🌹 عہد(وعدہ) کی تعریف:


لغت میں اچھی چیز کی امید دلانے یا بری چیز سے ڈرانے ان دونوں کو عہد کہا جاتا ہے۔
اصطلاح میں کسی چیز کی امید دلانے کو عہد کہتے ہیں۔

✨ عہد یعنی وعدہ یہ ہے کہ کسی سے باقاعدہ وعدے کے طور پر طے کیا کہ فُلاں کام کروں گا یا فُلاں کام نہیں کروں گا۔

اگر لفظ وعدہ نہ کہا مگر انداز و الفاظ کے ذریعے اپنی بات کو مُؤَکَّد کیا یعنی اس بات کی تاکید ظاہر کی تب بھی وعدہ ہے۔

▪ مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:

وَعدہ سے مراد جائز وَعدہ ہے۔ وعدہ کا پورا کرنا ضروری ہے۔ مسلمان سے وَعدہ کرو یا کافر سے، عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے، اُستاذ، شیخ، نبی، اللہ سے کیے ہوئے تمام وعدے پورے کرو۔ ہاں! اگر کسی سے حرام کام کا وعدہ کیا ہے اُسے ہر گز پورا نہ کرے حتّٰی کہ حرام کام کی نذر پوری کرنا (بھی) حرام ہے۔



▪ عام طور پر لوگ عہد کے معنی صرف قول و قرار کو سمجھتے ہیں۔ اسلام میں اس کے معنی بہت وسیع ہیں۔ یہ حقوق ﷲ، حقوق العباد، معاشرت، تجارت، اخلاق و معاملات کی ان تمام صورتوں کو محیط (گھیرے ہوئے) ہے جس کی پابندی انسان پر عقلا، شرعا، اخلاقاً فرض ہے۔

▪ امام قرطبی الجامع الاحکام القرآن میں فرماتے ہیں۔
امانت و عہد دینی و دنیاوی معاملے پر حاوی ہے۔ چاہے وہ قولی ہو یا فعلی اور جس کا پابند اور متحمل ہو۔

▪ حضور پرنُور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
ایفائے عہد( وعدہ پورا کرنے) کی نیت ہو اور آدمی وعدہ پورا نہ کر سکے تو یہ وعدہ خلافی نہیں ہے۔ ہاں خلف وعدہ (وعدہ خلافی) یہ ہے کہ آدمی وعدہ کرے اور ایفائے عہد (وعدہ پورا کرنے) کی نیت نہ ہو۔
(مولف کنزالعمال )

▪ عہد شکنی نفاق کی علامت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عہد شکنی کو نفاق کی خصلتوں میں شمار کیا ہے اور وعدہ خلاف شخص کو منافق قرار دیا ہے۔


▪ ﷲ وعدہ خلافی نہیں کرتا اور انبیاء کرام کی صفت بھی وعدہ پورا کرنے والی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وعدہ خلافی کس قدر مذموم بات ہے۔ یہ نیت کی بد دیانتی کا اور جھوٹی نیت کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ آدمی گناہگار اس وقت ہے جب وعدہ یا عہد کرتے وقت اس کی نیت ہی وفا کی نہ ہو یا بعد میں وفا کی نیت پر قائم نہ رہے۔ اگر نیت وعدہ وفا کرنے کی ہے مگر حالات کے ہاتھوں بےاختیار ہو نے کی وجہ سے وعدہ وفا نہ کر سکا تو اس پر مؤاخذہ نہیں۔

▪وعدہ خلافی ایک اخلاقی جرم ہے۔ اس پر کوئی سزا حداً بیان نہیں ہوئی، تاہم معاملے کی نوعیت کے مطابق قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے اور تعزیرا سزا بھی ہو سکتی ہے۔

▪جو شخص اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر وعدہ کرتا ہے اور پھر پورا نہیں کر پاتا تو یہ اللہ اور بندے کا معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے، مالک کی مرضی معاف کرے یا نہ کرے۔

▪ وعدہ کی پابندی اور ایفائے عہد کا یہی سبق آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے آپ کے رفقاء نے پڑھا اور اپنی عملی زندگی میں اسے برت کر دکھایا۔
چنانچہ حضرت عبدالله بن عمرؓ کی وفات کا وقت آیا تو فرمایا: کہ قریش کے ایک شخص نے میری بیٹی کے لیے نکاح کا پیغام دیا تھا اور میں نے اس سے کچھ ایسی بات کہی تھی جو وعدہ سے ملتی جلتی ہے تو میں ایک تہائی نفاق یعنی نفاق کی تین میں سے ایک علامت کے ساتھ الله سے ملنا نہیں چاہتا، اس لیے میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا۔
( احیاء العلوم)