندہ مجھے یوں محبت اور یقین سے پکار رہا ہے تو کیوں نہ اسے اپنی محبت سے نواز دوں ۔ یوں ہمیں دہرا فائدہ ملتا ہے یعنی تسبیح کے ساتھ ساتھ دل بھی پھرنے لگتا ہےَ،عموماً تسبیح تو پھرتی ہے لیکن دل نہیں پھرتا یعنی دل کی حالت نہیں بدلتی اور یوں یہاں بھی باطل اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ وہ تو یہی چاہتا ہے کہ ہم اس بات سے آشنا ہی نہ ہو سکیں کہ فقط یہ وظائف کا عمل دہرا لینا اور اس کی تعداد پر مطمئن ہو جانا کافی نہیں بلکہ ان وظائف کو بہترین احساس کے ساتھ اور یقین سے کرنا ہی ہمارے ایمان کے لیول کو بھی بڑھاتا ہے اور اللہ سے ہمارا تعلق بھی گہرا کرتا چلا جاتاہے جو کہ باطل نہیں چاہتا ۔ باطل کو یہ بھی معلوم ہے کہ اگر کسی بھی اللہ کے بندے کے دل کی حالت میں ایسی تبدیلی آگئی جو اللہ کو پسند آجائے تو پھر باطل اس دل پر اپنی گرفت کھو دے گا اسی لیئے وہ دل کے احسا س بیدار ہی نہیں ہونے دیتا۔ لہٰذا یہاں بھی الرٹ رہيئے اور ان تسبیحات وظائف کی زبانی دہرائی پر ہی مطمئن نہ ہو کے بیٹھے رہیں بلکہ احساس اجاگر کر کے ان وظائف کی مدد سے دل کو بھی اللہ کی پسندیدہ حالت میں لانے کی کوشش کریں۔ جھکنے میں ہی عافیت ہے: ابلیس کو بھی اپنی عبادتوں پر بڑا فخر تھا اور اسی باعث وہ ایسا ناپسندیدہ ٹھہرا کہ جنت میں ٹھہرنے کےليئے ایک کونہ بھى نصیب نہ ہوا۔ اس کا اکڑ جانا اس کو آسمان کی بلندیوں سے گرا کے زمین کی پستی میں دھنسا گیا۔ اس ایک سجدے سے انکار نے اسے ایسا نشانِ عبرت بنادیا کہ قیامت تک وہ ملعون ہی رہے گا۔ جس کسی نے بھی جھکنا سیکھا اللہ نے اسی کو مقام و مرتبہ اپنی رحمت کے صدقے عطا کیا کیونکہ اسی جھکنے میں ہی عافیت بھی ہے اور یہ جھکنا ہی اللہ کی رحمت کو بھی جوش میں لاتاہے۔ اللہ ہمارا مالک ہے اور مالک کے حکم سے سرتابی مالک کو غضب ناک کر دیتی ہے ۔ اسی لئے ہم عبادات کے ذریعے اپنے مالک کے حکم کو مان کر اس کے سامنے اپنا سر جھکاتے ہیں اور لمحہ لمحہ اقرار کرتے ہیں کہ: اے ہمارے رب !ہم خطا کے پُتلے ہیں۔ ہم کمزور و نادان بھی ہیں اور جاہل بھی ہیں...ہم سے پل پل ایسی خطائیں سرزد ہوتی ہیں کہ...اگر تو انہیں نظر میں رکھ کر جزا اور سزا کا تعین فرمانے لگے تو ہمارے عیب ہمیں کہیں کا نہ چھوڑیں...ہم بھی گھاٹا پانے والوں میں سے ہو کررہ جائیں...مگر تو اپنے کرم سے ہم کو خسار ہ پانے والوں میں سے نہ ہونے دینا....بلکہ ان میں سے کر دینا جو بہترین انعام و اکرام یافتہ ہیں....اور تیرے فضل کے سبب جنت کے باغات میں داخل کیے جائیں گے....ہم سر جھکاتے ہیں...اور تجھ سے تیرا فضل مانگتے ہیں کہ...اگر تو ہم پر اپنے فضل کی بارش نہ کرے گا تو ہم کہاں جائیں گے۔ 🖍ہم انسان ہیں، فرشتہ نہیں: اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہےجملہ جاندار اور فرشتے، اللہ (ہی) کو سجدہ کرتے ہیں اور وہ (ذرا بھی) غرور وتکبر نہیں کرتے سورة النحل آیت۹۴ ہماری عبادات اور فرائض کی ادائیگی اسی طر ح کے عاجزی کے احساسات دل میں بیدار کرتی ہے کیونکہ ہمارا دل گواہی دینے لگتا ہے کہ جب اللہ ہی سب سے عظیم ہے اور ہماری حیثیت ایک تنکے کی سی بھی نہیں ہے تو کہاں کی اکڑ اور کیسا تکبر! مگر افسوس صد افسوس! جانتے بوجھتے ہوئے بھی ہم خود کو خود ہی تباہی کے گڑھے کی سمت لیئے جاتے ہیں ۔ شیطان کو بھی یہ زحمت کرنے نہیں دیتے خود ہی اپنے دشمن بن بیٹھتے ہیں۔ ہم یوں مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہم سے تو نہ کوئی خطا سر زد ہوتی ہے نہ ہی گناہ، اور خطاوگناہ تو کُجا ہم سے معمولی غلطی سر زد ہونے سے بھی رہی! ہمارا یہ خیال ہوتا ہے کہ کیونکہ ہم ہمہ وقت فرائض کی ادائیگی، عبادات، وظائف وغیرہ میں ہی مشغول رہتے ہیں اس لیئے ہم سے کیا گناہ کیا خطااور کیا غلطی سر زد ہوگئى؟ یہ بھی باطل ہی کا وار ہے۔ وہ ہر وقت یہ یقین دلاتا ہے کہ اب اور کس طرح سے اللہ کو خوش کیا جاسکتا ہے جبکہ زندگی کا ہر گزرنے والا لمحہ تو یادِ الٰہی میں بسر ہوا جارہا ہے... اور اس سے بڑھ کر کیا کرنے کی ضرورت ہے...بس یہی کافی ہے...اللہ اللہ ہروقت وردِ لب ہے ۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم خود سے ہی اپنے بارے میں رائے قائم کر لیں اور پھر اس رائے پر ہی خود کو خود تسلی دیتے رہیں ۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم اندر ہی اندر خود کو فرشتہ سمجھنے لگے ہیں جو غلطی سے مبرّا ہوتے ہیں۔سچ یہ ہے کہ ہم اللہ کے کرم سے کیسے ہی متقی و عبادت گذار کیوں نہ ہو جائیں آخر ہیں تو انسان، اور انسا ن سے ہی تو غلطیاں سرزد ہوتی ہیں بشرطیکہ خود پر نظر رکھی ہوئی ہو۔ باطل نظر رکھنے ہی سے تو روکنا چاہتا ہے۔ خود کو باریکی سے چیک کریں تو ضرور بے شمار خامیاں نظر آئیں گی۔اگر ایسا ہو تو ان پر نادم ہو کر اللہ سے معافی مانگیں۔
    🖍عبادتوں پر فخر سے گریز:
    پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ انہیں پورے پورے اجر عطا فرمائے گا اور (پھر) اپنے فضل سے انہیں اور زیادہ دے گا، اور وہ لوگ جنہوں نے (اللہ کی عبادت سے) عار محسوس کی اور تكبر کیا تو وہ انہیں دردناک عذاب دے گا، اور وہ اپنے لئے اللہ کے سوا نہ کوئی دوست پائیں گے اور نہ کوئی مددگار۔
    (سورةالنسا، آیت۳۷۱)
    Last edited by Admin-2; 02-26-2019 at 01:34 PM.

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •