🌹 تقویٰ سے متعلق سلف صالحین کے اقوال:


🍀 حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
تقویٰ یہ ہے کہ انسان شرک، کبیرہ گناہ اور بے حیائی کے کاموں سے بچے۔

🍀 حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
تقویٰ یہ ہے کہ تو ہر کسی کو اپنے سے بہتر سمجھے اور اپنے آپکو ہر کسی سے حقیر اور کم تر۔

🍀 حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے فرماتے ہیں:
کہ تقویٰ صرف دن کو روزہ رکھ لینے اور رات کو عبادت کے لئے قیام کرنے کا نام نہیں بلکہ تقویٰ یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اس سے بچے اور جو فرض کیا ہے اسے ادا کرے۔

🍀 حضرت کعب الاحبار سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا:
مجھے بتائیے تقویٰ کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ کیا آپ کبھی خار دار دشوار راستے سے گزرے ہیں؟
آپ نے فرمایا: ہاں!
تو حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ نے پوچھا، بتاﺅ خاردار جھاڑیوں والے راستے سے گزرتے ہوئے تمہارا طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟
آپ نے فرمایا:
ڈرتا ہوں۔ دامن بچا کر چلتا ہوں یعنی نہایت احتیاط سے دامن سمیٹ سمیٹ کر قدم بچا بچا کر گزرتا ہوں اس خدشہ کے پیشِ نظر کہیں دامن چاک نہ ہو جائے، کہیں پاﺅں زخمی نہ ہو جائے، جسم چھلنی نہ ہو جائے،
حضرت کعب الاحبار نے فرمایا: بس یہی تقویٰ ہے کہ گویا یہ دنیا ایک خاردار جنگل ہے۔ دنیاوی لذات اور خواہشاتِ نفسانی اسکی خاردار جھاڑیاں ہیں۔ جو ان خواہشات و لذات کے پیچھے چلا گیا اس نے اپنا دامن تار تار کر لیا اور جو بچ گیا وہ صاحبِ تقویٰ ہوا۔

🍀 حضرت سری سقطی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
متقی وہ شخص ہے جو اپنے نفس سے دشمنی کرتے ہوئے اسکے خلاف چلتا ہے۔

🍀 علامہ سید شریف جرجانی رحمة اللہ علیہ اپنی مشہور و معروف کتاب التعریفات میں لکھتے ہیں کہ:
آدابِ شریعت کی حفاظت کرنا اور ہر وہ کام جو تمہیں اللہ تعالیٰ سے دور کر دے اس سے خود کو باز رکھنا تقویٰ ہے۔


🌹 امام الانبیاء اور اسلافِ عظام کا تقویٰ:
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام اور اسلافِ عظام کا اللہ سے بے پناہ ڈرنے کا ذکر ملتا ہے، اللہ کے خوف سے رات رات بھر قیام کرتے، رویا کرتے، جسکی وجہ سے مہینوں بیمار رہتے، جس طرح ہانڈی میں پانی کھولتا ہے اس طرح رونے کا ذکر ملتا ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں:
💥1. جب امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمل کریں گے تو دیکھو گے کہ ساری ساری رات عبادت میں بیت جاتی ہے۔ پاﺅں پر ورم آجاتا ہے۔ حد یہاں تک ہو جاتی ہے کہ خود ربِ کائنات کو کہنا پڑتا ہے:
✨ اے مزمل! رات کو قیام کرو، سوا کچھ رات کے آدھی رات یا اس سے بھی کم۔
(سورة المزمل: 1تا 3)
✨ میرے آقا علیہ الصلوة والسلام جب رات کو عبادت کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو گھنٹوں ایک ایک رکعت میں کھڑے رہتے ہیں اور جب سجدے میں جاتے ہیں تو سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ روح مبارکہ پرواز کر گئی ہے۔
✨ جب سخاوت کی طرف آتے ہیں ہاتھ عطا فرمانے سے رُکتے ہی نہیں یہاں تک کہ اپنی قمیض بھی اُتار کر سائل کو دے دیتے ہیں۔
✨ ربِ قدوس کو پھر کہنا پڑتا ہے:
ہاتھوں کو اتنا کھلا نہ چھوڑ دو کہ اپنی ضرورت کا بھی خیال نہ رہے۔
(سورة بنی اسرائیل: 29)
✨ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساری رات بے قراری میں گزار دی۔ بار بار کروٹیں بدلتے، بے چینی کی کیفیت نمایاں تھی، ازواجِ مطہرات میں سے کسی نے عرض کیا۔
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!!! کیا وجہ ہے؟؟ آج آپکو ساری رات نیند نہ آئی؟؟؟
ارشاد فرمایا:
ایک کھجور پڑی ہوئی تھی، اُٹھا کر کھالی کہ مبادا ضائع ہو جائے۔ اب فکر لاحق ہے کہ کہیں وہ صدقہ کی نہ ہو۔ اقرب بات یہی ہے کہ وہ صدقہ کی نہ تھی مگر چونکہ آپ کے پاس صدقہ کا مال بھی آتا بس اس خیال نے آپکو بے چین کر دیا۔
✨ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اے میرے صحابہ! اگر لوگ وہ جان لیں جو میں جانتا ہوں تو پھر بہت کم ہنسو گے اور کثرت سے روؤ گے۔
(صحيح البخاری)
💥2. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک چڑیا کو درخت پہ بیٹھا دیکھا تو بولے:
اے چڑیا! تمہارے لئے بشارت ہے تم درخت پر بیٹھتی ہو، پھل کھاتی ہو اور اڑ جاتی ہو نہ کوئی حساب ہے نہ کوئی عذاب، اے کاش! میں بھی تمہارے جیسا ہوتا۔
💥3. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
کاش میں مینڈھا ہوتا اسے موٹا تازہ کر کے اور ذبح کر کے کھا لیا جاتا، مگر انسان نہ ہوتا۔ ایک مرتبہ جب انہوں نے سورۃ طور کی یہ آیت پڑھی:
"ان عذاب ربک لواقع
(بیشک آپ کے رب کا عذاب ہو کر رہنے والا ہے)
تو بہت رونے لگے یہاں تک کہ بیمار پڑ گئے۔
✨ بخاری شریف میں ہے:
عمر رضی اللہ عنہ کہتےہیں:
اللہ کی قسم ! اگر میرے پاس زمین بھر سونا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سامنا کرنے سے پہلے اس کا فدیہ دے کر اس سے نجات کی کوشش کرتا۔
(صحيح البخاری)
💥4. ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے کہا:
(اے کاش میں درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا)۔
💥5. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر پر جاتے تو اتنا روتے کہ داڑھی تر ہو جاتی، آپ سے پوچھا جاتا کہ جنت و جہنم کے ذکر پہ آپ نہیں روتے اس پہ کیوں روتے ہیں ؟
تو وہ جواب دیتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے۔
✨ آخرت کے منازل میں سے قبر پہلی منزل ہے، سو اگر کسی نے قبر کے عذاب سے نجات پائی تو اس کے بعد کے مراحل آسان ہوں گے اور اگر جسے عذابِ قبر سے نجات نہ مل سکی تو اس کے بعد کی منازل سخت تر ہوں گی۔
✨ عثمان رضی اللہ عنہ نے مزید کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
گھبراہٹ اور سختی کے اعتبار سے قبر کی طرح کسی اور منظر کو نہیں دیکھا۔
(صحيح ابن ماجه)
💥6. خلیفہ عادل عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی اہلیہ فاطمہ سے آپ کی عبادت کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ
وہ بہت زیادہ نفلی عبادات اور نفلی روزے نہیں رکھا کرتے تھے لیکن ان سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا کسی کو نہیں دیکھا جب وہ بستر پر اللہ کو یاد کرتے تو اس کے خوف سے اس طرح کانپتے جس طرح شدتِ خوف سے پرندہ پھڑپھڑاتا ہے۔
(شذا الرياحين من أخبار الصالحين)
💥7. حضرت حسن بصری، زہد و تقوی، عبادت و ریاضت و مجاہدہ میں جو ان کا حال تھا ان سے کون نا واقف ہے۔ ہمیشہ روتے رہتے تھے۔ لوگ پوچھتے تو کہتے کہ معاملہ ایسے سے پڑا ہے جسے کسی کی کوئی پرواہ نہیں۔ کون جانے کہ کل میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
✨ یوسف بن اسباط جیسے آدمی کا بیان ہے کہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کو مسلسل تیس سال سے کسی نے ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور چالیس سال سے کسی کے ساتھ مذاق نہیں کیا۔
(صفوۃ ج ۳صفحہ ۱۰۷)
✨ حسن بصری اور عمر بن عبدالعزیز کے خوف کو دیکھ کر یزید بن حوشب کہا کرتے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جہنم کے لئے حسن بصری اور عمر بن عبدالعزیز کے سوا اور کوئی پیدا ہی نہیں ہوا ہے۔
(صفوۃج ۳ صفحہ ۱۰۷)