🔥ظلم کے نقصانات:


⚡1. ظلم سے آدمی خدا کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے اور لعنت کا مستحق بن جاتا ہے۔

⚡2. ظالم آدمی اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا جب تک حقداروں کا حق ادا نہ کرے۔

⚡3. ظالم آدمی کی عبادت قبول نہیں ہوتے۔

⚡4. ظلم سے قوم میں انتشار پھیلتا ہے۔

⚡5. اخوت ومحبت کے جذبات ختم ہوجاتے ہیں لوگ خود غرض ہو جاتے ہیں۔

⚡6. اقتصادی حالت خراب ہو جاتی ہے اور معاشی طور پر ملک و قوم بد حال ہو جاتی ہے۔


🔥 ظلم کا انجام:


⚡اوندھے منہ جھنم میں:

حضرت سیدنا محمد بن عیسیٰ ترمذی علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنے مشہور مجموعہ احادیث ترمذی میں حضرات سیدنا ابو خدریؓ و ابوہریرہؓ سے نقل کرتے ہیں:
اگر تمام آسمان و زمین والے ایک مسلمان کا خون کرنے میں شریک ہو جائیں تو اللّٰہ عزوجل ان سبھوں کو منہ کے بل اوندھا کر کے جہنم میں ڈال دے گا۔
(سنن الترمذی)


⚡ آگ کی بیڑیاں:

حضرت سیدنا فقیہ ابواللیث سمر قندی رحمتہ اللہ علیہ قرة العیون میں نقل کرتے ہیں:
بے شک پل صراط پر آگ کی بیڑیاں ہیں جس نے حرام کا ایک درہم بھی لیا اس کے پاؤں میں آگ کی بیڑیاں ڈالی جائیں گی، جس کے سبب اسے پل صراط پر گزرنا دشوار ہو جائیگا، یہاں تک کہ اس درھم کا مالک اس کی نیکیوں میں اس کا بدلہ نہ لے لے اگر اس کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی تو وہ اس کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھائے گا اور جہنم میں گر پڑیگا ۔
(قرة العیون


⚡ گیہوں کا دانہ توڑنے کا اخروی نقصان:

منقول ہے کہ ایک شخص کو بعدِ وفات کسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا:
اللّٰہ عزوجل نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟
کہا اللّٰہ نے مجھے بخش دیا، لیکن حساب و کتاب ہوا یہاں تک کہ اس دن کے بارے میں بھی مجھ سے پوچھ گچھ ہوئی جس روز میں روزے سے تھا اور اپنے ایک دوست کی دکان پر بیٹھا ہوا تھا جب افطار کا وقت ہوا تو میں نے گیہوں کی بوری میں سے گیہوں کا دانہ اٹھا لیا اور اس کو توڑ کر کھانا ہی چاہتا تھا کہ ایک دم مجھے احساس ہوا کہ یہ دانہ میرا نہیں، چنانچہ میں اسے جہاں سے اٹھایا تھا فوراًاسی جگہ ڈال دیا اور اس کا حساب بھی لیا گیا یہاں تک کہ اس پرائے گیہوں کے توڑے جانے کے نقصان کے بقدر میری نیکیاں مجھ سے لی گئیں۔
(مرقاة المفاتیح)


⚡ظلم کا بدلہ

حضرت بابا فرید شکر گنجؒ اپنے سے پہلے زمانے کی ایک شہزادی کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دِن وہ شہزادی اپنی ایک خادمہ کو بُری طرح کوڑوں سے پیٹ رہی تھی، کسی پوچھنے والے نے پوچھا، “اِس خادمہ کو اتنی بُری طرح سے کیوں پیٹا جا رہا ہے؟” تو بتانے والے نے بتایا کہ، اِس خادمہ نے شہزادی صاحبہ کا سرمہ پیستے ہوئے غفلت کا مظاہرہ کیا، اور غلطی سے اُس میں رائی کے دانے کے برابر ایک پتھر رہ گیا تھا۔ وہی سرمہ جب شہزادی صاحبہ نے اپنی آنکھ میں لگایا تو اُسکے چھوٹے سے پتھر نے شہزادی صاحبہ کو بہت تکلیف دی اور غصے کے عالم میں خود ہی کوڑے سے اِس خادمہ کو پیٹنے لگی۔۔۔

بابا فرید شکر گنجؒ پھر اپنے زمانے کی بات بتاتے ہیں کہ، “ایک دِن میں کسی قبرستان سے گزر رہا تھا کہ، کیا دیکھتا ہوں ایک قبر آدھ کھلی پڑی ہوئی ہے، جس میں ایک بوسیدہ سی انسانی کھوپڑی بڑی واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ میں ذرا اُس قبر کے اور قریب ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اُس کھوپڑی کی آنکھ کے اندر ایک چڑیا نے گھونسلا بنا رکھا ہے، جہاں اُسکے دو ننھے ننھے بچے موجود ہیں اور وہ چڑیا اپنی چونچ اُس آنکھ کے اندر بار بار ڈال کر اپنے بچوں کو اناج مہیا کر رہی ہے۔

بابا فرید شکر گنجؒ نے یہ عجیب و غریب منظر دیکھا اور پھر اپنے حجرے میں تشریف لے گئے، وہاں اللہ سے لَو لگائی اور سوچنے لگے کہ، یا اللہ! تیرا کوئی عمل حکمت سے خالی نہیں ہوتا، ابھی ابھی جو تو نے مجھے یہ منظر دیکھایا ہے تو ضرور اِس کے پیچھے بھی کوئی وجہ ہوگی، آخر کیا ہے وہ وجہ۔۔۔؟ آپؒ اِنہیں سوچوں یں گم تھے کہ نیند آ گئی اور عالم خواب میں اللہ کا جواب بھی آ گیا، اور جواب بھی ایسا کہ آپؒ پسینے سے شرابور ہو گئے، اللہ نے فرمایا، “وہ جو قبر میں انسانی کھوپڑی آپؒ نے دیکھی ہے وہ اُسی شہزادی کی کھوپڑی ہے، جس کو اپنی آنکھ میں سرمے کا چھوٹا سا پتھر برداشت نہیں ہوا تھا اور اُس نے ایک بے گناہ خادمہ پر ظلم کی انتہاء کر دی۔۔۔!

ذرا اللہ کا انصاف ملاحظہ فرمائیے کہ جس شہزادی کو اپنی آنکھ میں سرمے کا ایک چھوٹا سا پتھر برداشت نہیں ہوتا تھا، اُسے ظلم کی پاداش میں ایسی سزا ملی کہ پھر اُسے چڑیا کی چونچ بھی اپنی آنکھ میں برداشت کرنی پڑی۔