: 💥 احادیث کی روشنی میں غیبت کی جائز صورتیں:

بعض مواقع جن پر کسی کو مطلع کرنا یا تنبیہہ کرنا ضروری ہو اور بغیر اس کے چارہ نہ ہو، کہ کسی انتہائی نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے، یا کسی شرعی فائدے کا حصول ممکن ہے، اس صورت میں غیبت جائز ہے۔
پیارے آقائے دو عالم علیہ الصلوۃ والسلام کی حیاتِ طیبہ سے چند واقعات کا ذکر ذیل میں دیا جا رہا ہے:

🌷 ایک مرتبہ ایک بدو آ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز میں شامل ہوا اور نماز ختم ہوتے ہی یہ کہتا ہوا چل دیا کہ
خدایا مجھ پر رحم کر اور محمد پر، اور ہم دونوں کے سوا کسی کو اس رحمت میں شریک نہ کر
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: تم لوگ کیا کہتے ہو، یہ شخص زیادہ نادان ہے یا اس کا اونٹ؟
تم نے سنا نہیں کہ یہ کیا کہہ رہا تھا
(ابو داؤد)

✨ وضاحت: یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کے پیٹھ پیچھے کہنی پڑی کیونکہ وہ سلام پھیرتے ہی جا چکا تھا اس نے چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں ایک بہت غلط بات کہہ دی تھی اور آپ کا اس پر خاموش رہ جانا کسی شخص کو اس غلط فہمی میں ڈال سکتا تھا کہ ایسی بات کہنا کسی درجہ میں جائز ہو سکتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ آپ اس کی تردید فرمائیں۔

🌷 ایک خاتون فاطمہ بنت قیس کو دو صاحبوں نے نکاح کا پیغام دیا۔ ایک حضرت معاویہ دوسرے حضرت ابوالجہم۔
انہوں نے آ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشورہ طلب کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
معاویہ مفلس ہیں اور ابوالجہم بیویوں کو بہت مارتے پیٹتے ہیں۔
(بخاری و مسلم)

✨ وضاحت: یہاں ایک خاتون کیلیے زندگی کا مسئلہ درپیش تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انہوں نے مشورہ طلب کیا تھا اس حالت میں آپ نے ضروری سمجھا کہ دونوں صاحبوں کی جو کمزوریاں آپ کے علم میں ہیں وہ انہیں بتا دیں۔

🌷 ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہؓ کے ہاں تشریف فرما تھے۔ ایک شخص نے آکر ملاقات کی اجازت طلب کی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ قبیلے کا بہت بُرا آدمی ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لے گئے اور اس سے بڑی نرمی کے ساتھ بات کی۔ گھر میں واپس تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے عرض کیا آپ نے تو اس سے بڑی اچھی طرح گفتگو فرمائی حالانکہ باہر جاتے وقت آپ نے اس کے متعلق وہ کچھ فرمایا تھا۔ جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

خدا کے نزدیک قیامت کے روز بدترین مقام اس شخص کا ہو گا جس کی بدزبانی سے ڈر کر لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیں
(بخاری و مسلم)

✨ وضاحت: حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کے متعلق بُری رائے رکھنے کے باوجود اس کے ساتھ اچھی طرح بات چیت تو اس لیے کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاق اسی کا تقاضا کرتا تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ اندیشہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر والے آپ کو اس سے مہربانی برتتے دیکھ کر کہیں اسے آپ کا دوست نہ سمجھ لیں اور بعد میں کسی وقت وہ اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ کو خبردار کر دیا تھا کہ وہ اپنے قبیلے کا بہت بُرا آدمی ہے۔

🌷 ایک موقع پر حضرت ابو سفیان کی بیوی ہند بن عتبہ نے آ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا:
ابو سفیان ایک بخیل آدمی ہے مجھے اور میرے بچوں کو اتنا نہیں دیتے جو ضروریات کیلیے کافی ہو۔
(بخاری و مسلم)

✨وضاحت: بیوی کی طرف سے شوہر کی غیر موجودگی میں یہ شکایت اگرچہ غیبت تھی مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو جائز رکھا کیونکہ مظلوم کو یہ حق پہنچتا ہے کہ ظلم کی شکایت کسی ایسے شخص کے پاس لے جائے جو اس کو رفع کرا سکتا ہو۔



: 💥 علما کے نزدیک غیبت کی جائز صورتیں

علماء نے غیبت کی حسبِ ذیل صورتیں جائز قرار دی ہیں۔

✨1. ظالم کے خلاف مظلوم کی شکایت:
ہر اس شخص کے سامنے جس سے وہ یہ توقع رکھتا ہو کہ وہ ظلم کو دفع کرنے کیلیے کچھ کر سکتا ہے۔

✨2. اصلاح کی نیت سے:
کسی شخص یا گروہ کی برائیوں کا ذکر ایسے لوگوں کے سامنے جن سے یہ امید ہو کہ وہ ان برائیوں کو دور کرنے کیلیے کچھ کر سکیں گے۔

✨3. استفتاء(فتوٰی) کی غرض سے کسی مفتی کے سامنے صورت واقعہ بیان کرنا جس میں کسی شخص کے کسی غلط فعل کا ذکر آ جائے۔

✨4. لوگوں کو کسی شخص یا اشخاص کے شر سے خبردار کرنا تاکہ وہ اس کے نقصانات سے بچ سکیں۔ مثلاً راویوں، گواہوں اور مصنفین کی کمزوریاں بیان کرنا بالاتفاق جائز ہی نہیں واجب ہے کیونکہ اس کے بغیر شریعت کو غلط روایتوں کی اشاعت سے، عدالتوں کو بے انصافی سے، اور عوام یا طالبانِ علم کو گمراہیوں سے بچانا ممکن…
نہیں ہے یا مثلاً کوئی شخص کسی سے شادی بیاہ کا رشتہ کرنا چاہتا ہو یا کسی کے پڑوس میں مکان لینا چاہتا ہو یا کسی سے شرکت کا معاملہ کرنا چاہتا ہو یا کسی کو اپنی امانت سونپنا چاہتا ہو اور آپ سے مشورہ لے تو آپ کیلیے واجب ہے کی اس کا عیب و صواب(برائی،اچھائی) اسے بتا دیں۔ تاکہ ناواقفیت میں وہ دھوکا نہ کھائے۔

✨5. ایسے لوگوں کے خلاف علیٰ الاعلان آواز بلند کرنا اور ان کی برائیوں پر تنقید کرنا جو فسق و فجور پھیلا رہے ہوں یا بدعات اور گمراہیوں کی اشاعت کر رہے ہوں یا خلقِ خدا کو بے دینی اور ظلم و جور کے فتنوں میں مبتلا کر رہے ہوں۔

✨6. جو لوگ کسی برے لقب سے اس قدر مشہور ہو چکے ہوں کہ وہ اس لقب کے سوا کسی اور لقب سے پہچانے نہ جا سکتے ہوں ان کیلیے وہ لقب استعمال کرنا بغرض تعریف نہ کہ بغرض تنقیص (نقص یا عیب کے) جائز ہے۔
(فتح الباری جلد ١٠)

ان مستشنیٰ صورتوں کے ماسوا پیٹھ پیچھے کسی کی بدگوئی کرنا مطلقاً حرام ہے۔ یہ بد گوئی اگر سچی ہو تو غیبت ہے، جھوٹی ہو تو بہتان ہے اور دو آدمیوں کو لڑانے کیلیے ہو تو چغلی ہے۔ شریعت ان تینوں چیزوں کو حرام کرتی ہے۔

اسلامی معاشرے میں ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ اگر اس کے سامنے کسی شخص پر جھوٹی تہمت لگائی جا رہی ہو تو وہ اس کو خاموشی سے نہ سنے بلکہ اس کی تردید کرے، اور اگر کسی جائز شرعی ضرورت کے بغیر کسی کی واقعی برائیاں بیان کی جا رہی ہوں تو اس فعل کے مرتکبین کو خدا سے ڈرانے اور اس گناہ سے باز رہنے کی تلقین کرے۔