💥سورة الاخلاص میں تصور توحید:
مسئلہ توحید قرآن حکیم کے بنیادی اور اساسی موضوعات میں سے ہے ۔ اس مسئلے کو ثابت کرنے کے لیئے قرآن حکیم کی متعدد آیات بینات میں دلائل و براہینِ قاطعہ موجود ہیں۔ لیکن سورة الاخلاص میں اللہ رب العزت نے اپنی وحدانیت کا جو جامع تصور عطا فرمایا ہے وہ کسی اور مقام پر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورة مبارکہ کو سورة توحید بھی کہتے ہیں۔

اس سورة میں توحید کے سات بنیادی ارکان بیان کئے گئے ہیں۔ اگر ان ارکانِ سبعہن(سات ارکان) کو ملا لیا جائے تو عقیدة توحید مکمل ہو جاتا ہے اور اگر ان میں سے کسی ایک رکن کی بھی عقیدتاً خلاف ورزی ہو جائے تو توحید باقی نہیں رہتی۔

ترجمہ: اے نبی مکرّم! آپ فرما دیجئے۔ وہ اللہ ہے جو یکتا ہے ۔اللہ سب سے بے نیاز ہے۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے۔
(سورة الاخلاص)

💥 ارکانِ سبعہ: توحید کے سات ارکان:
اس سورة میں بیان شدہ توحید کے ارکانِ سبعہ کی تفصیل درج ذیل ہے۔

✨1۔ واسطہ رسالت
✨2۔ ذاتِ حق کا فوق الادراک ہونا
✨3۔ احدیّت
✨4۔ صمدیّت
✨5۔ لا وَالَدیّت
✨6۔ لا ولدیّت
✨7۔ لاکفویّت


💥1۔ واسطہ رسالت

توحید کے ارکان یعنی ارکانِ سبعہ کا پہلا رکن واسطہ رسالت ہے۔
سورة اخلاص کی پہلی آیت کے شروع میں ہی قل فرما کر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے سے حق بات آگے پہنچانے کا حکم صادر کیا۔ قل یعنی آپ ﷺ کہہ دیجیے۔

جب پیارے آقا ئے دو جہاں علیہ الصلوٰة والسلام نے دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا اس کے بعد کفار و مشرکین حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا کرتے اور کہتے کہ ہمیں آپ اپنے اللہ کے اوصاف بتائیں اور ان کی توصیف بتائیں کہ ہمارے معبود یعنی ہماری مورتیاں تو سونے، چاندی، پتھر یا پیتل وغیرہ کی بنی ہوئی ہیں تو آپ بھی اپنے معبود کے اوصاف بتائیں کہ آپ کا معبود کس چیز سے بنا ہوا ہے؟
اس طرح سے اور بھی لوگ آتے اور پوچھتے کہ ہمیں اپنے رب کا حسب نسب بتائیں کہ وہ کون ہے؟
اس کے آباؤ اجداد کون ہیں؟
اس کی اولاد کون ہے؟
تو اللہ تبارک تعالیٰ نے کفار کے ان سوالات کے جواب میں یہ سورة نازل فرمائی۔ اور آقا ئے دو جہاں علیہ الصلوٰة والسلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ: اگر یہ میرا پوچھیں تو یوں کہو گویا بواسطہ رسالت ہم تک اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی پہنچی۔

💥وحدت اور توحید میں فرق :

خدا کا ایک ہونا تصورِ وحدت ہے۔ اگر زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے کے بغیر اپنی عقل، فہم اور سمجھ سے خدا کو ایک جانا جائے تو یہ تصورِ وحدت ہے اور زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن کر اللہ تعالیٰ کو ایک مانا جائے تو یہ عقیدۂ توحید ہے، اس لئے ارشاد فرمایا گیا :
(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیجئے وہ اللہ ہے جو یکتا ہے

اللہ تعالیٰ ان الفاظ سے پیغام دے رہے ہیں کہ میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! یوں تو جاننے والے اپنے فہم سے مجھے ایک جانتے رہیں گے لیکن آپ اپنی زبان سے فرما دیں کہ میں ایک ہوں تو ان کا یہ جاننا ان کو ایمان کی نعمت عطا کر دے گا۔ سننے والے آپ کی زبان سے سن کر اور آپ کی بات کو مان کر مجھے ایک مانیں اور ایک جانیں گے تو ان کی وحدت توحید میں بدل جائیگی۔


💥2۔ ذاتِ حق کا فوق الادراک ہونا:

ارکانِ توحید یعنی ارکانِ سبعہ کا دوسرا رکن ذاتِ حق کا فوق الادراک ہونا یعنی اللہ تبارک تعالیٰ کی ذات کا مکمل ادراک ہونا، اس کے بارے میں مکمل طور پر جاننا۔
یعنی ھواللہ وہ اللہ ہے۔
وہ اللہ کون ہے؟ وہ اللہ، وہ اللہ ہے کہ کفار ومشرکین کے معبودوں جیسا نہیں بلکہ وہ اللہ ہے جو بے مثل ہے اور اس جیسا کوئی بھی نہیں، وہ اپنی ذات میں بھی اعلیٰ و بے مثل ہے اور اپنی صفات میں بھی اعلیٰ و بے مثل ہے، وہ ایسا بادشاہ ہے جو ساری کائنات میں سب سے بڑا ہے۔ وہی اللہ جو اکبر ہے کہ اس سے بڑا کوئی بھی نہیں۔ وہ اللہ ایسی ذات ہے جو خالق ہے اور باقی سب اس کی مخلوق ہیں۔ اللہ قادرِ مطلق ہے اور کسی کو اس پر کوئی طاقت نہیں۔ ساری طاقتیں اسی ذاتِ باری تعالیٰ کی ہیں۔ اللہ کا ارادہ اتنا قوی اور غالب ہے کہ اسے کائنات میں سب مل کر بھی مغلوب نہیں کر سکتے۔ اس کی قوتیں اور تصرفات حدِ شمار سے باہر ہیں۔



💥3۔ اَحَدِیّت (اللہ کا ایک ہونا):

توحید کے ارکان یعنی ارکانِ سبعہ کا تیسرا رکن احدیت ہے۔ احدیت کے معنی اکیلا یا یکتا ہونے کے ہیں۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے احد کہہ کر اپنے یکتا معبود ہونے کی خود ہی تصدیق فرما دی۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پر واحد یعنی ایک ہونے کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ بلکہ احد کہہ کر تمام باطل معبودوں کی نفی کر دی۔
اللہ کون ہے؟ جو اکیلا ہے۔ اللہ مختلف چیزوں کا مرکب یا مجموعہ نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ تمام صفات سے مزین تنہا ہستی ہے جو معبودِ برحق ہے، لائقِ عبادت ہے، اس کے اجزاء نہیں جیسے کفار و مشرکین کے معبود سونے، چاندی، پیتل اور پتھر کے بنے ہوئے ہوتے تھے۔
تو احد کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب ایسے دیا کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی مادہ ترکیبی سے مبّرا ہے یعنی پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احد ہونے کی مزید وضاحت اس حدیث قدسی کے ذریعے سے ہو جائے گی کہ جیسے کہ

💫حدیثِ قدسی ہے جس میں اللہ تبارک تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ:

میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا اور میں نے چاہا کہ میں ظاہر ہو جاٶں اور لوگ مجھے پہچانیں تو میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔

یہاں اس حدیثِ قدسی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے احد ہونے کی مزید وضاحت ہو گئی کہ ازل سے ابد تک کائنات کا اکیلا تنہا وارث، مالک و خالق صرف اللہ ہی ہے اور یہ حدیثِ قدسی اللہ تعالیٰ کی یکتائی کا بہترین ثبوت ہے کہ صرف وہی تھا، وہی ہے اور وہی رہے گا۔

ایک اور روایت میں جیسے آتا ہے کہ جب قیامت برپا ہو گی تو سب پر موت طاری ہو جائے گی۔ فرشتے، انسان، نباتات و جمادات یہاں تک کہ موت کا فرشتہ عزرائیل بھی موت کی نظر ہو جائے گا۔ تب بھی وہ صرف احد اللہ ہی باقی ہو گا۔


💥4۔صَمَدِیّت (اللہ کا بے نیاز ہونا):

توحید کے ارکان یعنی ارکانِ سبعہ کا چوتھا رکن صَمَدِیّت ہے جس کے معنی ہیں اللہ بے نیاز ہے۔
اللہ کو نظامِ قدرت چلانے میں کسی کی ضرورت نہیں۔ وہ اللہ کسی کا محتاج نہیں۔ نہ ہی اسے کسی کی مدد درکار ہے۔
عام طور پر صمد کے معنی بے نیاز کے لیے جاتے ہیں۔ لیکن اصل میں صمد کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کا محتاج نہیں اور سب کے سب اللہ کے محتاج ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر حسب نسب یعنی باپ، بیوی، اولاد سب سے بے نیاز ہے۔
وہ اللہ اکیلا ہی کائنات کا نظام چلا رہا ہے اور کائنات میں موجود ہر شے اس کے حکم کی محتاج ہے۔

✨ قرآن پاک کی آیت کا مفہوم ہے کہ:
پتا بھی ہلنے کے لیئے اللہ کا محتاج ہے۔
اسی طرح ایک چھوٹا سا ذرا بھی بحکمِ ربی ہی اپنی جگہ سے حرکت کر سکتا ہے۔

وہ اللہ ایسا بے نیاز ہے کہ سب اس کے کُن کے محتاج ہیں۔ وہ صمد ایسا بے نیاز کہ اسے ہماری نیکیوں اور گناہوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ چاہے تو انتہائی گناہگار کو بھی بخش دے کہ وہ بے نیاز اس سے کہ ضرور ہی اسے سزا دے کہ وہ صمد اللہ اپنی مرضی کا مالک ہے۔ جو چاہے کرے، کوئی اسے پوچھنے والا نہیں۔


💥5۔ لا والدِیّت (کسی کا والد نہ ہونا):

توحید کے ارکان یعنی ارکانِ سبعہ کا پانچواں رکن لا وَالدِیّت ہے۔
سورة اخلاص میں لم یلد کے الفاظ کے ساتھ ہے۔
لاوالدیت یعنی اللہ تعالیٰ اولاد کے سلسلے سے پاک ہے کہ جیسے کفار و مشرکین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ کے حسب کے بارے میں پوچھتے تھے تو یہاں کفار و مشرکین کے اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تردید فرما دی کہ اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے۔ اور جس طرح سے لوگ حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے اور جیسے عیسائی حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں۔ ان سب کی تردید اللہ تعالیٰ نے لا وَالدِیّت کے ذریعے فرما دی۔
اگر عام طور پر بھی دیکھا جائے تو اولاد کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب سہارے کی ضرورت ہو تو اللہ تعالیٰ ہر سہارے سے پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی بھی سہارے کی ضرورت نہیں اور اولاد کی ضرورت ذمہ داری دینے کچھ بھی حوالے کرنے یا کچھ بھی سونپنے کے لیئے ہوتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ تو خود ہی تنہا اس کائنات کا نظام چلا رہا ہے۔ تو وہ لافانی اللہ تو اپنی تمام تر طاقتوں اور قوتوں کے ساتھ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ تو اسے کسی کو بھی کچھ بھی سونپنے یا حوالے کرنے کی ضرورت نہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی ساجھی اور شریک نہیں۔

یہاں ایک خاص بات بھی کہ عیسائی کرسمس کا تہوار مناتے ہیں تو کسی بھی مسلمان کا ان کو مبارکباد دینا گویا اللہ کا ساجھی و شریک بنانا ہے کیونکہ عیسائی یہ تہوار اس خوشی میں مناتے ہیں کہ ان کا پیغمبر عیسیٰ ابنِ مریم یعنی اللہ کا بیٹا پیدا ہوا ہے۔ گویا عیسائیوں کے ساتھ اس خوشی میں شرکت لاوالدیت کی نفی ہے۔


💥6۔ لا وَ لَدِیّت (کسی کی اولاد نہ ہونا):

توحید کے ارکان یعنی ارکانِ سبعہ کا چھٹا رکن لا وَ لَدِیّت ہے۔ سورة اخلاص میں ولم یولد کے الفاظ کے ساتھ ہے۔ اس کے معنی کہ اللہ والدین کے سلسلے سے بھی پاک ہے۔
جیسے لوگ پیارے آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ کے نسب کے بارے میں پوچھا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے ماں باپ کون ہیں؟
آپ ہمیں اللہ کے آباؤ اجداد کے بارے میں بتائیں گے تو ہم آپ کے اللہ پر ایمان لائیں گے تو سورة اخلاص یعنی سورة توحید میں اللہ تعالیٰ نے بواسطہ رسالت اپنے حسب نسب کی نفی کر کے وحدانیت کے تصور کو واضح فرما دیا۔
⚡ یہاں توحید کے ارکان یعنی ارکان سبعہ کے پانچویں اور چھٹے ارکان لا وَالدِیّت اور لا وَلَدِیَّت کا اقرار بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ان کا انکار کرنے والا جو یہ کہتا ہے کہ اللہ کی کوئی اولاد ہے یا اللہ کسی کی اولاد ہے تو وہ گویا (معاذ اللہ) اللہ کو گالی دیتا ہے اور روئے زمین پر جب بھی کوئی ایسا کرتا ہے تو لوگوں کے ان الفاظ سے آسمان پھٹنے کو آتا ہے زمین تھرانے لگتی ہے اور پھٹنے کو آتی ہے۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہونے لگتے ہیں لیکن یہ اللہ کا تحمل ہے کہ عذابِ الٰہی کا نزول نہیں ہوتا۔
اللہ اپنے بندے کو مہلت دیئے ہوئے ہے کہ اس کے بندے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو پہچان سکیں۔



💥7۔ لا کفوِیّت(کسی کا اس کا ہمسر و ہم رتبہ نہ ہونا):

توحید کے ارکان یعنی ارکانِ سبعہ کا ساتواں اور آخری رکن لا کفوِیّت ہے۔
سورة اخلاص میں وَلَم یَکُن لہُ کُفُوًا اَحَد کے الفاظ کے ساتھ ہے جس کے معنی کوئی اس کا ہمسر و ہم رتبہ نہیں یعنی کوئی اس کے برابر کا نہیں۔
توحید کے ساتویں اور آخری رکن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کی تصدیق اپنے طاقت و اختیار، ذات و صفات گویا ہر طرح سے کر ڈالی کہ اللہ ایسا بے مثل ہے کہ کوئی اس کے برابر کا نہیں، کوئی اس کا ہم پلہ نہیں، کوئی اللہ کے جوڑ کا نہیں، جو کچھ بھی طاقتیں اور اختیار کسی کے پاس بھی ہیں، وہ سب اللہ ہی کے عطا کردہ ہیں۔ اور وہ ایسی قادرِ مطلق ذات ہے کہ جو سب کو دینے پر بھی قادر ہے اور چھین لینے پر بھی۔ کوئی بھی اس کی برابری نہیں کر سکتا۔ سب کچھ اسی کے قبضہ و اختیار میں ہے اور اس کائنات کا وہ تنہا اکیلا مالک و معبود ہے۔ کوئی چاہے تو بھی اس کی برابری کی جسارت نہیں کر سکتا۔ اور اگر روئے زمیں پر کسی نے بھی ذرا برابر بھی اللہ کی ہمسری کی کوشش کی ہے تو صفحہ ہستی سے ایسامٹا ہے کہ رہتی دنیا تک کے لیئے عبرت کا نشان بن گیا ہے جس کی ایک مثال فرعون ہے۔

💫 لا کفویت کی مزید وضاحت کے لیے قرآن پاک کی سورة الانبیاء میں ارشاد ہوتا ہے کہ
اگر آسمان و زمین میں سوائے اللہ تعالٰی کے اور بھی معبود ہوتے تووہ ضرور تباہ ہو جاتے۔
(سورة الانبیاء:آیت 22)

🌷 اس آیت کی بہت خوبصورت وضاحت امام راضی کے اس بیان سے ہوتی ہے کہ امام راضی ؓفرماتے ہیں کہ:
🍂 اس کی ایک صورت یہ ہے کہ اگر دو الٰہ ہوتے تو گویا دو معبود ہوتے۔ یعنی کائنات کو چلانے والے دو ہوتے۔ ہر ہر بات میں دونوں متفق ہو جاتے۔ ہر چیز میں دونوں کا اتفاق ہوتا اور جب ہر چیز میں دونوں کا اتفاق ہوتا تو پھر دوسرے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ دوسرا بیکار ہوتا۔ اور جو بیکار ہوتا ہے وہ معبود نہیں ہو سکتا۔

🍂 اس کی دوسری صورت یہ کہ اگر ان دونوں میں سے ایک غالب آ جاتا اور دوسرا مغلوب ہو جاتا تو جو مغلوب ہے وہ الٰہ یعنی معبود نہیں ہو سکتا۔
تو یہاں عقل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایک ہی ایسا ہو جو حاجت روا بھی ہو، مشکل کشا بھی ہو، ہر پریشانی، مصیبت، تنگی میں اسی کی طرف رجوع کیا جائے، جو ہر شے پہ غالب، اور اختیارِ کل کا مالک ہو۔ تو وہ ایک ہی ذات ہو سکتی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک ہے۔ اور وہی یکتا، واحد معبود ہے۔ کوئی اس کے برابر کا نہیں ہے۔
ان تمام ارکانِ توحید یعنی ارکانِ سبعہ کی زبان و دل سے تصدیق کرنا اور گواہی دینا جنت کی بشارتوں کی نوید سناتا ہے۔ اس کے بارے میں ایک حدیث مبارکہ ہے کہ۔۔۔
💫 پیارے آقا ئے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
سورة اخلاص سے محبت جنت میں شامل کر دیتی ہے۔