حق کی شمع
ذات کا خول



ہم نے جو ایک ذات اپنی بنائی ہوئی ہوتی ہے۔جو ہمارے جسم کے اندر ہے ہم نے اس کا ایک خول رکھا ہوا ہوتا ہے۔ اور اسے سب سے چھپایا ہوا ہوتا ہے۔

اور اس خول کے پیچھے ہمارے بہت سے ایریاز پل رہے ہوتے ہیں۔ اور وہ جب چاہے ، جب ہماری زندگی کے معاملات میں سامنے آتے ہیں، ہم اس کو توڑ کر باہر نکالنے کے بجائے ،ہم اس کو ایک اور تہہ دے کے مضبوط کر دیتے ہیں۔
جس معاملے میں ہم اپنے ذات کو شیئر کرکے، اس میں اپنا خیال یا احساس بدل کے ، اور رہنمائی لے کر آگے نہیں چلاتے۔وہ اندر دبی رہتی ہے۔ اب ایسے سمجھیں ہم نے جو جو بات اندر دبائی ہوئی ہے ، ہم نے ہر بات میں اس کے اوپر ایک اور تہہ لگا دی ہوتی ہے۔ جس میں ہمارا خول اور مضبوط ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر کوئی ایک حق کا راہی ہے اور وہ بظاہر سب اچھا ہے کا بتاتی ہے۔اور درحقیقت جو کسی بھی رشتے کے حوالے سے یا معاملے میں مسلہ ہے وہ نہیں بتاتی تو اندر وہ سب باتیں ذات کی وجہ سے دبائی ہوئی ہیں۔
دنیاوی طور پر بھی ہم جو کہتے ہیں کوئی مسلہ ہو گا تو کسی نہ کسی سے شیئر کریں گے
مگر ہم جو حق کے راہی کے طور پر بات کرتے ہیں۔ ہم یہ کہتے ہیں یہ کسی اور کے ساتھ بھی بات کرو گے وہ غیبت ہوگی۔ تو وہ بات اپنے استاد کے ساتھ ، مرشد کے ساتھ ، رہبر رہنما کے ساتھ ، کسی اور کے حق کے راہی کے ساتھ رہنمائی لینے کے لیے ہوتی ہے اور اپنا پوائنٹ شئیر کرتے ہو ، کہ مجھے فلاں سے یہ مسلہ ہے میرے اندر شور مچتا ہے۔ مجھے اس چیز سے برا لگتا ہے۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی میں یہاں پر کیا کروں۔ میرا دل کرتا ہے میں اس کو چار سناؤں۔
اب اس اندر کے خول کو توڑنے اور اس میں سے نکلنے کے لیے
ہمیں زیادہ پاور کی ضرورت پڑتی ہے۔جورہبر رہنما سے رہنمائی،اور دعا سے حاصل ہوتی ہے۔

آپ لوگوں کا اپنے خول سے نکلا ہوا ہونا بہت ضروری ہے۔آپ لوگ خود سیکھو گے خول سے نکلنا تو آپ کسی کو نکال سکو گے۔ اب خود نہیں سیکھو گے تو آپ کیسی کو بھی نکال نہیں سکتے۔اب یہاں پر خول کو کھولتے ہوئے ، تہہ در تہہ اپنے اندر گھستے جایا کرو۔ اپنے ہی کہ میرے اندر کیا کیا کچھ پڑا ہوا ہے۔ مجھے کن کن چیزوں سے مسلہ ہے۔
آپ لوگ جب حق کی راہ پر چل رہے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ ایک دوسرے سے پھنستے ہیں۔ آپ استاد سے پھنستے ہیں ، کسی سیٹ اپ سے پھنستے ہیں ، ورکنگ کے طریقہ کار سے کبھی پھنسو گے ، کبھی کبھی دل چاہے گا میں تو رابطہ نہیں کرتی، مجھے کونسا جواب ملنا ہے، مجھے تو میری غلطی بتا دی جائے گی ، مجھے ایسے ایسے کہا جائے گا۔
بہت ساری چیزیں ہیں جو ہمارے اندر ہوتی ہیں۔ آپ لوگ جتنا اپنی گہرایوں میں گھستے جاؤ گے ۔ آپ کو اپنے لوہے جیسے مضبوط خول ملیں گے۔
آپ لوگ صرف مدد مانگ کر گھس کر دیکھو آپ کو اتنے مضبوط خول ملیں گے اتنی ڈارونی شکل والے ملیں گے کہ وہ آپ کو کہیں گے میرے قریب مت آنا۔ آپ کو ڈرائیں گے وہ مجھے کھولا تو، تو بالکل جائے گی۔ تیرے پاس کچھ بھی نہیں بچے گا۔اور وہ سب آپ کو اتنا خوبصورت لپٹے ہوئے نظر آئیں گے کہ آپ کہیں گے یہ تو پھولوں کا گلدستہ ہے ان پھولوں میں چاہے ہزاروں کانٹے ہوں ، کئی سو کانٹے ہوں، کتنی ہی تعداد میں کانٹے پڑے ہونگے۔جب آپ ایک ایک کانٹے کو چنو گے۔ آپ کہ اپنے ہاتھ زخمی ہونگے لیکن یہ خول ہیں۔
ایسا ہے کہ بہت سے خول ہونگے۔ ہم نے مسلسل توڑتے رہنا ہوتا ہے۔
یہ خول ایسے ہوتے ہیں جو مطلب خود ہی بہت جلدی بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے نہیں ہے کہ ایک بار خول توڑا تو پھر نہیں بننے گا ۔ مسلہ جب ہوتا ہے جب ہمارے پرانے خول پڑے ہوتے ہیں اور وہ نہ توڑنے کی وجہ سے مضبوط ہو جاتے ہیں جس کے اندر ذات قید ہوتی ہے۔
آپ نے وہاں سے اپنے آپ کو آزاد کروانا۔ آپ ایسے محسوس کرو خود کو آزادی کئی طرف لے کر جانا ہے۔
ہماری زندگی کھلے سانس میں لینے لگ جائے گی۔ ہم اس خول سے نکل کے بہت کچھ دیکھیں گے اپنی صحیح سمت قدم بڑھانے لگ جائیں گے۔ورنہ ذات کے مضبوط خول کئیں رکاوٹیں کھڑی کر دیتے ہیں۔
اللہ ہمیں اپنی مدد سے ذات کی قید سے آزاد کر کے حق راہ پر چلائے آمین۔

فریدہ