💥زکوٰة کی اقسام:


زکوٰة کی مندرجہ ذیل چار اقسام ہیں:

1. سونے چاندی کی زکوٰة
2. جانوروں کی زکوٰة
3. تجارتی سامان کی زکوٰة
4. عُشر

💥سونے چاندی کی زکوٰة:

⚡1. اگر کسی کے پاس چاندی کی مقدار اتنی ہے کہ نصاب کے مطابق نہیں اور سونے کی مقدار بھی نصاب کے مطابق نہیں، تو سونے اور چاندی کی مقداروں کو ملایا جائے گا۔
اگر ان دونوں کو ملانے سے ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت بن جاتی ہے تو زکوٰة واجب ہو گی مگر ان کو ملانے سے بھی نصاب کی مقدار نہیں بنتی تو پھر اس مال پر زکوٰة واجب نہیں ہو گی۔

⚡2. تجارتی مال و سامان کی قیمت لگائی جائے پھر اس سے اگر سونے یا چاندی کا نصاب پورا ہو تو اس کے حساب سے زکوٰة نکالی جائے۔

⚡3. اگر کسی کے پاس سونا چاندی نہ ہو اور نہ مالِ تجارت ہو بلکہ صرف نوٹ اور روپے ہوں تو کم سے کم اتنے روپے پیسے اور نوٹ ہوں کہ بازار میں ان سے ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی خریدی جا سکتی ہو تو وہ صاحبِ نصاب ہے۔
اس کو نوٹ اور روپے پیسوں کے کل(ٹوٹل) کا چالیسواں حصہ زکوٰة نکالنا فرض ہے۔

⚡4. اگر شروع سال میں نصاب پورا تھا اور آخر سال میں بھی نصاب پورا رہا مگر درمیان سال میں مال گھٹ کر نصاب سے کم رہ گیا تو یہ کمی کچھ اثر نہ کرے گی۔ بلکہ اس کو پورے مال کی زکوٰة دینا پڑے گی۔

⚡5. روپے پیسوں کی زکوٰة میں روپے پیسے ہی دینا ضروری نہیں بلکہ جتنے روپے زکوٰة کے نکلتے ہیں ان کا غلہ یا کپڑا یا کتابیں یا کوئی بھی سامان خرید کر مستحقِ زکوٰة کو اس کا مالک بنا دینے سے زکوٰة ادا ہو جائے گی۔



💥سائمہ جانوروں کی زکوٰة کا بیان:

⚡سائمہ جانور:
سائمہ جانور وہ ہے جو سال کے اکثر حصہ میں چر کر گزر بسر کرتا ہو اور اس سے مقصد صرف دودھ یا بچے لینا یا موٹا کرنا ہے۔ اگر گھر میں گھاس لا کر کھلاتے ہوں یا مقصد بوجھ لادنے یا ہل چلانے وغیرہ جیسے کسی کام میں لانا یا سواری لینا ہے تو اگرچہ وہ چر کر بھی گزر کرتا ہو تو وہ سائمہ جانور نہیں اور اس کی زکوٰة واجب نہیں۔ اور اگر تجارت کا جانور جنگل میں چرائی پر ہے تو یہ بھی سائمہ نہیں بلکہ اس کی زکوٰة قیمت لگا کر ادا کی جائے گی کیونکہ یہ تجارت کا مال ہے۔

◼جن سائمہ جانوروں پہ زکوٰة واجب ہے۔
تین قسم کے جانوروں کی زکوٰة واجب ہے جبکہ وہ سائمہ ہوں۔
1۔ اونٹ
2۔ گائے
3۔ بکری

لہٰذا ان تینوں کے نصاب اور ان تینوں کی زکوٰة کی الگ الگ مقدار کا بیان اس طرح ہے۔
حضرت سالم ؓ کی روایت میں ہے کہ پیارے آقا ئے دو جہاں علیہ صلوة والسلام نے زکوٰة کا جو فرمانِ مبارک لکھوا کے بھیجا تھا اس میں تھا کہ:

▪ پانچ اونٹ پر ایک بکری
▪ دس پر دو
▪ پندرہ پر تین
▪اور بیس پر چار بکریاں لی جائیں۔

▪ بکریوں (بھیڑ، دنبے) میں جب چالیس بکریاں ہوں تو چالیس بکریوں پر ایک بکری
▪ایک سو بیس پر دو
▪ایک سو بیس سے زیادہ پر تین بکریاں لی جائیں۔

▪ تیس گائے (بیل، بھینس) پر ایک سال کا بچہ لیا جائے
▪اور چالیس گائے پر دو سال کا۔

💥 تجارتی سامان کی زکوٰة:

تجارت کے سامان کی قیمت لگا کر اس کی زکوٰة ادا کی جائے گی۔ مالِ تجارت میں سال گزرنے پر جو قیمت ہے اس کا اعتبار ہے مگر شرط یہ ہے کہ شروع سال میں اس کی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونے کی مقدار کے برابر ہو تو سال گزرنے پر اس سامان تجارت کی زکوٰة چالیسواں حصہ ادا کرنا ہو گی۔

⚡ اگر دکان میں مختلف قسم کے اسباب ہوں تو سب سامانوں کی قیمتوں کا مجموعہ ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت کے برابر ہو یعنی جبکہ اس کے پاس یہی سامان تجارت ہو اور اگر سامان تجارت کے علاوہ اس کے پاس سونا چاندی بھی ہو تو ان سب کو ملا کر حساب سے زکوٰة ادا کرنا واجب ہے۔

⚡تجارت کے سامان کی قیمت اس جگہ کی لگائی جائے گی جہاں وہ سامان موجود ہے
اگر مال جنگل میں ہے تو اس جنگل کے قریب جو آبادی ہے وہاں اس کی جو قیمت ہو اس کا اعتبار کیا جائے گا۔

⚡کرایہ پر اٹھانے کے لیے دیگیں یا دوسرے برتن یا دریاں، گدے یا کرسیاں میزیں یا پلنگ اور مسہریاں وغیرہ اس کے پاس ہوں تو اگرچہ ان سامانوں کی قیمت ہزاروں روپے ہو مگر ان سامانوں میں کوئی زکوٰة واجب نہیں لیکن اگر ان کے کرایوں کی آمدنی نصاب کے برابر ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس کی زکوٰة ادا کرنا واجب ہوگی۔

⚡ اگر کرایہ پر اٹھانے کے لیے مکان اور دکانیں ہوں تو ان مکانوں اور دکانوں کی زکوٰة نہیں ہاں البتہ ان کے کرایوں کی جو آمدنی ہو گی اگر وہ نصاب کے برابر ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس کی زکوٰة ادا کرنا ہو گی۔ اسی طرح موٹریں، بس، ٹرک وغیرہ اگر کرایہ پر چلانے کے لیے اس کے پاس ہوں تو اگرچہ یہ لاکھوں روپے کے ہوں مگر ان پر کوئی زکوٰة نہیں ہاں البتہ ان سے جو آمدنی ہو گی اگر وہ بقدر نصاب ہو اور اس پر سال گزر جائے تو اس کی زکوٰة ادا کرنا ضروری ہو گی ۔


💥 عشر کا بیان:

عشر بھی زکوٰة کی طرح ہے جو:

💫1. زمین سے پیدا ہونے والی ہر قسم کی اشیاء مثلاَ گیہوں، جو، چنا، باجرہ، دھان، سرسوں وغیرہ اور ہر قسم کے اناج، گنا، روٹی، ہر قسم کی ترکاریاں، پھل پھول، میوے سب پر واجب ہے۔ تھوڑا ہو یا زیادہ۔

💫2. جوپیداوار بارش یا زمین کی نمی سے پیدا ہو اس میں سے دسواں حصہ واجب ہوتا ہے۔ اور جو پیداوار ڈول، پمپنگ مشین یا ٹیوب ویل وغیرہ کے پانی سے یا خریدے ہوئے پانی سے پیدا ہو اس میں بیسواں حصہ واجب ہوتا ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری)

💫3. کھیتی کے اخراجات نکال کر عشر نہیں نکالا جائیگا۔ بلکہ جو کچھ پیداوار ہوئی ان سب کا عشر یا نصف عشر (دسواں یا بیسواں) دنیا میں واجب ہے۔ گورنمنٹ کو جو مالگزاری (لگان) دی جاتی ہے وہ بھی عشر کی رقم سے ادا نہیں کی جائیگی بلکہ پوری پیداوار کا دسواں یا بیسواں حصہ خدا کی راہ میں نکالنا پڑے گا۔
(فتاویٰ رضویہ)

💫4. زمین اگر بٹائی پر دے کر کھیتی کرائی تو زمین والے اور کھیتی کرنے والے دونوں کو جتنی پیداوار ملی ہے اپنے اپنے حصہ کی پیداوار کا دسواں یا بیسواں حصہ نکالنا واجب ہے۔


⚡ زکوٰة میں مسکین کو روپیہ پیسہ ہی دینا ضروری نہیں بلکہ جتنا روپیہ زکوٰة کا دینا واجب ہے اگر اس رقم کا کوئی سامان خرید کر مسکینوں کو دے دیں مثلاً سلائی مشینیں یا دستکاری کے کچھ اوزار یا غریب طالبعلموں اور عالموں کو کتابیں، کپڑے، کمبل، رضائیاں وغیرہ زکوٰة کے طور پہ دے رہے ہوں تو بھی زکوٰة ادا ہو جائے گی اور یہ روپیہ پیسہ دینے سے بدرجہا افضل ہے اور دینی کتابوں کو زکوٰة میں دینا تو نہایت ہی افضل ہے کہ اس میں خدا کے عائد کردہ فرض زکوٰة کی ادائیگی بھی ہو جائے گی اور مسائل دین کی اشاعت کا ثواب بھی الگ ملے گا۔

کاش مالدار مسلمانوں کو یہ مسئلہ معلوم ہو جائے کہ دینی کتابوں کی اشاعت زکوٰة دینے کا بہترین اور افضل ترین طریقہ ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم