💥 ایامِ حج اور مناسکِ حج کی ادائیگی:


آٹھ ذی الحجہ سے 12 ذی الحجہ کے پانچ دن ایامِ حج کہلاتے ہیں۔ یہی دن سفرِ حج کا حاصل ہیں کیونکہ انہی ایام میں حج کے جملہ مناسک ادا کرنا ہوتے ہیں۔

◼آٹھ ذی الحجہ:
بہتر یہ ہے کہ سات ذی الحجہ کی رات کو ہی منٰی کے لیے روانگی کی تیاری کر لی جائے۔ عمرہ کی تیاری اور نیت کی طرح ہو سکے تو پہلے غسل کر لے ورنہ وضو کر کے احرام کی نیت کریں۔ احرام باندھ کر دو رکعت نفل پڑھیں۔ اس کے بعد اسی جائے نماز پر حج کی نیت کریں۔ نیتِ حج کے الفاظ بالکل نیتِ عمرہ کی طرح ہیں۔ یہاں صرف العمرہ کی جگہ لفظ الحج کی تبدیلی کریں۔

◼ منٰی کو روانگی :
آٹھ ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ میں نمازِ فجر ادا کر کے سورج نکلتے ہی منٰی کی جانب روانہ ہو جائیں۔ سفر میں تلبیہ کثرت سے پڑھیں۔
منٰی میں پہنچ کر ظہر، عصر، مغرب، اور عشاء کی نمازیں پڑھیں۔ رات یہیں قیام کریں۔
9 ذی الحجہ کی نمازِ فجر بھی منٰی میں ادا کریں۔

◼ نو ذی الحجہ کو عرفات روانگی:
نمازِ فجر منٰی میں ادا کرنے کے بعد سورج نکلنے پر عرفات کو روانہ ہوجائیں اور زوال سے قبل خورد و نوش سے فراغت حاصل کر کے نمازِ ظہر اور عصر مسجد میں جا کر ادا کریں، ورنہ اپنی اپنی جگہ ہی دونوں نمازیں با جماعت پڑھنی بھی جائز ہیں۔
یہ دونوں نمازیں ظہر کے وقت ملا کر پڑھنا ضروری ہیں۔

◼وقوفِ عرفات:
میدانِ عرفات میں اسی قیام کو وقوفِ عرفات کہتے ہیں جو حج کا سب سے اہم رکن ہے۔

وقوفِ عرفات کی اہمیت اس سے واضح ہو جاتی ہے کہ اگر کسی وجہ سے 9 ذی الحجہ کے دن یا رات بھی کوئی عازمِ حج یہاں پہنچنے سے رہ جائے تو اس کا حج نہیں ہو گا اور نہ ہی اس کی تلافی کی کوئی گنجائش ہے۔
یہاں خصوصی دعائیں، استغفار اور کثرت سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھیں کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اسی میدان میں اپنی امت کے لیے خوب دعائیں فرمائی تھیں۔

◼ عرفات سے مزدلفہ روانگی:
اس دن غروبِ آفتاب کے وقت مغرب کی نماز پڑھے بغیر مزدلفہ روانہ ہو جائیں۔
مزدلفہ میں نمازِ مغرب اور عشاء باجماعت پڑھیں، رات مزدلفہ میں ہی قیام کریں اور اسی رات جی بھر کر اللہ کو یاد کریں کہ یہ بڑی افضل رات ہے۔

◼دس ذی الحجہ کو مزدلفہ سے منٰی روانگی:
فجر کی نماز کے بعد مزدلفہ میں وقوف کریں کیونکہ یہ توقف واجب ہے پھر منٰی کو روانہ ہو جائیں۔
منٰی پہنچ کر حجاج اکرام کو تین واجبات بالترتیب ادا کرنے ہوں گے۔
یاد رہے کہ عید الاضحیٰ کا دن ہوتا ہے مگر حجاج اکرام کو مصروفیتِ حج کی بنا پر اس نماز سے مستثنٰی (عام حکم سے الگ) رکھا گیا ہےبڑے شیطان کو رمی یعنی جمرہ کو کنکریاں مارنا۔ پہلی کنکری مارنے کے ساتھ ہی تلبیہ پڑھنا بند کر دیں۔

رمی سے فارغ ہونے کے بعد قربانی کریں۔

قربانی کے بعد سر منڈائیں یا کتروائیں، لیکن عورتیں قصر ہی کروائیں یعنی ایک پور کے برابر بال کٹوا دیں۔

اب احرام کھول کر غسل کر لیں اور اپنے اپنے کپڑے پہن لیں اب سے احرام کی سب پابندیاں سوائے مباشرت کے، ختم ہو گئی ہیں۔
◼ طوافِ زیارت کے لیے روانگی:

احرام کھولنے کے بعد مکہ مکرمہ روانہ ہو جائیں اور چوتھا رکن طوافِ زیارت بھی ادا کریں۔ یہ حج کے فرائض میں شامل ہے اور 12ذی الحجہ کا آفتاب غروب ہونے تک جائز ہے۔
اس کے بعد دم( قربانی) واجب ہوگا اور فرض بھی ذمہ رہے گا۔ یہ طواف کسی حالت میں ساقط نہیں ہوتا اور نہ اس کا کوئی بدل ہے۔
خواتین اپنی فطری اور قدرتی مجبوریوں کے پیشِ نظر ایام حج میں باقی تمام امور اسی طرح انجام دے سکتی ہیں لیکن یہ طواف زیارت اس وقت تک کرنا جائز نہیں جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ورنہ دم واجب ہوگا۔ جبکہ اس تاخیر سے ان پر دم واجب نہیں ہوگا اور نہ ہی گناہ۔

◼صفا و مروہ کے درمیان سعی:
اگر عازمِ حج نے حجِ تمتع کی نیت سے احرام باندھا تھا تو اس پر اس طواف کے بعد سعی کرنا واجب ہے۔ یعنی احرام یا روزمرہ کے لباس میں ہی کر لیں۔

◼ مکہ سے منٰی واپسی:
جب حج کی ادائیگی ہو چکی تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے پھر منٰی روانہ ہو جائیں۔

طوافِ زیارت کے بعد دو رات اور دو دن منٰی میں قیام کرنا سنتِ موکدہ ہے۔
مکہ میں یا کسی اور جگہ رات گزارنا ممنوع ہے۔ گیارہ بارہ اور تیرہ ذی الحجہ کو مناسکِ حج کی اصطلاح میں ایامِ رَمی کہتے ہیں۔
ان تینوں تاریخوں میں تینوں جَمروں کی رمی کی جاتی ہے۔
رمی کا وقت 11ویں اور 12ویں ذی الحجہ کو زوال کے بعد سے غروب آفتاب تک ہو تا ہے۔
پہلے جَمرہ اُولیٰ (چھوٹا شیطان) پر سات کنکریاں ماریں۔
پھر جَمرہ وُسطیٰ (درمیانہ شیطان) پر آئیں اور بعد ازاں جَمرہ عُقبیٰ (بڑا شیطان) پر آکر حسبِ سابق سات سات کنکریاں ماریں اور آگے نکل جائیں۔

پہلے اور دوسرے جمرے پر رمی کے بعد دعا و استغفار اور وقوف مسنون ہے، لیکن تیرہ ذی الحجہ کے بعد ٹھہرنا یا دعا مانگنا ثابت نہیں۔
یاد رہے کہ ہر بار یہی ترتیب ضروری ہے۔ اسی طرح بارہ ذی الحجہ اور اگر چاہیں تو تیرہ ذی الحجہ کو بھی رمی کریں۔
پھر واپس مکہ آجائیں راستے میں حج کی اس نعمتِ عظمیٰ کے حصول پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ اور دعا مانگیں۔
◼طوافِ وداع:
یہ حج کا آخری واجب ہے جو صرف مِیقات سے باہر رہنے والوں پر واجب ہے کہ وہ مکہ سے رخصت ہونے لگیں تو آخری طواف کر لیں۔
طوافِ وداع کا وقت طوافِ زیارت کے بعد سے شروع ہو جاتا ہے اور اس کے اختتام کا کوئی وقت مقرر نہیں۔
طواف کے بعد دو رکعت نوافل ضرور پڑھیں پھر آبِ زم زم کے جام نوش کریں۔
ممکن ہو تو چوکھٹِ کعبہ کو بوسہ دیں اور مقام مُلتزَم پر خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر بار گاہ الہٰی میں دل کھول کر روتے ہوئے ہر جائز دعا مانگیں۔ اپنے لئیے، احباب کے لئیے، دوستوں کے لئیے اور امتِ مسلمہ کے ہر فرد کے لئیے کیونکہ یہ وقت اور مقام شاید ہی دوبارہ میسر آئیں۔ اور پھر کعبہ سے آبدیدہ رخصت ہو جائیں۔

◼دربارِ رسالت کی حاضری:
اب عُشاق اپنے اگلے سفر یعنی مدینہ منورہ کی زیارت کے لیے روانہ ہو جائیں اور اس دربار کی حاضری کے لئیے مچلتے جذبات، دھڑکتے دلوں اور برستی آنکھوں کے ساتھ دھیمے دھیمے دلوں کا نذرانہ لیے اپنے آقا و مولا حضرت محمدِ مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور بصَد ادب و احترام حاضر ہوں جہاں عشاق کے دلوں کا حج ہوتا ہے۔
حاجیو
آﺅ شہنشاہِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہ دیکھو۔
کعبہ تو دیکھ چکے اب کعبے کا کعبہ دیکھو۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند مشہور ارشادات ملاحظہ ہوں:

✨ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی۔
(شعب الایمان للبیہقی)

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی
تعالیی علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا:
جو میرے پاس زیارت کے لئیے حاضر ہوا، جبکہ میری زیارت کے علاوہ کوئی دوسری حاجت اسے نہ لائی ہو، تو مجھ پرحق لازم (واجب) ہے کہ میں قیامت کے دن اس کا سفارشی بنوں۔
(معجم کبیرللطبرانی)

✨ جناب حاطب سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جس نے میرے وصال کے بعد میری زیارت کی توگویا کہ اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی اورجوشخص حرمین میں سے کسی ایک میں مراقیامت والے دن امان والوں سے اٹھایا جائے گا۔
(شعب الایمان للبیہقی)