🌹 عہد (وعدہ) کی اقسام:



⚡وعدہ کی تین اقسام ہیں:

✨1. انسان کا اللہ سے وعدہ
✨2. انسان کا انسان سے وعدہ
✨3. مسلمان کا دوسری قوموں سے وعدہ


💥 1. انسان کا اللہ سے وعدہ:

ایک عہد وہ ہے جو انسان نے اللہ کے ساتھ کیا ہوا ہے اور وہ ہے اس کی ربوبیت و الوہیت کا عہد، کہ یا اللہ! رب بھی تو ہے اور الٰہ (معبود) بھی تو ہے۔ تیرے سوا کوئی رب ہے، نہ تیرے سوا کوئی معبود اور حاجت روا۔ یہ عہد الست کہلاتا ہے۔

▪اس عہد کی رو سے ہر انسان اس بات کا پابند ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرے اور اسی کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرے، نہ اس کی عبادت میں کسی کو شریک کرے، نہ اس کی اطاعت میں۔
اللہ نے اسی کی یاد دہانی کے لیے انبیاء و رسل کا سلسلہ قائم کیا جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک جاری رہا۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت کا خاتمہ فرما دیا گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اللہ کی توحید و اطاعت کی طرف بلانے والے علماء اور داعیان کی ایک بہت بڑی جماعت ہے۔ جو پوری دنیا میں دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے اور قیامت تک دیتی رہے گی۔


💥 2. انسان کا انسان سے وعدہ:

ایک عہد وہ ہے جو انسان ایک دوسرے انسان کے ساتھ کرتے ہیں۔ جسے قول و قرار کہا جاتا ہے۔ اس عہد کا پورا کرنا بھی ضروری ہے اس لیے کہ عہد کو پورا نہ کرنا منافق کی علامات میں سے ہے۔


💥 3. مسلمان کا دوسری قوموں سے وعدہ:

عہد کی ایک تیسری قسم وہ ہے جو مسلمان دوسری قوموں سے کریں جنہیں بین الاقوامی معاہدے کہا جاتا ہے۔ ان معاہدوں کی پاسداری بھی ضروری ہے۔ یہ سمجھنا کہ کافر تو اللہ کے نافرمان ہیں۔ ان سے کیے ہوئے معاہدے کیوں پورے کریں، صحیح نہیں۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن کافروں سے معاہدے کیے وہ ان پر قائم رہے تو مسلمانوں کو بھی ان سے کیے گئے معاہدے کی پاسداری کی تاکید کی گئی ہے۔ جس کی تفصیل سورہ براة کے شروع میں ہے۔


💫 معاہدے کی ایک چوتھی قسم بھی ہے جسے فطری معاہدہ کہا جا سکتا ہے۔ جس کا انسان پابند ہے کہ والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، بیوی بچے ہیں تو ان کے حقوق ادا کرے۔ دوست، احباب اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔ یہ فطری فرائض ہیں جن کی ادائیگی ضروری ہے اور ان میں کوتاہی جرم ہے۔
ان فرائض کو فطری عہد سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ان کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔





: 🔥 وعدہ خلافی کے نقصانات:

💫1. وعدہ خلافی نفاق کی علامت اور منافقین کی صفت ہے۔

💫2. وعدہ خلاف انسان کا اعتماد دلوں سے اٹھ جاتا ہے۔

💫3. وعدہ خلاف اللہ تعالیٰ کی نظر میں مبغوض اور قابلِ نفرت ہے۔

💫4. وعدہ خلاف شخص دوسروں کو نقصان دینے کی بجائے حقیقت میں خود کو نقصان دیتا ہے۔



💫5. جس معاشرہ میں وعدہ خلافی عام ہو جائے اس معاشرہ میں بغض اور فساد عام ہو جاتا ہے۔:

🔥 عہد کو پورا کرنے کے طریقے:


ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں ترقی کرنے کے لیے ایک دوسرے کا اعتماد حاصل کرنا ضروری ہے کیوں کہ ایک دوسرے کی معاونت کے بغیر دنیا میں ایک قدم بھی آگے بڑھانا بے حد مشکل ہے۔

اس معاونت میں مضبوطی پیدا کرنے کے لیے یقین دہانی کی قدم قدم پر ضرورت پڑتی ہے اور اس يقین دہانی کا ایک ذریعہ وعدہ بھی ہے۔ وعدہ پورا کرنے کیلیے ان باتوں کو مدِنظر رکھنا چاہیے۔

🌈 1. وعدہ پورا کرنے کے فضائل پیش نظر رکھنا:

وعده پورا کرنے کے بہت سے فضائل ہیں، لہذا جتنی روایات ذہن نشین ہوں گی اتنا ہی ان پر عمل آسان ہو گا۔

🌈2. وعدہ خلافی کے دنیوی و اخروی نقصانات پر غور کرنا:

▪وعدہ خِلافی مُنافَقت کی علامت،
▪ اللہ کی ناراضی کا سبب
▪دُنیا میں دُشمنوں کا تسلُّط اور
▪عزّت و وقار کی بربادی جیسی مصیبتوں اور پریشانیوں کا باعِث ہے۔
▪وعدہ خِلافی اِس قدَر آفتوں اور مصیبتوں کا سبب ہے کہ اِس میں مُبتلا ہو کر آدمی اپنی دنیا و آخرت برباد کرتا چلا جاتا اور اپنا وقار کھو بیٹھتا ہے۔

▪ پھر وعدہ خلاف انسان کی بات قابلِ اعتماد ہوتی ہے نہ وعدہ، جس کی وجہ سے وہ دُنیا میں تو رُسوا ہوتا ہی ہے، آخِرت میں بھی طرح طرح کی سزائیں پائے گا۔



🌈3. وعدہ خلافی سے بچنے کے لیے محتاط جملے بولنا:

وعدہ خِلافی گناہ ہے لہٰذا اس سے بچنے کی ترکیب یوں بھی بنائی جا سکتی ہے مثلاً

▪درذی وعدہ نہ کرے بلکہ یوں کہے:
میرا اِراد ہ تو ہے کہ کل تک کپڑے آپ کو دے دوں، لیکن وعدہ نہیں کرتا، ہو سکتا ہے اِس میں کوتاہی ہو جائے۔

▪ کسی بھی معاملے میں صحیح عُذر بتا دینے میں بھی کوئی مُضائقہ نہیں،

▪اسی طرح جن کا لین دین کا کام ہے، اُنہیں بھی چاہیے کسی کو کوئی چیز پہنچانے وغیرہ کا یقینی وقت
(Confirm Time)
نہ دیں۔

▪کوشِش کر کے یوں ترکیب بنائیں، جیسے (اگر واقعی اِرادہ کسی کو کوئی چیز پہنچانے کا ہے تو یوں کہہ سکتے ہیں) میرا اِرادہ تو ہے کہ میں آپ کو وقت پر چیز دے دوں یا فُلاں وقت تک پہنچا دوں، لیکن اگر دیر ہو جائے تو مہربانی کر کے ناراض نہ ہونا، فُلاں وقت تک دینے کی اُمّید بھی ہے مگر وعدہ اِس لئے نہیں کرتا کہ کہیں گناہ گار نہ ہو جاؤں۔

▪ اِس طرح حسبِ نیت و حَسبِ حال کوئی نہ کوئی بچت کا پہلو رکھنا چاہئے تاکہ گناہ اور رُسوائی دونوں سے بچ سکیں۔

▪ورنہ بعض اَوقات بندہ وعدہ وَفائی کا دَعویٰ بھی کرتا ہے لیکن جب سُستیاں اور لاپرواہیاں آڑے آتی ہیں یا دیگر مجبوریاں اور اعذار وعدہ پورا کرنے میں رُکاوٹ بنتے ہیں تو پھر وعدہ خِلافی اور اُس پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

▪لہٰذا عزْم بالجَزْم (بالکل پختہ اِرادہ) کی بجائے نیک نِیَّتی کے ساتھ بچت کا پہلو نکال کر وعدہ خِلافی سے بچتے ہوئے دنیا و آخرت میں اپنے آپ کو رُسوائی سے محفوظ رکھنے کی کوشِش کیجئے۔

🌈4. یقینی وقت نہ دینا:

کسی سے آئندہ کا مُعاملہ طے کرتے ہوئے یقینی وقت
(Confirm Time)
مت دیجیے، بلکہ یوں کہہ دیاجائے:
میں تقریباً فلاں وَقت تک پہنچنے کی کوشِش کروں گا۔

▪حضرتِ سَیِّدُنا امام ابو حامد محمد بن محمد بن محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کسی سے وعدہ کرتے تو لفظِ عَسٰی (یعنی شاید) استعمال فرماتے۔