🔥 ریاکاری کی اقسام:



ریاکاری کی دو قسمیں ہیں:

⚡1. ریائے جلی
⚡2. ریائے خفی

⚡1. ریائے جلی:
ریائے جلی سے مراد وہ ریا ہے جو عمل پر اُبھارے اور اس کی ترغیب دے۔

⚡2. ریائے خفی:
ریائے خفی سے مراد وہ ریا ہے جو پوشیدہ ہو۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ریا کی ایک قسم وہ ہے جو چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ خفیف (ہلکی) ہوتی ہے۔
(مجمع الزوائد)

ریائے خفی سے بچنا دشوار ہے لیکن جسے اللہ توفیق دے۔



🔥 ریائے خفی کی چار اقسام:


🍁1. وہ ریا جو کسی عمل پر تو نہ ابھارے البتہ اس کی مشقت میں کمی کر دے اور اس کا کرنا آسان ہو جائے جیسے کوئی شخص روزانہ نمازِ تہجد پڑھنے کا عادی ہو لیکن اسے بوجھ بھی محسوس ہوتا ہے اور جب اس کے ہاں کوئی مہمان آئے یا کسی کو اس کے تہجد گزار ہونے کا پتہ چل جائے تو اس کی چستی میں اضافہ ہو جائے اور وہ اسے خوشدلی سے پڑھے۔

🍁2. وہ ریا جس کا نیکی میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ یعنی وہ ریا جو نہ تو عمل پر ابھارتا ہے نہ اس کی مشقت میں کمی کرتا ہے لیکن اس کی وجہ سے بندے کا دل ریاکاری میں اسطرح مبتلا ہو جاتا ہے جیسے پتھر میں آگ پوشیدہ ہوتی ہے۔ ریائے خفی کی اس قسم کو پہچاننا آسان نہیں، اس کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ جب لوگوں کو اس کی عبادت کا پتہ چلے تو اسے خوشی ہو۔

چنانچہ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے عمل میں مخلص ہوتے ہیں، ریاکاری کو ناپسند کرتے ہیں اور اپنے عمل کو ریاکاری میں مبتلا ہوئے بغیر مکمل بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن جب لوگوں کو ان کی عبادت کا پتہ چلتا ہے انہیں خوشی حاصل ہوتی ہے اور انہیں عبادت کی مشقیں بھول جاتی ہے۔ اس صورت میں ریا ان کے دل میں اس طرح پوشیدہ ہوتی ہے جیسے پتھر میں آگ پوشیدہ ہوتی ہے۔ یہ خوشی ریائے خفی پر دلالت کرتی ہے۔
کیونکہ دل لوگوں کی طرف متوجہ نہ ہوتا، تو وہ اپنی عبادت پر ان کے آگاہ ہونے پر خوش نہ ہوتا۔ اب اگر وہ اس خوشی کو دل ہی دل میں مذموم نہ جانے تو ریا کا یہ پوشیدہ سلسلہ مزید مضبوط ہو جاتا ہے اور پھر یہ شخص کوشش کرتا ہے کہ اشارۃً یا کنایۃً کسی بھی طرح لوگوں کو اس کی عبادت کا حال معلوم ہو جائے بلکہ بعض اوقات ایسی عادتیں اپنا لیتا ہے جس سے اس کی نیکیوں کا اظہار ہو سکے مثلاً کمزوری کے سبب آواز پست رکھنا، ہونٹوں کو خشک رکھنا، روزے اور آنسوؤں کے آثار، خوفِ خدا سے گریہ وزاری اور انگڑائیوں اور جمائیوں سے نیند کے غلبے کا اظہار طویل تہجد گزاری پر دلالت کرتا ہے۔

🍁3. وہ ریا ہے کہ نہ تو لوگوں کے آگاہ ہونے کی خواہش ہو اور نہ ہی عبادت کے ظاہر ہونے پر خوشی ہو البتہ اس بات پر خوشی ہو کہ

✨• ملاقات کے وقت لوگ اسے پہلے سلام کریں۔
✨• اسے خندہ پیشانی اور عزت و احترام سے ملیں۔
✨• اس کی تعریف کریں اور اس کی ضرورتوں کو خوشی خوشی پورا کریں۔
✨• خرید و فروخت میں اس کے ساتھ رعایت برتیں (یعنی سستے میں چیز بیچیں یا دام ہی نہ لیں)۔
✨• کسی محفل میں جائے تو اس کیلیے جگہ چھوڑ دیں۔
✨• اس کی آؤ بھگت کریں وغیرہ

اگر کوئی ان معاملات میں ذرہ برابر کوتاہی کرے تو اسے بہت ناگوار گزرے۔ گویا وہ اپنی پوشیدہ عبادت کا اظہار تو نہیں چاہتا لیکن اس کے بدلے لوگوں سے عزت و احترام کا طلب گار ہے، بالفرض اس نے یہ عبادتیں نہ کی ہوتیں تو اس کا دل ان چیزوں کا مطالبہ بھی نہ کرتا۔ جب کوئی اس قسم کی ریاکاری میں مبتلا ہو جائے تو اس کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ اور وہ محض اس بات پر قناعت نہیں کرتا کہ دل کا حال جاننے والے پروردگار کو اس کی نیکیوں کا علم ہے۔ ان تمام صورتوں میں نیکیوں کا ثواب ضائع ہو سکتا ہے۔ اور اس سے صرف صدیقین ہی محفوظ رہ سکتے ہیں۔

🍁4. ریائے خفی کی ایک قسم ایسی ہے جو واعظین، مدرسین اور علماء کے ساتھ خاص ہے۔ وہ یوں کہ ان میں سے اگر کوئی زبان کی مہارت، وسیع مطالعے اور بہترین حافظے کی بدولت اچھا بیان کرتا ہو، شریعت و طریقت کی معرفت رکھتا ہو، لوگوں کا اس کی طرف میلان ہو، پھر کوئی اور واعظ یا عالم ان لوگوں کی اصلاح کرے یا وہ اسے چھوڑ کر کسی اور عالم یا شیخ کے پاس جائیں تو وہ ملال محسوس کرے اور حسد میں مبتلا ہو جائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ریائے خفی کا شکار ہو چکا ہے۔

اسی طرح دورانِ بیان جب کوئی مالدار شخص یا کوئی صاحبِ منصب ان کی محفل میں حاضر ہو تو اپنی گفتگو ادھوری چھوڑ کر ان کی خوشامد شروع کر دینا یا اپنے کلام میں شائستگی اور نرمی پیدا کر لینا۔
ہاں! اگر ان کی اصلاح کی نیت سے بیان طویل کرتا ہے تاکہ وہ اپنے فسق و فجور سے توبہ کریں اور اصلاح کی طرف مائل ہو جائیں تو یہ نیت درست ہے مگر اس صورت میں بھی ریاکاری میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے۔
لہذا بیان کرنے والے کو چاہیے کہ تمام خلقِ خدا کو ایک نظر سے دیکھے اور امیر کو اس کی امیری کے سبب غریب سے اور بڑے کو چھوٹے سے ممتاز نہ کرے تو یوں وہ انشاءاللہ ریاکاری سے بچ جائے گا۔
(الحدیقہ الندیة)