💚اونچائی چڑھنے اور اترنے کے آداب💚

اونچائی چڑھتے وقت اللہ اکبر کہنا اور اترتے ہوئے سبحان اللہ کہنا چاہئیے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ کلمات اونچائی چڑھتے اور اترتے ہوئے پست آواز میں کہنا پسند فرمائے۔

ان کلمات کی فضیلت کا بیان پیارے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی حدیثِ مبارکہ میں بارہا آیا ہے۔

• ابو سلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:

واہ واہ اور اپنے ہاتھ سے پانچ باتوں کا اشارہ کیا۔ میزان میں یہ کتنی بھاری ہیں۔ سبحان اللہ والحمدللہ، ولا الہ الا اللہ ،واللہ اکبر اور مسلمان کی فوت شدہ نیک اولاد جس کی وفات پر وہ اجر کی امید رکھتا ہے۔ ​
(صحیح ابن حبان)

سبحان اللہ اور اللہ اکبر یہ دونوں انتہائی مختصر کلمے ہیں، جو ہم کہیں بھی چڑھتے اور اترتے ہوئے آسانی سے کہہ سکتے ہیں خواہ دو سیڑھیاں چڑھنی ہوں، سواری پر چڑھنے کا مختصر لمحہ ہو یا اترنے کا، یا پہاڑوں پہ چڑھنے اترنے کا لمبا دورانیہ ہو، ان سب کے دوران یہ کلمات پڑھنے کا انتہائی اہم مختصر اور آسان عمل کر سکتے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے لشکر کے لوگ جب بلندی پر چڑھتے تو تکبیر (اللہ اکبر) اور جب نیچے اترتے، تو تسبیح (سبحان اللہ) پڑھتے۔
(ابوداؤد)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

جب ہم دورانِ سفر بلند جگہ پر چڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور پست زمین یا وادی میں اترتے تو سبحان اللہ کہتے۔
(صحیح بخاری)

گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب بلندی پر چڑھتے، تو بلند ہونا اللہ کی شان ہے لہٰذا آپ نے کہا اللہ اکبر ، یعنی بڑائی صرف اللہ تعالیٰ ہی کیلیے ہے۔
اور جب آپ نشیب کی طرف اترتے، تو نیچا ہونا خدا کی شان کے خلاف ہے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سکھایا اور کہا سبحان اللہ یعنی اے اللہ!!! آپ نیچے ہونے سے پاک ہیں، ہم تو نیچے ہو رہے ہیں مگر آپ تو نیچے ہونے سے پاک ہیں۔ یہ ہیں آدابِ بندگی۔

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر اللہ کے مزاجِ عظمت کو، حق تعالیٰ کی شانِ الوہیت کو کون سمجھ سکتا ہے، لہٰذا آپ نے ہر سانس میں سکھا دیا کہ اللہ کس بات سے خوش ہوں گے۔