💚جامع الکلام💚


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امتیازی شان یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جامع الکلام عطا کئیے گئے تھے۔

جامع الکلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ مختصر ترین کلمات ہیں جو معنوی لحاظ سے بڑی وسعت رکھتے ہیں۔

کم سے کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ معنی پیش کرنے میں سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی مثال آپ تھےاور اسے خصوصی عطاِ رب میں شمار کرتے تھے۔

💫پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فصاحتِ گفتگو اس بات سے بھی واضح ہوتی ھے کہ حضرت علی علیہ السلام نے ایک بار سوال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مسلک کی وضاحت کریں۔۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس مختصر فصیح انداز میں جواب دیا اور اس جواب میں اپنے طرزِ فکر، اپنے کردار، اور اپنی روحانیت کی جامع تصویر کھینچی وہ بجائے خود انسانی کلام کی تاریخ میں ایک اعجاز ھے۔

💫 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

💚 عرفان میرا سرمایہ
♥ عقل میرے دین کی اصل ھے
💚 محبت میری بنیاد ھے
♥ شوق میری سواری ھے

💚 ذکرِ الٰہی میرا مونس ھے
♥ اعتماد میرا خزانہ
💚 خزن میرا رفیق
♥ علم میرا ہتھیار
💚 صبر میرا لباس
♥ اللہ کی رضا میری غنیمت
💚 عاجزی میرے لئیے وجہِ اعزاز
♥ زہد میرا پیشہ
💚 یقین میری طاقت
♥ صدق میری سفارش
💚 اطاعت میرا بچاؤ
♥ جہاد میرا کردار
💚 اور نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے

💚آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جامع الکلام کی کیفیت💚

ابنِ قائمؒ نے زیدالمیعاد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو کا نہایت ہی جامع نقشہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

💫آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مخلوق میں سب سے زیادہ فصیح الکلام اور شیریں بیان تھے۔

💫آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں بہت میٹھی ہوتی تھیں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام دلوں کی گہرائیوں میں پیوست ہو جاتا تھا اور روح کو قید کر لیتا تھا جس کی شہادت خود ان کے دشمنوں نے دی۔

💫 جب گفتگو فرماتے تھے تو الگ الگ اور جدا جدا لفظ ادا فرماتے۔۔۔ایسے کہ گننے والا لفظ گن سکتا تھا۔

💫 اس قدر تیز گفتگو نہیں فرماتے تھے کہ محفوظ نہ رکھی جا سکے اور نہ ہی انتہائی آہستہ کہ کلام کے ٹکروں میں خلاء پیدا کر دے بلکہ ہر اعتبار سے خوبیوں کی حامل گفتگو فرماتے۔

💫 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بات کو مثالوں سے سمجھایا کرتے تھے۔

💫اللہ تعالٰی فرماتا ہے

اپنی آوازیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آوازوں سے اونچی نہ کرو، جس طرح آپس میں بولتے ہو ان کے ساتھ نہ بولنا کہ ایسا نہ ہو تمھارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تمھیں خبر بھی نہ ہو

اندازِ گفتگو کا بہترین انداز اور اصول اس آیت میں بتا دیا گیا ہے۔

اللہ کسی کی برائی یا بری بات کو بلند آواز سے کہنا پسند نہیں کرتا، سوائے اس کے کہ ظلم ہوا ہو.

تلوار کا زخم جسم پر ہوتا ہے اور بری گفتگو کا روح پر۔

💫 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندازِ گفتگو کے بارے میں محسنِ انسانیت میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکروہ، فحش اور غیر ھمدردانہ کلمات سے تنفر تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو میں ایک مسکراہٹ شامل رہتی تھی۔

💫حضرت ابودرداءؓ سے مروی ہے کہ میں نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا نہ دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گفتگو کرتے ہوئے

مسکراتے نہ ہوں۔
💫 حضرت عبداللہ بن حارثؓ کا بیان ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کسی کو مسکراتے نہیں دیکھا۔
گفتگو میں کسی بات پر زور دینے کے لیے ٹیک سے اٹھ کر سیدھے ہو بیٹھتے۔
بات کی وضاحت کے لئیے ہاتھوں اور انگلیوں کے اشارے سے بھی مدد لیتے.

💫 آپؐ گفتگو میں مذاق بھی فرما لیا کرتے تھے مگر ارشاد فرماتے میں کوئی خلافِ حق بات نہی کہتا۔

💫 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو میں نرمی کا عنصر نمایاں ہوتا تھا اور گفتگو کے انداز میں اپنے اور اجنبی یا دوست اور دشمن کی وجہ سے کوئی فرق نہ ہوتا تھا۔

💫ایک بار ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے کو حاضر ہوا اور وہ ایسا شخص تھا جس کو اپنے گروہ کا برا آدمی سمجھا جاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بھی بےتکلفی سے گفتگو فرمائی۔

💫 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو تعجب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

قسم ہے قیامت کے دن خدا کے حضور وہ شخص بدترین آدمی کا مقام پائے گا جس سے لوگ اسکی بدسلوکی کے ڈر سے ملنا جلنا چھوڑ دیں۔

اس واقعہ کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دشمن اور ناپسندیدہ لوگوں سے بھی بات کرتے ہوئے اپنا اندازِ گفتگو بہترین، بےتکلف اور شائستہ رکھا اور اندازِ گفتگو میں اللہ کے حکم کی پیروی کی۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اندازِ گفتگو کو اپنے دشمن کے ساتھ بھی ویسا ہی رکھتے جیسا دوستوں کے ساتھ۔

مگر ہم تو اپنا اندازِ گفتگو دوستوں کے ساتھ بھی کبھی شائستہ نہیں رکھتے۔

ذرا خلافِ توقع کوئی بات ہو تو ہماری گفتگو کا انداز بدل جاتا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو یہ انداز اختیار نہ کیا تھا۔

ہماری گفتگو کا انداز سامنے موجود شخص کے مطابق بھی بدل جاتا ہے اور اپنی پسند یا نا پسند کا بندہ سامنے ہونے پر بھی بدل جاتا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندازِ گفتگو کو اگر کوئی عنوان دیا جا سکتا ہے تو قرآن کی اس آیت سے۔۔

💫 ترجمہ
لوگوں سے حسنِ تکلم سے خطاب کرو