غرور و تکبر پر ابھارنے والے اسباب اور ان کا علاج:



💥1. علم
علم دین سیکھنا سکھانا بہت بڑی سعادت ہے اور اپنی ضرورتوں کے بقدر اس کا حاصل کرنا فرض ہے۔ مگر بعض اوقات انسان کثرتِ علم کیوجہ سے تکبر کی آفت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اور کم علم لوگوں کو حقیر جاننے لگتا ہے۔ بات بات پر انہیں جھاڑنا، وہ کوئی سوال پوچھ بیٹھیں تو ان کی کم علمی کا احساس دلا کر ذلیل کرنا، انہیں جاہل اور گنوار جیسے بُرے القابات سے یاد کرنا اس کی عادت بن جاتا ہے۔ ایسا شخص توقع رکھتا ہے کہ لوگ اسے سلام کرنے میں پہل کریں اور اگر یہ کسی ان پڑھ کو سلام میں پہل کر لے یا دو گھڑی اس سے ملاقات کر لے یا اس کی دعوت قبول کر لے تو اس پر اپنا احسان سمجھتا ہے۔ عام طور پر لوگ اس کی خیر خواہی کرتے ہیں مگر یہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک نہیں کرتا۔ لوگ اس کی ملاقات کو آتے ہیں یہ خود چل کر ان سے ملاقات کو نہیں جاتا، لوگ اس کی بیمار پرسی کرتے ہیں مگر یہ ان کی بیمار پرسی نہیں کرتا۔ کوئی اس کی خدمت میں کوتاہی کرے تو اسے برا جانتا ہے۔ وہ خود کو اللہ تعالیٰ کے ہاں دوسرے لوگوں سے افضل و اعلیٰ سمجھتا ہے، ان کے گناہوں کو برا جانتا ہے اور اپنی خطائیں بھول جاتا ہے۔ الغرض ایسا شخص سر سے پاؤں تک آفتِ علم یعنی تکبر میں گرفتار ہو جاتا ہے۔

.علم کی آفت تکبر ہے
(فیض القدیر)

🌴علاج:

معلم الملکوت کے منصب تک پہنچنے والے (یعنی شیطان) کا انجام یاد رکھنا چاہیے جس نے اپنے آپ کو حضرت سیدنا آدم سے افضل قرار دیا تھا مگر اسے اس تکبر کے نتیجے میں کیا ملا۔ ہمیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں یہ تکبر ہمیں بھی عذابِ جہنم کا حقدار نہ بنا دے۔



💥2. عبادت و ریاضت

علم سے بڑھ کر جو چیز تکبر کا باعث بن سکتی ہے وہ کثرتِ عبادت ہے۔
مثلا کسی کو فرض عبادات کے ساتھ ساتھ نوافل عبادات یعنی تہجد، اشراق و چاشت، اوابین کے نوافل، روزانہ تلاوتِ قرآن، نفلی روزے رکھنے، ذکر و اذکار اور دیگر وظائف کرنے کی سعادت میسر ہو تو وہ بعض اوقات ان کو جو نفلی عبادت نہیں کر پاتے، حقیر سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ جس کا بعض اوقات زبان سے اور کبھی اشاروں کنایوں سے اظہار بھی کر بیٹھتا ہے۔
عبادت بذات خود ایک نہایت ہی اعلیٰ چیز ہے۔ لیکن بعض لوگ عبادت گزار ہونے کے زعم (گمان) میں خود کو بڑا پہنچا ہوا سمجھنے لگتے ہیں۔ اور دوسروں کو گناہ گار قرار دے کر ہر وقت ان کی عیب جوئی میں مبتلا رہتے ہیں۔ خود کو نیک و پارسا اور نجات پانے والا اور دوسروں کو گناہگار و بدکار اور تباہ و برباد ہونے والا سمجھنا تکبر کی بد ترین شکل ہے۔

🌴علاج

عبادت گزار کو یہ بات دل و دماغ میں بٹھا لینی چاہیے کہ اگر وہ نفلی عبادتیں کرتا بھی ہے تو اس میں اس کا کیا کمال! یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ اسے عبادت کی توفیق عطا فرمائی نیز عبادت وہی مفید ہےجس میں شرائطِ ادا کے ساتھ ساتھ شرائطِ قبولیت مثلاً نیت کی درستی وغیرہ بھی پائی جائیں اور وہ مفسدات (یعنی فاسد کر دینے والی چیزوں) سے بھی محفوظ رہے۔ کیا خبر کہ جن عبادتوں پر وہ اِترا رہا ہے نیت درست نہ ہونے کی وجہ سے ان کا ثواب ہی جاتا رہے۔ بلکہ وہ اس پر تکبر کی وجہ سے ہو سکتا ہے بجائے جنت کے معاذاللہ جہنم میں پہنچ جائے۔


💥3. مال و دولت:

تکبر کا ایک سبب مال و دولت اور دنیاوی نعمتوں کی فراوانی بھی ہے۔ جس کے پاس کار، بنگلہ، بینک بیلنس اور کام کاج کیلیے نوکر چاکر ہوں وہ بعض اوقات تکبر کی آفت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ پھر اسے غریب لوگ زمین پر رینگنے والے کیڑوں کی طرح حقیر دکھائی دیتے ہیں (مگر جسے اللہ تعالیٰ بچائے)
بعض اوقات اس قسم کے متکبرانہ جملے اس کے منہ سے نکلتے سنائی دیتے ہیں
مثلاً
تم میرے منہ لگتے ہو…
تمہارے جیسے لوگ تو میری جوتیاں صاف کرتے ہیں...
میں ایک دن میں اتنا خرچ کرتا ہوں جتنا تمہارا سال بھر کا خرچ ہے...

🌴علاج

مال و دولت کی کثرت کے باعث پیدا ہونے والے تکبر کا علاج یوں ہو سکتا ہے کہ انسان اس بات کا یقین رکھے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ اسے یہ سب کچھ یہیں چھوڑ کر خالی ہاتھ دنیا سے جانا ہے۔ کفن میں تھیلی ہوتی ہے نہ قبر میں تجوری، پھر قبر کو نیکیوں کا نور روشن کرے گا نہ کہ سونے چاندی کی چمک دمک!
الغرض یہ دولت فانی ہے اور چلتی پھرتی چھاؤں ہے کہ آج ایک کے پاس تو کل دوسرے کے پاس۔ اور پرسوں کسی تیسرے کے پاس۔ آج کا صاحبِ مال کنگال اور آج کا کنگال کل مالامال ہو سکتا ہے۔ تو ایسی ناپائیدار شے کی وجہ سے تکبر میں مبتلا ہو کر اپنے رب کو کیوں ناراض کیا جائے۔



💥4.حسب نسب

تکبر کا ایک سبب حسب نسب بھی بنتا ہے۔ انسان اپنے آباؤ اجداد کے بل بوتے پر اکڑتا اور دوسرں کو حقیر جانتا ہے۔

🌴علاج

دوسروں کے کارناموں پر گھمنڈ کرنا جہالت ہے۔

✨آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے۔
اپنے فوت شدہ آباؤ اجداد پر فخر کرنے والی قوموں کو باز آ جانا چاہیے، کیونکہ وہی جہنم کا کوئلہ ہیں، یا دو قومیں اللہ کے نزدیک گندگی کے ان کیڑوں سے بھی حقیر ہو جائیں گی جو اپنے ناک سے گندگی کو کریدتے ہیں۔ اللہ نے تم سے جاہلیت کا تکبر اور ان کا اپنے آباء پر فخر کرنا ختم فرما دیا ہے۔ اب آدمی مومن، متقی ہو گا یا بدبخت و بدکار، سب لوگ آدمؑ کی اولاد ہیں۔ اور حضرت آدمؑ مٹی سے پیدا کیے گیے ہیں۔
(جامع الترمذی)


💥5.حسن وجمال

تکبر کا پانچواں سبب حسن وجمال ہے کہ بعض اوقات انسان اپنی خوب صورتی کیوجہ سے متکبر ہو جاتا ہے۔ کسی کا رنگ گورا ہے تو وہ کالے رنگ والے کو، کوئی قدآور ہے تو وہ چھوٹے قد والے کو، کسی کی آنکھیں بڑی بڑی ہیں تو وہ چھوٹی آنکھوں والے کو حقیر سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ عموماً یہ بیماری مردوں کی نسبت عورتوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔

🌴علاج

حسن و جمال کے باعث پیدا ہونے والے تکبر کا علاج کرنے کیلیے اپنی ابتدا اور انتہا پر غور کیجیے کہ میرا آغاز ناپاک نطفہ (یعنی گندہ قطرہ) اور انجام سڑا ہوا مردہ ہے۔
عمر کے ہر دور میں حُسن یکساں نہیں رہتا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماند پڑ جاتا یے، کبھی کوئی حادثہ بھی اس حسن کے خاتمے کا سبب بن جاتا ہے۔ کھولتا ہوا تیل تو بہت بڑی چیز ہے ابلتا ہوا دودھ بھی سارے حسن کو غارت کرنے کیلیے کافی ہے۔
یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ انسان جب تک دنیا میں رہتا ہے اپنے جسم کے اندر مختلف گندگیاں مثلاً پیٹ میں پاخانہ و پیشاب اور ریح (یعنی بدبودار ہوا) ناک میں رینٹھ، منہ میں تھوک، کانوں میں بدبودار میل، ناخنوں میں میل، آنکھوں میں کیچڑ اور پسینے سے بدبودار بغلیں لیے پھرتا ہے۔ روزانہ کئی کئی بار استنجا خانے میں اپنے ہاتھ سے پاخانہ و پیشاب صاف کرتا ہے۔ کیا ان سب چیزوں کے ہوتے ہوئے فقط گوری رنگت، ڈیل ڈول اور قدوقامت نیز چوڑے چکلے سینے وغیرہ پر تکبر کرنا زیب دیتا ہے۔ یقیناً نہیں۔

✨ حضرت سیدنا حسنؓ فرماتے ہیں:
آدمی پر تعجب ہے کہ وہ روزانہ ایک یا دو مرتبہ اپنے ہاتھ سے ناپاکی دھوتا ہے۔ پھر بھی زمین و آسمان کے بادشاہ (یعنی اللہ تعالیٰ) سے مقابلہ کرتا ہے۔
(الزواجر عن اقتراف الکبائر)


💥6. عہدہ و منصب:

کبھی عہدہ و منصب کی وجہ سے بھی انسان تکبر کا شکار ہو جاتا ہے۔

🌴 علاج

ایسے لوگوں کو چاہیے کہ اپنا ذہن بنائیں کہ فانی پر فخر نادانی ہے، عزت و منصب کب تک ساتھ دیں گے، جس منصب کے بل بوتے پر آج اکڑتے ہیں کل کلاں کو چھن گیا تو شاید انہی لوگوں سے منہ چھپانا پڑے جن سے آج تحقیر آمیز سلوک کرتے ہیں۔ آج جن پر حکم چلاتے ہیں، ریٹائر منٹ کے دوسرے دن انہی کی خدمت میں حاضر ہو کر پنشن کیس نپٹوانا ہے۔

الغرض فانی چیزوں پر غرور و تکبر کیونکر کیا جائے؟؟؟ اس لیے کیسا ہی بڑا منصب یا عہدہ مل جائے اپنی اوقات نہیں بھولنی چاہیے۔


💥7. کامیابیاں:

انسان کی زندگی کامیابی و ناکامی کی داستان ہے۔ جب کسی کو مسلسل کامیابیاں قدم چومتی ہیں، تو وہ پے در پے ناکامیوں کے شکار ہونے والے دکھیاروں کو حقیر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ خود کو بے حد تجربہ کار گردانتے ہوئے انہیں بے وقوف ،نادان اور نہ جانے کیسے کیسے القابات سے نوازتے ہیں:

🌴 علاج

کامیابیوں پر پھولے نہ سما کر جامے سے باہر ہونے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ بلندیوں پر پہنچنے والوں کو اکثر واپس پستی میں بھی آنا پڑتا ہے۔ ہر کمال کو زوال ہے۔ آپ کو کامیابی ملی اس پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر کیجئے نہ کہ اپنا کمال تصور کر کے ناشکروں کی صف میں کھڑے ہونے کی جسارت۔ پھر جسے آپ کامیابی سمجھ رہے ہیں اس کا سفر دنیا سے شروع ہو کر دنیا ہی میں ختم ہو جاتا ہے۔ حقیقی کامیاب تو وہ ہے جو قبر وحشر میں کامیاب ہو کر رحمت الٰہی کے سائے میں جنت میں داخل ہوگیا۔

✨ اور جو شخص اللہ پر ایمان لا کر نیک عمل کرے اللہ اس سے اس کی برائیاں دور کر دے گا اور اسے جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
(سورة التغابن: 9)


: 💥8. طاقت و قوت

تکبر کا ایک سبب طاقت و قوت بھی ہے۔ جس کا قد کاٹھ نکلتا ہوا ہو، جسم زور آور اور تندرست ہو، وہ بسا اوقات کمزور جسم والے کو حقیر سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ اور قد و قامت میں نقص نکالتے ہیں۔

🌴 علاج

طاقت و قوت سے پیدا ہونے والے تکبر کا علاج کرنے کے لیے یوں فکر کیجئے کہ قوت و پھرتی تو چوپایوں اور درندوں میں بھی ہوتی ہے بلکہ ان میں انسان سے زیادہ طاقت ہوتی ہے۔ تو پھر اپنے اندر اور جانوروں میں مشترک صفت پر تکبر کیوں کیا جائے۔ حالانکہ ہمارے جسم کی ناتوانی کا تو یہ حال ہے کہ اگر ایک دن بخار آجائے تو طاقت وقوت کا سارا نشہ اتر جاتا ہے۔ معمولی سی گرمی میں ذرا پیدل چلنا پڑے تو پسینے سے شرابور ہو کر نڈھال ہو جاتے ہیں، سرد ہوا چلے تو کپکپانے لگتے ہیں، بڑی بیماریاں تو بڑی ہی ہوتی ہیں۔ انسان کی ڈاڑھ میں اگر درد ہو جائے تو اس وقت خوب اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کی طاقت و قوت کی حیثیت کیا اور کتنی ہے۔ پھر جب موت آئے گی تو یہ ساری طاقت و قوت دھری کی دھری رہ جائیگی۔ اور بے بسی کا عالم یہ ہو گا کہ اپنی مرضی سے ہاتھ تو کیا انگلی بھی نہیں ہلا سکیں گے۔ لہذا ایسی عارضی قوت پر نازاں ہونا ہمیں زیب نہیں دیتا۔


: 🔥غرور و تکبر سے بچاؤ کے لیئے خود کو حقیر سمجھنے کا طریقہ:


دوسروں کو حقیر اور خود کو افضل سمجھنے کے شیطانی وار سے بچنے کیلیے یہ سوچ اپنا لے کہ

💫1. اگر اپنے سے کم عمر کو دیکھے تو اسے اپنے سے یہ خیال کر کے افضل سمجھے کہ اس کی عمر تھوڑی ہے، اس کے گناہ بھی مجھ سے کم ہوں گے اس لیے مجھ سے بہتر ہے۔

💫2. اگر کسی بڑے کو دیکھے تو اس کو بھی خود سے بہتر سمجھے اور یہ جانے کہ اس کی عمر مجھ سے زیادہ ہے، اس نے نیکیاں بھی مجھ سے زیادہ کی ہوں گی۔

💫3. اگر کم عمر کو دیکھے تو اس کے بارے حسنِ ظن رکھے کہ یہ اطاعت، عبادت اور نیکی میں مجھ سے بہتر ہے۔

💫4. اگر اپنے سے کم علم یا جاہل کو دیکھے تو اس کو بھی اپنے سے بہتر سمجھے کہ یہ اپنی جہالت و کم علمی کی وجہ سے گناہ کرتا ہے۔ اور میں علم رکھنے کے باوجود گناہ میں گرفتار ہوں۔ اسلیے یہ جاہل تو مجھ سے زیادہ عذر والا ہے یعنی اس کے پاس تو علم کے نہ ہونے کی وجہ سے جہل کا عذر ہے میں کونسا عذر پیش کروں گا۔

💫5. اور اگر خود سے زیادہ علم والے کو دیکھے تو اس کو بھی خود سے زیادہ بہتر سمجھے اور یہ جانے کہ اس کا علم زیادہ ہے لہٰذا تقویٰ اور علم کی وجہ سے عبادات بھی زیادہ ہوں گی۔ اس لیے کہ اسے معلوم ہے کہ کس کس عبادت کا اجر و ثواب زیادہ ہے؟؟؟ کون کون سے اعمال کا درجہ بلند ہے؟؟؟ اس نے نیکیاں بھی اپنے علم کیوجہ سے زیادہ کر لی ہوں گی اور علم کی فضیلت کی وجہ سے جو بخشش و عطا ہو گی وہ اس کے نصیب میں ہو گی۔

💫6. اگر کسی کافر کو دیکھے تو اگرچہ اسے حقیر جاننے میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ مگر اپنے دل سے تکبر کا صفایا کرنے کیلیے اسے بھی بحثیت انسان کے خود سے حقیر اور کم تر نہ جانے، کافر کو دیکھ کر اپنے اندر اس طرح عاجزی پیدا کرے کہ اس وقت یہ کافر ہے اور میں مومن، لیکن کیا معلوم کہ یہ توبہ کر لے اور آخری وقت میں مسلمان ہو جائے یوں اس کا خاتمہ ایمان پر ہو جائے اور یہ بخشش و نجات کا مستحق بن جائے۔ جبکہ میں ساری عمر ایمان پر گزار کر ممکن ہے اپنی موت سے پہلے کوئی ایسا کام کر بیٹھوں کہ میرا ایمان جاتا رہے۔ اور میرا خاتمہ کفر پر ہو۔

✨ حدیث پاک میں ہے
یعنی اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہے۔
(صحیح البخاری)

✨ مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں:
یعنی مرتے وقت جیسا کام ہو گا ویسا ہی انجام ہو گا۔ لہٰذا چاہیے کہ بندہ ہر وقت ہی نیک کام کرے۔ شاید وہی اس کا آخری وقت ہو
(مراة المناجیح)