🌹ارکانِ اسلام(نماز)

🌹 نماز کی شان:
نماز کو باقی تمام فرائض کی نسبت یہ اہمیت و امتیازی شان حاصل ہے کہ تمام فرائض کے احکام زمین پر فرض کئے گئے جبکہ نماز معراج شریف کی رات عرش پر جا کے فرض ہوئی۔

اللہ نے اپنے پیارے محبوب کو اپنے پاس بلا کے خاص الخاص حضوری میں آمنے سامنے فرض کی۔

جس قدر اہتمام اس فرض کا ہوا باقی فرائض کا اس کے عشر عشیر بھی نہیں ہوا۔



💥فرض اور نفل عبادات میں فرق :
احکام کی دو قسمیں ہیں۔
⚡۱: فرائض
⚡۲: نفل
⚡ فرائض:
فرائض ان احکام کو کہتے ہیں جو قطعی دلیل سے ثابت ہوں یعنی اسکے ثبوت میں کوئی شبہ نہ ہو اسکی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر ہوجاتا ہے اور بلا عذر چھوڑنے والا فاسق اور عذاب کا مستحق ہوتا ہے۔
⚡ نوافل:
نوافل ان احکام کو کہتے ہیں جن کی فضیلت شریعت میں ثابت ہو۔
ان کے کرنے میں ثواب اور چھوڑنے میں عذاب نہ ہو۔
اسے مستحب اور مندوب اور تطوع بھی کہتے ہیں۔
(مستحب، مندوب اور تطوع کا شریعت کے اعتبار سے ایک ہی مطلب ہوتا ہے یعنی ایسا عمل جس کے کرنے سے اجر وثواب ہو اور جس کے چھوڑنے پہ گناہ نہ ہو)۔
💫 فرائض یا نوافل وہ اعمال ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قرب نصیب ہوتا ہے لیکن فرضوں کے مقابلے میں نوافل کی وہ اہمیت نہیں جو فرائض کی ہے۔
فرضوں میں سے کسی ایک فرض کا اپنے وقت میں ادا کرنا کئی ہزار سال کے نوافل ادا کرنے سے بہتر ہے۔ اگرچہ وہ نوافل خلوصِ نیت کے ساتھ ادا کیے گئے ہوں۔
خواہ وہ نماز، زکوٰة، روزہ اور ذکر و فکر وغیرہ میں سے کوئی بھی نفل ہوں۔
✨ منقول ہے کہ ایک روز حضرت عمر فاروقؓ نے فجر کی نمازِ باجماعت سے فارغ ہو کر مقتدیوں کی طرف دیکھا تو اپنے ساتھیوں میں سے ایک کو وہاں نہ پایا۔ آپؓ نے دریافت کیا کہ فلاں ساتھی کہاں ہے؟
جماعت میں حاضر نہیں ہوا؟
ایک نے جواب دیا کہ وہ رات کا اکثر حصہ جاگتا رہتا ہے۔ گمان ہے کہ وہ سو گیا ہوگا۔
آپؓ نے فرمایا:
اگر وہ تمام رات سوتا رہتا اور فجر کی نماز ادا کرتا تو زیادہ بہتر تھا
اکثر لوگ جو فرائض کی اہمیت سے غافل ہیں اپنے فرائض کو خراب کر کے نوافل کی ترویج میں کوشش کرتے ہیں۔
ذکر و فکر کو اہم ترین ضرورت جان کر فرائض اور سنتوں کی ادائیگی میں سستی کرتے ہیں۔
چلوں اور ریاضتوں کو اختیار کر کے جمعہ اور جماعت کو ترک کر دیتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ ایک فرض کا جماعت کے ساتھ ادا کرنا ان کے ہزاروں چلوں سے بہتر ہے۔
اسلئے فرائض کی ادائیگی میں ۔کوتاہی نہ برتی جائے جو کہ قربِ الہٰی کا ذریعہ ہیں۔ تمام فرائض اگرچہ اصل(اللہ) کی طرف قرب بخشتے ہیں لیکن ان میں سے افضل و اکمل صلوٰة یعنی نماز ہے۔
✨ بے شک نماز ایمان والوں پہ اپنے وقت میں فرض کر دی گئی ہے۔
(سورةالنساء:103)
بندگی کا تقاضا تو یہی ہے کہ اس آیت کے اترنے کے بعد ایمان والے نماز ادا کرنے میں دل و جان سے کوشش کرتے لیکن انسانی طبیعت دنیا کی رنگینیوں میں غافل ہو جاتی ہے جبکہ اللہ اپنے بندوں کیلئے مہربان رﺅف اور رحیم ہے۔
اسی لیے اللہ نے قرآن پاک میں جا بجا 700 سے زیادہ بار یاد دہانی کرائی ہے کہ نماز قائم کرو۔
💥نماز کا اہتمام:
نماز کا اہتمام کرنا یعنی اچھی طرح وضو کرنا صاف کپڑے پہننا اور وقتِ ملاقات کی اہمیت کے حساب سے دل کی حالت کی تیاری ضروری ہے۔
نماز کے اہتمام کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک زوجہ کا بیان:
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سے باتیں کرتے اور ہم ان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محو گفتگو ہوتے لیکن جب نماز کا وقت آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایسی حالت ہوجاتی تھی گویا کہ آپ نہ ہم کو پہچان رہے ہیں اور نہ ہم آپ کو پہچان رہے ہیں۔
نماز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کا نور تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کو بہت عزیز رکھتے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر نماز کو وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرتے تھے، بہت زیادہ نمازیں پڑھتے اور نماز کے وقت اپنے آپ کو مکمل طور پر خدا کے سامنے محسوس کرتے تھے۔
منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پورے اشتیاق کے ساتھ نمازکے وقت کا انتظار کرتے اور اسی کی طرف متوجہ رہتے تھے اور جیسے ہی نماز کا وقت آجاتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مؤذن سے فرماتے
اے بلال مجھے اذان کے ذریعہ شاد کردو
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور قلب کا یہ عالم تھا کہ جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔
منقول ہے کہ جب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو خوفِ خدا سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ متغیر ہوجاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی دردناک آواز سنی جاتی تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی کپڑا ہے جو زمین پر پڑا ہوا ہے۔
اللہ شہنشاہِ حقیقی اور انسان دنیا میں اللہ کا خلیفہ ہے اور نماز میں دونوں کی ملاقات ہوتی ہے اس لیے مومن اس کا خاص اہتمام کر ے کیونکہ نماز مومن کی معراج ہے اور اسے بوجھ سمجھنے کی بجائے اسے خود پر احسان سمجھنا چاہیے اور اس کی ادائیگی کا خوب اہتمام کرنا چاہیے۔