💥زکوٰة کے مسائل:

💫1۔ زکوٰة ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جس کو دیں اس کو مالک بنا دیں۔ اس لئے کہ اگر زکوٰة کی رقم سے کھانا پکا کر غریبوں کو بطور دعوت کھلا دیا تو زکوٰة نہیں ہو گی۔ لیکن اگر کھانا پکا کر غریبوں کو دے دیا اور ان کو اس کھانے کا مالک بنا دیا کہ چاہے کھائیں یا کسی کو دیں یا بیچ دیں تو زکوٰة ادا ہو گی کیونکہ جب زکوٰة دیں تو اگلے کو اس کا مالک بنا دیں۔

💫2 جن لوگوں کو زکوٰة دینا جائز نہیں، انہیں اور بھی کوئی صدقۂ فطر یا کفارہ نہ دیں۔

⚡3 اپنے شہر کی بجائے دوسرے شہر زکوٰة بھیجنا مکروہ ہے۔ لیکن اگر وہاں حاجت مند رشتہ دار موجود ہوں تو بھیج سکتے ہیں۔

💫4 ایسے ہی اگر دوسرے شہر میں اپنے شہر سے زیادہ حاجت مند موجود ہوں یا طالب علموں یا عالموں یا عبادت گزاروں کے لیے بھیجیں تو ان سب صورتوں میں دوسرے شہر کو زکوٰة کا مال بھیجنا جائز ہے۔

💫5 جس کے پاس آج کھانے کو ہے یا وہ تندرست ہے کہ کما سکتا ہے، اسے کھانے کے لیے سوال کرنا حلال نہیں۔ اگر کوئی بن مانگے خود دے تو لینا جائز ہے۔ اور اس کے پاس کھانے کو ہے مگر کپڑے نہیں تو کپڑے کے لیے سوال کر سکتا ہے۔ یونہی اگر علمِ دین کی طلب میں یا جہاد میں مشغول ہے تو بے شک کہ تندرست اور طاقت والا ہو اور کما بھی سکتا ہو تو پھر بھی اسے سوال کی اجازت ہے۔

💫6 مستحب یہ ہے کہ ایک شخص کو اتنا دیں کہ اس کے گھر کے افراد کے حساب سے اس دن اسے سوال کی حاجت نہ پڑے اور یہ اس کی حالت کے حساب سے مختلف ہے، یعنی کہ اس کے گھر کے افراد، بال بچوں کی کثرت اور دوسری باتوں کا لحاظ کر کے دے۔

💫7 دین کا علم حاصل کرنے والے طالبعلموں اور گوشہ نشین غریب علماء کو زکوٰة کا مال دینا افضل ہے کہ اس میں فرض زکوٰة کی ادائیگی بھی ہو جائے گی اور علمِ دین کے کام میں مدد کا ثواب بھی ملے گا۔

💫8 مالدار کے مرنے کے بعد اس کے بیوی بچے اور بالغ بچے کو تب تک جب تک کہ باپ کا مال ان کے حوالے نہ ہو جائے انہیں تب تک زکوٰة دی جا سکتی ہے۔ تندرست اور طاقتور آدمی اگر صاحبِ نصاب نہیں تو اسے زکوٰة دی جاسکتی ہے لیکن اس آدمی کو بھیک مانگنا یا سوال کرنا جائز نہیں۔

💫9 بہو یا داماد اور سوتیلے ماں باپ
یا بیوی کی اولاد جو دوسرے شوہر سے ہو
یا شوہر کی اولاد جو دوسری بیوی سے ہو
بھائی، بہن، بھتیجا، بھتیجی، بھانجا، بھانجی، چاچا، پھوپھی، خالہ، ماموں، ساس، سسر، داماد وغیرہ, اور دوسرے رشتہ داروں کو، جو حاجت مند اور مستحقِ زکوٰة ہوں انہیں زکوٰة دینے میں دوہرا ثواب ملتا ہے۔
ایک ثواب زکوٰة کا، دوسرا ثواب صلہ رحمی کا۔
کسی تحفہ یا ہدیہ کے عنوان سے بھی مذکورہ رشتہ داروں کو زکوٰة دی جا سکتی ہے تاکہ ان کی دل آزاری نہ ہو۔

💫10 زکوٰة اور صدقات میں افضل یہ ہے کہ پہلے اپنے ماں اور باپ کے خونی رشتوں کو۔۔۔
پھر دوسرے رشتہ داروں کو زکوٰة دی جاسکتی ہے۔۔۔
پھر پڑوسیوں کو پھر اپنے ساتھ کام کرنے والوں پھر اپنے گاؤں یا شہر کے رہنے والوں کو۔
فقیر زکوٰة کے مال کا مالک ہو جانے کے بعد خود اپنی طرف سے اگر مسجد یا مدرسے عمارت میں لگائے یا میت کے کفن دفن میں خرچ کر دے تو جائز ہے۔