💥 جہاد کی اقسام:


معرکہ حق و باطل کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں اور ان میں مختلف انداز سے حصہ لیا جاتا ہے۔ مجاہدین کی غیر حاضری میں ان کے بیوی بچوں کا خیال رکھنے والے اور مجاہدین کو رسد پہنچانے والے یہ سب لوگ معرکۂ جہاد میں شریک ہوتے ہیں۔ اس طرح سے جہاد کی لاتعداد قسمیں قرار دی جا سکتی ہیں۔ مگر ان میں سے چند خاص اقسام یہ ہیں:

🚩 1۔ جہاد بالمال
🚩 2۔ جہاد بالسیف
🚩 3۔ جہاد بالسان
🚩 4۔ جہاد بالقلم
🚩 5۔ جہاد بالنفس


💥 1. جہاد بالمال:

دینِ حق کی نشر و اشاعت کے لیے مال صرف کرنے کو جہاد بالمال کہتے ہیں۔
جسمانی جہاد یعنی لڑائی کی ضرورت ہر وقت نہیں ہوتی۔ لیکن مالی جہاد کی ضرورت ہر وقت ہوتی ہے۔ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ مال کی محبت جان کی محبت پر غالب رہتی ہے۔ قرآنِ پاک میں جہاں جہاں جہاد بالنفس کا ذکر آیا ہے وہاں جہاد بالمال کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور جہاد بالجان کا بعد میں اللہ فرماتا ہے کہ :

بیشک جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مال و جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔
(سورة الانفال: 72)

✨یعنی اللہ کی راہ میں مالی قربانی پیش کرنا بہت بڑا جہاد ہے۔ بعض اوقات جان قربان کرنے والے تو کافی مل جاتے ہیں لیکن مال قربان کرنے والا کوئی نہیں ملتا۔ جہاد میں مال کی بڑی اہمیت ہے اس سے مجاہدین کے لیئے اسلحہ خریدا جاتا ہے اور ان میں خوردونوش کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ ان سب ضروریات کے لئیے مال کی ضرورت ہوتی ہے۔ غزوہ تبوک میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں سے مالی امداد کی اپیل کی تو حضرت عمرؓ نے گھر کا نصف سامان، اورحضرت ابوبکرؓ نے سارا سامان آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں ڈھیر کر دیا۔

✨ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:
انسانوں پر کوئی دن ایسا نہیں جب دو فرشتے نازل نہ ہوتے ہوں۔ ان میں سے ایک فرشتہ یہ دعا کرتا ہے۔
اے اللہ! جس نے مال خرچ کیا اسے اچھا بدلہ دے۔
اور دوسرا کہتا ہے۔
اے اللہ! جس نے ہاتھ روکا اس کے مال کو تلف کر دے۔

💥2۔ جہاد بالسیف

جہاد کی دوسری قسم وہ ہے جس میں اہلِ ایمان اپنی جان جو مال سے بڑھ کر پیاری ہوتی ہے اللہ کی راہ میں پیش کر دیتے ہیں۔ جب دشمن، اسلام اور اسلامی ریاست کو ختم کرنے کے لیئے چڑھائی کر دے تو اس کے مقابل اپنی جان قربان کرنے کے لیئے باہر نکل آنا جہاد بالسیف ہے۔ جہاد بالسیف کے لیئے نکلنے والا راہِ حق میں ہر قسم کی جسمانی تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کے لیئے تیار رہتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اللہ کی راہ میں انہیں شہادت نصیب ہو جائے۔ وہ میدانِ جنگ سے منہ نہیں موڑتے بلکہ اپنے سے کئی گنا دشمن کے سامنے بھی ڈٹ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ سچے مومن ہیں اور اللہ کو بہت پسند ہیں۔

💥 3. جہاد بالسان:

جہاد بالسان سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی زبان یا قول کے ذریعے ہر برائی کے خلاف جہاد کرے۔ کلمۂ حق کہنا، باطل اور جھوٹ کی نفی کرنا، اسلام کی حقانیت کو دلائل سے ثابت کرنا، نیکی کی ترغیب دلانا، برائی سے نفرت پیدا کرنا، جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا، ظالم کے سامنے مظلوم کی قولاً حمایت کرنا، اچھی گواہی دینا اور حق کو ظاہر کرنا یہ تمام جہاد بالسان ہیں۔

✨ لسانی جہاد کے بارے میں پیارے آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:
مشرکین کے ساتھ اپنے مالوں سے، اپنے ہاتھوں سے اور اپنی زبانوں سے جہاد کرو۔

✨ جہاد بالسان سے مراد یہ ہے کہ معرکہ حق وباطل میں انسان اپنی زبان کی پوری قوت کو حق کی حمایت میں استعمال کرے۔

✨ ٓآپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:
تم میں سے کوئی شخص اگر کسی برائی کو دیکھے تو اسے ہاتھ سے روکے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں برا جانے اور یہ بدی کو دل سے برا سمجھنا ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔

✨ کفارِ مکہ کے حمایتی شاعر جب حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجو کیا کرتے تھے تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسن بن ثابتؓ سے فرماتے کہ اس کا جواب دو چنانچہ وہ ہجو کے جواب میں شعر کہتے تھے یہ جہاد بالسان کی عمدہ مثال ہے۔

💫 اس سے معلوم ہوا کہ زبان بھی ایک بہت بڑی طاقت ہے جس سے اصلاح کا کام لیا جاتا ہے۔

💥 4.جہاد بالقلم:

آج کے دور میں قلم میں بہت بڑی طاقت ہے۔ اس طاقت سے بھی اصلاحی کام لیا جا سکتا ہے۔ حق کی حمایت میں تصنیف و تالیف جہاد بالقلم کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح مجاہدین کے کارناموں کی نشرواشاعت اور لوگوں میں جذبۂ جہاد کی ترویج بھی جہاد بالقلم کے دائرے میں شامل ہے۔


💥 5. جہاد بالنفس:

جہاد کی سب سے اعلیٰ قسم جہاد بالنفس ہے۔ اپنی ذاتی اصلاح کے لیے کوشش جہاد بالنفس کہلاتی ہے۔
انسان کے اندر بعض برائیاں راسخ ہو چکی ہوتی ہیں یا وہ خواہشات کا اسیر ہو جاتا ہے۔ ان برائیوں کا قلعہ قمع کرنا اور خواہشات کی سرکوبی کرنا جہاد بالنفس کہلاتا ہے۔

یہ بہت مشکل امر ہے کہ انسان دوسروں کی اصلاح کے لیے تیار ہو جائے لیکن اپنی اصلاح کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ اس لئیے حضورِ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے جہادِ اکبر کا نام دیا ہے۔

✨ ایک مرتبہ جنگ سے واپسی پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:
ہم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹ رہے ہیں۔

✨ جہاد بالنفس کو تزکیہ نفس بھی کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں اپنے آپ کو پاک صاف رکھنا اور دل کا میل کچیل دور کرنا۔

💥جہاد کن حالتوں میں جائز ہے

اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ یہ ذاتی مفادات یا بِلا وجہ جنگ کرنے کا روادار نہیں۔ لیکن مخصوص حالات میں جہاد سے منہ موڑنے کو بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ مسلمانوں کو ان حالات میں جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔

▪1 اگر دشمن اسلامی ملک پر حملہ کرے تو اپنا دفاع کرنے کے کے لیئے مسلمانوں پر جہاد فرض ہے۔

▪2 اگر کفار و مشرکین مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنائیں۔

▪3 اگر دشمن لوگوں پر مذہبی جبر کرے اور اپنے دین کی تعلیمات پر عمل کرنے سے روکے۔

▪4 اگر دشمن بد عہدی یا غداری کا مرتکب ہو۔

▪5 اگر دشمن فتنہ برپا کرے اور فساد پھیلائے اور عبادت کی ادائیگی سے روکے۔





💥 جہاد کے آداب:

ظہورِ اسلام سے قبل جنگ کا لفظ بڑا ہیبت ناک تھا۔ اس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ اسلام نے آ کر اسے رحمت قرار دیا اور اس کے تصور کو یکسر بدل دیا۔

اسلام میں دورانِ جنگ مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری قرار دیا گیا ہے:

▪1۔ بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کیا جائے۔

▪2۔ دشمن کے مکانات نہ جلائے جائیں، آبادیاں ویران نہ کی جائیں۔

▪3۔ جانوروں کو ہلاک نہ کیا جائے۔

▪4۔ پھل دار درخت نہ کاٹے جائیں۔

▪5۔ فصلوں کو بلاوجہ نقصان نہ پہنچایا جائے۔

▪6۔ اگر مسلمانوں میں سے کوئی شخص کسی کافر کو امان دے تو اس سے کوئی مخالفت نہ کی جائے-