💥 مرد اور عورت کی نماز میں فرق:

مرد اور عورت کی جسمانی ساخت میں جو فرق پایا جاتا ہے تو شریعت کی رو سے شرعی اَحکام و مسائل میں بھی اس کا پاس و لحاظ رکھا گیا ہے۔

طہارت کے مسائل ہوں یا حج کے، روزہ کے مسائل ہوں یا زکوٰة کے، عورت کے عورت ہونے کا کسی نہ کسی حکم سے اِظہار ہو جاتا ہے۔ جس طرح نمازِ جمعہ و عیدین مردوں پر فرض ہے عورتوں پر نہیں۔
اِسی طرح نماز جیسی افضل عبادت میں بھی بعض مخصوص مواقع پر عورت کا طریقۂ نماز مرد سے مختلف رکھا گیا تاکہ عورت کے پردہ کا لحاظ رکھا جائے۔ اس کے اعضائے نسوانی کا اعلان و اظہار نہ ہو مثلاً

▪1۔ تکبیر تحریمہ میں
مرد ہاتھ کشادہ کرتے ہوئے (ہاتھوں کو آستینوں سے نکال کر) کانوں کی لو تک لے جاتا ہے۔
جبکہ عورت ہاتھوں کو (آستینوں کے اندر رکھتے ہوئے) کشادہ کیے بغیر کندھوں تک لے جاتی ہے۔

▪2۔ تکبیر کے فوراً بعد قیام میں
مرد ناف کے نیچے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی کلائی کی پشت پر باندھتا ہے
جبکہ عورت سینے پر دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھتی ہے۔

▪3۔ رکوع میں
مرد گھٹنوں کو ہاتھ سے پکڑ کر انگلیاں خوب کھلی رکھتا ہے۔
جبکہ عورت گھٹنوں پر صرف ہاتھ رکھتی ہے اس حالت میں کہ انگلیاں ساتھ ملی ہوں اور گھٹنوں پر زور نہ دے۔

رکوع میں مرد سر اور پیٹھ کو ایک سیدھ میں رکھتا ہے
جبکہ عورت اتنا جھکتی ہے کہ ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں۔

▪4۔ سجدہ میں
مرد کے بازو کروٹوں (پہلوﺅں) سے، پیٹ رانوں سے، اور کلائیاں زمین سے جدا ہوتے ہیں (مگر جب صف میں ہو تو بازو کروٹوں سے جدا نہیں ہوتے)
جبکہ عورت (سمٹ کر سجدہ کرتے ہوئے) بازو کروٹوں سے، پیٹ رانوں سے، رانیں پنڈلیوں سے اور پنڈلیاں زمین سے ملاتی ہے۔

▪5۔ دونوں سجدوں کے درمیان مثلِ تشہد بیٹھتے ہوئے اور ہاتھوں کو رانوں پر رکھتے ہوئے
مرد بایاں قدم بچھاتا ہے اور داہنا کھڑا رکھتا ہے
جبکہ عورت اپنے پاؤں دائیں طرف نکال کر بچھاتے ہوئے الٹی سرین پر بیٹھتی ہے۔