: 🌹 اللہ کا ڈر حاصل کرنے کے اسباب:


💥1. اخلاص سے علم حاصل کرنا:

✨اللہ تعالی کا فرمان ہے:
للہ سے ڈرنے والے علم والے لوگ ہیں۔
*(سورة فاطر:28) *

علامہ ابن القیم نے لکھا ہے کہ بندے کو رب کی جس قدر معرفت ہو گی اسی قدر اس سے ڈرنے والا ہو گا اور ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ سے ڈرنے کے لئے علم کافی ہے، خوف کی کمی، بندوں کا رب کی معرفت میں کمی کی وجہ سے ہے۔ آج علم والوں کی کمی نہیں، کمی ہے تو اللہ سے ڈرنے والوں کی۔
کیا وجہ ہے کہ علم والے اللہ سے بے خوف ہو گئے جبکہ انہیں اللہ سے ڈرنا چاہئے تھا؟؟؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اخلاص سے علم حاصل نہیں کیا، علم کو دنیا طلبی اور شہرت کا ذریعہ بنا لیا اس لئے اللہ سے بے خوف ہو گئے۔


💥2. تدبر کے ساتھ قرآن کی تلاوت:

✨اللہ کا فرمان ہے:
ان کے سامنے جب رحمٰن کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی تھی تو یہ سجدہ کرتے اور روتے گڑگڑاتے، گر پڑتے تھے۔
(سورة مريم: 58)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے، یحییٰ نے بیان کیا کہ حدیث کا کچھ حصہ عمرو بن مرہ سے ہے ( بواسطہ ابراہیم) کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔
میں نے عرض کیا:
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میں پڑھ کے سناؤں؟؟؟
وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہی نازل ہوتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کہ میں دوسرے سے سننا چاہتا ہوں۔
چنانچہ میں نے آپ کو سورۃ نساء سنانی شروع کی، جب میں فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید وجئنا بک علی ھولاء شھیدا پر پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھہر جاؤ۔ میں نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
(بخاری)

💥3. اللہ کا ذکر اور ان مومنوں کا حال معلوم کریں جو اللہ سے ڈرنے والے تھے کہ کیسے اس درجہ ایمان پر فائز ہوئے ؟

✨اللہ کا فرمان ہے:
بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالی کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں۔
(سورة الانفال:2)

✨ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرشِ الہی کے مستحق سات سایہ دار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
اور ایک وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا پس اس کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔
(صحيح البخاری)

اللہ سے ڈرنے والے مومن اللہ کا ذکر کرنے والے، مضبوط ایمان والے، متقی وپرہیزگار، دن میں روزہ رکھنے والے، رات میں قیام کرنے والے اور طاعت و بھلائی کے کاموں میں سبقت لےجانے والے لوگ تھے۔

✨ اللہ کا فرمان ہے:
یہ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف سے پکارا کرتے تھے اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے۔
(سورة الانبياء:90)


💥4. معاصیات (گناہوں) کا ارتکاب انسان کو اللہ سے بے خوف کر دیتا ہے:

اس لئے گناہوں سے توبہ، معصیت و نافرمانی سے اجتناب اور فسق و فجور سے دوری اللہ کی محبت، رضا، خوف اور قربت کا ذریعہ ہے۔


💥5. عذاب کی آیات پہ غور و فکر کرنا:

جہنم اور اس کی ہولناکی کی فکر کرتے ہوئے جہنم میں لے جانے والے اسباب سے پرہیز کیا جائے۔


💥6. ظالموں کا حال جاننا:

ان ظالموں اور نافرمانوں کا حال جاننا جنہوں نے اللہ سے بے خوف ہو کر دنیا میں ظلم و فساد کیا تو اللہ نے ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟

✨ اللہ کا فرمان ہے:
اور ان سے پہلے بھی ہم بہت سی امتوں کو ہلاک کر چکے ہیں جو ان سے طاقت میں بہت زیادہ تھیں، وہ شہروں میں ڈھونڈتے ہی رہ گئے کہ کوئی بھاگنے کا ٹھکانا ہے؟؟؟
(سورة ق:36)

💥7. قیامت کی ہولناک گھڑی یاد کریں:

جب سارے لوگ نفسا نفسی کے عالم میں ہوں گے اور اس دن کی ہولناکی سے سب کے ہوش اڑ گئے ہوں گے۔

✨اللہ تعالی نے اس کی منظر کشی کی ہے:
لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بہت ہی بڑی چیز ہے۔ جس دن تم اسے دیکھ لو گے کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھول جائے گی اور تمام حمل والیوں کے حمل گر جائیں گے اور تو دیکھے گا کہ لوگ مدہوش دکھائی دیں گے حالانکہ درحقیقت وہ متوالے نہ ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب ہی بڑا سخت ہے۔
(سورةالحج :1،2)


💥8. نصیحت آموز سچے واقعات:

نصیحت آموز سچے واقعات اور دلوں کو موم کرنے والے وعظ و نصیحت سے پر بیانات سنیں اس سے دل نرم ہوتا ہے اور اللہ کا خوف پیدا ہوتا ہے۔

✨ عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن ہمیں صلاۃ فجر کے بعد ایک مؤثر نصیحت فرمائی۔ جس سے لوگوں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں اور دل لرز گئے۔
(صحيح الترمذی)


▪ ان طریقوں سے ہم اللہ کا ڈر اپنے دل میں پیدا کر سکتے ہیں، اور ہمارے لئے ضروری بھی ہے کہ اللہ کا خوف اپنے میں پیدا کریں تاکہ اس کے دین پر صحیح سے چل سکیں، فرائض و واجبات میں کوتاہی کرنے پر دل بے چین ہو سکے اور محرمات کے قریب جاتے وقت خوفِ الہی روک دے۔
عموماً خوف و خشیت ہی نیک کاموں کی بجا آوری اور برے کاموں سے اجتناب کی بڑی وجہ بنتی ہے۔ جو اللہ سے ڈرے گا پھر اسے کسی کا ڈر نہیں ہو گا۔
اللہ سے ڈرنا تکمیل ایمان اور حسنِ اسلام کی دلیل ہے۔
اللہ سے ڈرنے سے دل میں نرمی، پاکیزگی، الفت و محبت پیدا ہوتی ہے اور اوصاف رذیلہ مثلاً تکبر، بغض و عناد، سرکشی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ خوف رحمٰن کا سب سے بڑا فائدہ آخرت میں ملے گا کہ ایسے بندوں کو اللہ تعالی امن نصیب کرے گا اور جہنم سے نجات دے کر جنت میں داخل کرے گا۔


🌹 متقی کیسے بنیں؟


اس کا جواب بہت آسان ہے کہ:
متقیوں کی جو صفات اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بیان فرمائی ہیں وہ صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔

چوبیس گھنٹے ہر لمحہ ہمارے دل و دماغ میں یہ رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے، اور اسے ہمیں اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب دینا ہے، خواہ ہم مسجدِ حرام میں بیت اللہ کے سامنے ہوں یا گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ، بازار میں ہوں یا چوپال میں لوگوں کے ساتھ۔ دارالحدیث کی مسند پر بیٹھ کر بخاری جیسی حدیث کی مستند کتاب پڑھا رہے ہوں یا کسی کالج میں سائنس کی تعلیم دے رہے ہوں۔ مسجد کے محراب میں بیٹھ کر قرآنِ کریم کی تلاوت کر رہے ہوں یا کسی یونیورسٹی میں حساب (Math) کی تعلیم حاصل کر رہے ہوں۔ یہی دنیاوی زندگی، ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کا پہلا اور آخری موقع ہے،

کسی بھی وقت موت کا فرشتہ ہماری روح ہمارے جسم سے جدا کر سکتا ہے۔ مرنے کے بعد خون کے آنسو کے سمندر بہانے کے بجائے ابھی اللہ تعالیٰ کے سامنے سچی توبہ کر کے گناہوں سے بچیں اور قیامت تک آنے والے انس و جن کے نبی کے طریقہ پر اللہ کے حکموں کو بجا لائیں۔ اگر ہم اس قیمتی موتی سے آراستہ ہو گئے تو سب سے زیادہ برے ٹھکانے سے محفوظ رہ کر خالقِ کائنات کے مہمان خانہ میں ہمیشہ ہمیشہ چین و سکون و راحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ایسی ایسی نعمتوں سے سرفراز ہوں گے کہ جن کے متعلق ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔


◼ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پوچھا گیا کہ
کون سی چیز سب سے زیادہ جنت میں لے جانے والی ہے؟؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وہ تقویٰ (پرہیزگاری) اور اچھے اخلاق ہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سی چیز سب سے زیادہ جہنم میں لے جانے والی ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: منہ اور شرمگاہ۔
(ابن ماجہ)

منہ سے مراد حرام مال کھانا، دوسروں کی غیبت کرنا، چھوٹ بولنا وغیرہ وغیرہ۔ شرمگاہ سے مراد زنا اور اس کے لوازمات۔ غرضیکہ عموماً تقویٰ تین امور سے حاصل ہوتا ہے:

⚡1. احکام الٰہی پر عمل کرنا اور برائیوں سے بچنا۔
⚡2. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنا اور مکروہ چیزوں سے اپنی حفاظت کرنا۔
⚡3. شک وشبہ والے امور سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا اور بعض جائز کاموں کو بھی ترک کرنا۔

جیسا کہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
کوئی شخص اُس وقت تک متقیوں میں شامل نہیں ہو سکتا جب تک وہ بعض جائز چیزیں نہ چھوڑ دے، جن میں کوئی حرج نہیں ہے، ان چیزوں سے بچنے کے لئے جن میں حرج ہے۔
(ترمذی، ابن ماجہ، حاکم، بیہقی)