💚اندازِ گفتگو💚

تکلم انسان کے ایمان، کردار اور مرتبے کو پوری طرح بےنقاب کرتا ھے۔

موضوعات اور الفاظ کا انتخاب، فقروں کی سختی نرمی، آواز کا اتار چڑھاؤ، لہجے کا اسلوب اور بیان کا زور یہ ساری چیزیں واضح کرتی ہیں کہ متکلم کس پائے کی شخصیئت کا علمبردار ہہے۔

💚پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منصب اور ذمہ داریوں کی نوعیت ایسی تھی کہ ان کا بھاری بوجھ اگر کسی دوسری شخصیت پر ڈالا گیا ہوتا تو وہ تفکرات میں ڈوب کر رہ جاتا لیکن پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالاتِ خاص میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تفکرات اور مسائل کا پہاڑ اٹھائے ھوئے تھے اور طرح طرح کی پریشانیوں میں سے گزرتے تھے لیکن دوسری طرف لوگوں میں گھلنا ملنا بھی ھوتا۔۔۔۔
مزاج کی سنجیدگی اپنی جگہ تھی اور تبسم و مزاح اپنی جگہ۔۔۔۔

اپنی کتاب محسنِ انسانیت میں نعیم صدیقی لکھتے ہیں کہ

💫حضرت امِ عبادہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندازِ گفتگو کو ایسے بیان کیا ہے کہ

گفتگو ایسی جیسے موتیوں کی لڑی پروئی ہوئی.
الفاظ نہ ضرورت سے کم نہ زیادہ، نہ کوتاہ سخن نہ طویل گو۔
گفتگو میں بالعموم ایک مسکراہٹ شامل رہتی۔

💫 حضرت عبداللہ بن حارثؓ کا بیان ھے کہ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کسی کو مسکراتے نہیں دیکھا

💫 حضرت امام حسینؑ فرماتے ہیں کہ

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیر تک خاموش رہتے تھے اور بلا ضرورت بات چیت نہ کرتے۔

💫آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں سے بات چیت کرنا ہوتی اور گفتگو فرمانا ہوتی تو اس کے بارے میں حضرت زید بن حارثؓ عنہ کے الفاظ میں ہے کہ

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو ایسی ہوتی کہ ہم دنیاوی معاملات کا ذکر کر رہے ہوتے تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حصہ لیتے۔
جب ہم آخرت کی گفتگو کر رہے ھوتے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے ساتھ اس پر تکلم فرماتے۔