🌹روزے کے مسائل:

💥 روزہ چھوڑنے کی جائز صورتیں:

جن مجبوریوں کے باعث شریعت نے رخصت دی ہے کہ اگر چاہے تو روزہ رکھے ورنہ مجبوری کے اختتام پر قضا روزوں کو ادا کرے مندرجہ ذیل ہیں:

⚡۱. بیماری کی وجہ سے روزہ کی طاقت نہ ہو یا مرض بڑھنے کا خطرہ ہو تو روزہ نہ رکھنا جائز ہے (ان صورتوں میں دیندار اور مسلمان ڈاکٹر کی رائے ہی زیادہ قابلِ اعتبار ہو گی) بعد رمضان اس کی قضا لازم ہے۔

⚡۲. جو عورت حمل سے ہو اور روزہ میں بچہ کو یا اپنی جان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو روزہ نہ رکھے، بعد میں قضا کرے۔

⚡٣۔ جو عورت اپنے یا کسی غیر کے بچہ کو دودھ پلاتی ہے، اگر روزہ سے بچہ کو دودھ نہیں ملتا، تکلیف پہنچتی ہے تو روزہ نہ رکھے پھر قضا کرے۔

⚡٤. عورت کے لیے ایامِ حیض میں اور بچہ کی پیدائش کے بعد یعنی ایامِ نفاس میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ ان ایام میں روزہ نہ رکھے بعد میں قضا کرے۔

⚡۵. مسافرِ شرعی جو کم از کم اڑتالیس(48) میل کے سفر کی نیت پر گھر سے نکلا ہو اس کے لیے اجازت ہے کہ روزہ نہ رکھے۔
▪الف۔ اگر کچھ تکلیف و دقت نہ ہو تو افضل یہ ہے کہ سفر ہی میں روزہ رکھ لے۔
▪ب۔ اگر خود اپنے آپ کو یا اپنے ساتھیوں کو روزہ سے تکلیف کا سامنا ہو تو روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے۔

⚡٦. جہاد میں شریک ہو اور دشمن کے مقابلے میں لڑنا پڑے اور لڑائی میں حالتِ روزہ کی وجہ سے کمزوری کسی رکاوٹ کا سبب بنے تو ایسے مجاہد کے لیئے بھی رخصت ہے۔

⚡۷. کوئی شخص کسی وجہ سے اتنا کمزور ہو گیا ہو یا بڑھاپے کی وجہ سے بہت زیادہ لاغر ہو اور اسے دوبارہ طاقت آنے کی امید بھی نہ ہو تو اس کے لیے رخصت ہے کہ وہ ہر روزے کے بدلے پونے دو کلو گندم یا کھجور یا ان کی قیمت کے برابر فدیہ دیتا رہے یا کسی فقیر مسکین وغیرہ کو پیٹ بھر کر دو وقت کا کھانا کھلاتا رہے۔

معذور کو اس صورت میں یہ اختیار ہے کہ وہ یہ فدیہ شروع رمضان میں دے دے، ہر روز دیتا رہے یا آخر میں اکٹھا دے دے۔

نوٹ: ان تمام صورتوں میں معذور عورت یا مرد کو چاہیے کہ وہ سرِعام کھانے پینے سے پرہیز کریں کیونکہ اِس سے رمضان المبارک کا تقدس پامال ہوتا ہے۔