ریاکاری کا علاج:


💫1. اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا:

اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ہم ریاکاری جیسے گناہ سے بچ سکتے ہیں۔
دعا میں اللہ سے دل کا ٹانکا لگاتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے درخواست گزار ہوں۔

یا اللہ مجھے ریاکاری کی بیماری سے شفا عطا فرما، میری خالی جھولی کو اخلاص کی عظیم دولت سے بھر دے، میرا سامنا اس دشمن (یعنی شیطان) سے ہے جو مجھے دیکھتا ہے۔ مگر خود دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن تو اس کو دیکھ رہا ہے، اے اللہ!!! مجھے اس دشمن کے مکرو فریب سے بچا لے۔ اے اللہ!!! میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ لوگوں کی نظر میں میرا حال بہت اچھا ہو، وہ مجھے نیک اور پرہیزگار سمجھیں مگر تیری بارگاہ میں سزا کا حقدار ٹھہروں۔


💫 2. ریاکاری کے نقصانات پیشِ نظر رکھنا:

ریاکاری کی آفتوں کو پیشِ نظر رکھیے کیونکہ آدمی کا دل کسی چیز کو اس وقت تک پسند کرتا ہے جب تک وہ اسے نفع بخش اور لذیذ نظر آتی ہے مگر جب اسے اس شے کے نقصان دہ ہونے کا پتہ چلتا ہے تو وہ اس سے بچتا ہے۔
مثلاً ایک آدمی شہد کو اس کی لذت اور مٹھاس کی وجہ سے بہت پسند کرتا ہے لیکن اگر اسے یہ بتا دیا جائے کہ یہ شہد جسے تم پینے جا رہے ہو اس میں زہر ملا ہوا ہے تو وہ اس میں موجود مٹھاس کو نہیں زہر کو دیکھے گا اور اسے ہر گز ہر گز نہیں پیئے گا۔ اسی طرح لوگوں پر اپنا نیک عمل ظاہر کرنے اور ان کی طرف سے واہ واہ ہونے میں یقیناً نفس کو بڑی لذت ملتی ہے لیکن اگر ہم اس لذت کے بجائے ریاکاری کے نقصانات ذہن میں رکھیں تو اس سے بچنا ہمارے لیے قدرے آسان ہو جائے گا۔




💫 3. ریاکاری کے اسباب کا خاتمہ:

ہر بیماری کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔ اگر سبب مٹا دیا جائے تو بیماری بھی ختم ہو جاتی ہے اس طرح ریاکاری کے بھی بنیادی طور پر تین اسباب ہوتے ہیں اگر ان تین چیزوں سے جان چھڑا لی جائے تو ریاکاری سے بچنا بے حد آسان ہو گا۔

وہ تین اسباب یہ ہیں:

•1. تعریف کی خواہش
•2. مذمت کا خوف
•3. مال و دولت کی حرص


💫1. تعریف کی خواہش:

تعریف کی خواہش پر قابو پانے کیلیے ان نقصانات پر غور کرنا چاہیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
اللہ کی اطاعت کو بندوں سے تعریف کی محبت سے ملانے سے بچتے رہو کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں۔
(فردوس الاخبار)


💫2. مذمت کا خوف:

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے:
دو بھوکے بھیڑیے بکریوں کے ریوڑ میں اتنی تباہی نہیں مچاتے جتنی مال اور عزت و آبرو کی تمنا مسلمان کے دین کو خراب کرتی ہے۔
(کنز العمال)


💫3. مال و دولت کی حرص:

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے:
مال اور مرتبے کی محبت مومن کے دل میں منافقت کو اسطرح بڑھاتی ہے جیسے پانی سبزہ اگاتا ہے۔
(کنز العمال)


💫 4. اخلاص اپنانا:

✨ حضرت یحییٰ بن معاذ رحمتہ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ انسان کب مخلص ہوتا ہے؟؟؟
فرمایا:
جب شیر خوار بچہ کی طرح اس کی عادت ہو۔ شیر خوار بچہ کی کوئی تعریف کرے تو اسے اچھی نہیں لگتی اور مذمت کرے تو اسے بری نہیں معلوم ہوتی۔ جس طرح وہ اپنی تعریف و مذمت سے بے پرواہ ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان جب تعریف و مذمت کی پرواہ نہ کرے تو مخلص کہا جا سکتا ہے۔
(اخلاق الصالحین)

• جس طرح کپڑے سے میل کچیل صاف کرنے کیلیے اعلیٰ قسم کا صابن یا سرف استعمال کیا جاتا ہے اسی طرح ریاکاری کی گندگی سے اپنے دل کو صاف کرنے کیلیے اخلاص کا صابن درکار ہے۔ اخلاص ریاکاری کی ضد ہے۔

✨ حضرت ذوالنون مصری رحمتہ اللہ علی سے کسی نے پوچھا کہ آدمی کس وقت سمجھے کہ وہ مخلصین میں سے ہے؟؟؟؟
تو آپ نے فرمایا کہ
جب وہ اعمالِ صالحہ میں پوری کوشش صرف کر دے اور اس کو پسند کرے کہ میں معزز نہ سمجھا جاؤں۔
(تنبیہ المغترین)

✨ کسی امام سے پوچھا گیا کہ مخلص کون ہے؟؟؟
تو انہوں نے ارشاد فرمایا:
مخلص وہ ہے جو اپنی نیکیاں اس طرح چھپائے جس طرح اپنے گناہ چھپاتا ہے۔



*: 💫 3. ریاکاری کے اسباب کا خاتمہ:

ہر بیماری کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔ اگر سبب مٹا دیا جائے تو بیماری بھی ختم ہو جاتی ہے اس طرح ریاکاری کے بھی بنیادی طور پر تین اسباب ہوتے ہیں اگر ان تین چیزوں سے جان چھڑا لی جائے تو ریاکاری سے بچنا بے حد آسان ہو گا۔

وہ تین اسباب یہ ہیں:

•1. تعریف کی خواہش
•2. مذمت کا خوف
•3. مال و دولت کی حرص


💫1. تعریف کی خواہش:

تعریف کی خواہش پر قابو پانے کیلیے ان نقصانات پر غور کرنا چاہیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
اللہ کی اطاعت کو بندوں سے تعریف کی محبت سے ملانے سے بچتے رہو کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں۔
(فردوس الاخبار)


💫2. مذمت کا خوف:

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے:
دو بھوکے بھیڑیے بکریوں کے ریوڑ میں اتنی تباہی نہیں مچاتے جتنی مال اور عزت و آبرو کی تمنا مسلمان کے دین کو خراب کرتی ہے۔
(کنز العمال)


💫3. مال و دولت کی حرص:

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے:
مال اور مرتبے کی محبت مومن کے دل میں منافقت کو اسطرح بڑھاتی ہے جیسے پانی سبزہ اگاتا ہے۔
(کنز العمال)


💫 4. اخلاص اپنانا:

✨ حضرت یحییٰ بن معاذ رحمتہ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ انسان کب مخلص ہوتا ہے؟؟؟
فرمایا:
جب شیر خوار بچہ کی طرح اس کی عادت ہو۔ شیر خوار بچہ کی کوئی تعریف کرے تو اسے اچھی نہیں لگتی اور مذمت کرے تو اسے بری نہیں معلوم ہوتی۔ جس طرح وہ اپنی تعریف و مذمت سے بے پرواہ ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان جب تعریف و مذمت کی پرواہ نہ کرے تو مخلص کہا جا سکتا ہے۔
(اخلاق الصالحین)

جس طرح کپڑے سے میل کچیل صاف کرنے کیلیے اعلیٰ قسم کا صابن یا سرف استعمال کیا جاتا ہے اسی طرح ریاکاری کی گندگی سے اپنے دل کو صاف کرنے کیلیے اخلاص کا صابن درکار ہے۔ اخلاص ریاکاری کی ضد ہے۔

✨ حضرت ذوالنون مصری رحمتہ اللہ علی سے کسی نے پوچھا کہ آدمی کس وقت سمجھے کہ وہ مخلصین میں سے ہے؟؟؟؟
تو آپ نے فرمایا کہ
جب وہ اعمالِ صالحہ میں پوری کوشش صرف کر دے اور اس کو پسند کرے کہ میں معزز نہ سمجھا جاؤں۔
(تنبیہ المغترین)

✨ کسی امام سے پوچھا گیا کہ مخلص کون ہے؟؟؟
تو انہوں نے ارشاد فرمایا:
مخلص وہ ہے جو اپنی نیکیاں اس طرح چھپائے جس طرح اپنے گناہ چھپاتا ہے۔



💫 5. نیت کی حفاظت کرنا:

اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی وہ نیت کرے۔
(صحیح بخاری)

✨ حضرت موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہُ سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ
''ایک آدمی شجاعت کے اظہار، دوسرا قومی غیرت اور تیسرا ریاکاری کی غرض سے لڑتا ہے۔ ان میں سے کون اللہ کی راہ میں جہاد کر رہا ہے؟؟؟
فرمایا:
جو شخص صرف اس غرض سے لڑے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو وہ اس کے راستے میں مجاہد ہے۔
(صحیح بخاری)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تمام نیکیوں کے ثواب کے حصول کے لیے نیت میں اخلاص اور رضائے الہی شرط ہے۔
نیت میں یہی خالص پن ریا کی گندگی کو مٹا ڈالتا ہے اور عمل صرف اللہ کے لیے رہ جاتا ہے۔


💫 6. دوران عبادت شیطانی وسوسوں سے بچنا:

اخلاص قبولیت کی کنجی ہے جس طرح نیک عمل سے پہلے دل میں اخلاص ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح عبادت کے دوران اسے قائم رکھنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ شیطان مسلسل ہمارے دل میں وسوسے ڈالنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔

✨ حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ
جو شخص اپنے اعمال میں ساحر (یعنی جادوگر) سے زیادہ ہوشیار نہ ہو گا، ضرور ریا میں پھنس جائے گا۔
(تنبیہ المغترین)

✨ عبادت کے دوران شیطانی وسوسوں سے چھٹکارے کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں:
1. اس وسوسے کو پہچاننا۔
2. اسے ناپسند کرنا۔
3. اسے قبول کرنے سے انکار کرنا۔

مثلا کسی نے خالص نیت کے ساتھ نمازِ تہجد ادا کرنی شروع کی۔ اب دورانِ نماز شیطان دل میں ریاکاری کا وسوسہ ڈالے کہ جب لوگوں کو میری نمازِ تہجد کا معلوم ہو گا تو بہت متاثر ہوں گے جیسے ہی یہ خیال آئے تو باطل کے اس وسوسے کو فوراً پہچانے اور دل میں شیطان کے اس وسوسے پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی کرے کہ یہ عمل تو میں صرف اللہ کی رضا پانے کے لئے کر رہا ہوں اور اللہ کی رضا پانے والے عمل سے لوگوں کو متاثر کرنا گویا غضبِ الہی کو آواز دینے کے مترادف ہے، پھر اس وسوسے سے اپنی توجہ ہٹا لے۔

💫7. تنہائی ہو یا ہجوم یکساں عمل کرنا:

✨ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:
"جب بندہ اعلانیہ نماز پڑھے تو بھی اچھی اور خفیہ نماز پڑھے تو بھی اچھی۔ تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ یہ میرا سچا بندہ ہے۔''
(سنن ابن ماجہ)

یعنی جس خشوع و خضوع سے لوگوں کے سامنے نماز پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اسی انداز کو تنہائی میں بھی قائم رکھنے کی کوشش کریں اور جس طرح کوئی کام بھی کسی کے سامنے کرتے ہوئے جھجھکتے ہیں وہ کام تنہائی میں بھی نہ کریں۔


💫 8. نیکیاں چھپانا:

حتی الامکان کوشش کریں کہ اپنی نیکیوں کو چھپائیں، جس طرح سے اپنے گناہوں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اسی پر قناعت کریں کہ ہم نے جو نیکی کی ہے اللہ تعالیٰ ہماری نیکی کو جانتا ہے۔ بالخصوص پوشیدہ نیکی کرنے کے بعد نفس کی خود نگرانی کریں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ نفس میں اس عبادت کو ظاہر کرنے کی حرص جوش مارے اور یوں کہے کہ اگر تیرے اس عظیم عمل پر لوگوں کو اطلاع ہو جائے تو وہ بھی عبادات میں مشغول ہو جائیں۔ تُو اپنے عمل کو چھپانے پر راضی کیسے ہو گیا اس طرح تو لوگوں کو تیرے مقام ومرتبے کا علم نہیں ہو گا۔ چنانچہ وہ تیری قدرومنزلت کا انکار کریں گے اور تیری پیروی سے محروم رہ جائیں گے۔ ایسے میں تُو لوگوں کا مقتدٰی کیسے بنے گا؟؟؟ نیکی کی دعوت کیسے عام ہو گی؟؟؟ وغیرہ۔
ایسی صورت میں اللہ تعالی سے ثابت قدمی کی دعا کرنی چاہیے اور اپنے بڑے عمل کے مقابلے میں آخرت کی نعمتوں کو یاد کرنا چاہیے جو ہمیشہ رہنے والی ہیں۔

✨ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
ظاہری اعمال کے مقابلے میں پوشیدہ عمل ستر (70) گنا افضل ہے۔
(کنز العمال)

✨ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:
جب تم میں سے کسی ایک کا روزہ ہو تو وہ اپنے سر اور داڑھی میں تیل لگائے اور ہونٹوں پر بھی ہاتھ پھیرے تاکہ لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ یہ روزہ دار ہے اور جب دائیں ہاتھ سے دے تو بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو اور جب نماز پڑھے تو اپنے دروازے پر پردہ ڈال دے۔ اللہ تعالی ثنا (یعنی تعریف) بھی اسی طرح تقسیم کرتا ہے جس طرح رزق تقسیم کرتا ہے۔
(احیاء العلوم الدین)



💫9. اچھی صحبت اختیار کرنا:

✨ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اچھے اور برے مصاحب کی مثال، مُشک اٹھانے والے اور بھٹی جھونکنے والے کی طرح ہے۔ کستوری اٹھانے والا تمہیں تحفہ دے گا یا تم اس سے خریدو گے یا تمہیں اس سے عمدہ خوشبو آئے گی، جبکہ بھٹی جھونکنے والا یا تمہارے کپڑے جلائے گا یا تمہیں اس سے ناگوار بو آئے گی۔
(صحیح مسلم)

یعنی اچھے شخص کی صحبت عطار کی دکان کی طرح ہے کہ جہاں سے آدمی کچھ نہ بھی خریدے تو اسے خوشبو آ ہی جاتی ہے اور برے شخص کی صحبت لوہار کی دکان کی مثل ہے جہاں اپنے کپڑوں کو جتنا بھی سمیٹ کر رکھیں چنگاریاں اس تک پہنچ ہی جاتی ہیں۔


💫10. اوراد و وظائف کا پڑھنا:

✨1. جب بھی دل میں ریاکاری کا خیال آئے تو آعوذ باللہ من الشیطن الرجیم ایک بار پڑھنے کے بعد الٹے کندھے کی طرف بار بار تُھو کر دیجیے۔

✨2. روزانہ دس بار آعوذ باللہ من الشیطن الرجیم پڑھنے والے پر شیطان سے حفاظت کرنے کیلیے اللہ ایک فرشتہ مقرر کر دیتا ہے۔

✨3. سورة اخلاص 11 بار صبح (آدھی رات ڈھلے سے سورج کی پہلی کرن چمکنے تک صبح ہے) پڑھنے والے پر شیطان مع لشکر کے کوشش کرے کہ اس سے گناہ کرائے تو نہ کرا سکے گا جب تک یہ خود نہ کرے۔
(الوظیفتہ الکریمہ)

✨4. سورہ الناس پڑھ لینے سے بھی وسوسے دور ہو جاتے ہیں۔

✨5. جو کوئی صبح شام اکیس اکیس بار وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِىِّ الْعَظِيْمِ. پڑھ لیا کرے تو انشاءاللہ شیطانی وسوسے سے بہت حد تک امن میں رہے گا۔