: 🌹 امام الانبیاء اور صحابہ کرام کی زندگی سے عہد کی چند مثالیں:



حضورِ اکرم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں سے ایفائے عہد کے بے شمار واقعات کی مثالیں ملتی ہیں۔

💥1. رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے تو کیا، اپنے دشمنوں سے کیے گئے وعدے بھی پورے فرماتے تھے۔ چاہے ایسا کرنے میں نقصان کا اندیشہ ہی کیوں نہ ہوتا۔

جس وقت غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی تعداد کافروں کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ اس موقع پر دو صحابی رسول حضرت حذیفہ بن الیمانؓ اور ابوجبلؓ کفار کے ہاتھ لگ گئے۔ اس وقت مسلمانوں کو ایک ایک آدمی کی ضرورت تھی کیونکہ مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ کفار نے ان دونوں کو اس شرط پر رہا کیا کہ وہ کفار کے خلاف مسلمانوں کے لشکر میں شامل ہو کر جنگ میں شریک نہ ہوں گے۔

انہوں نے واپس آ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں سارا واقعہ سنا دیا۔ اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے یہ عہد مجبوری کی حالت میں کیا تھا۔ ہم کفار کے خلاف ضرور لڑیں گے۔

تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ہر گز نہیں تم اپنا وعدہ پورا کرو اور لڑائی کے میدان سے واپس چلے جاؤ، ہم مسلمان ہر حال میں وعدہ پورا کریں گے۔ہمیں صرف خدا کی مدد کی ضرورت ہے۔

💥2. آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی امانت اور ایفائے عہد کا ایک اور واقعہ یہ ہے کہ عبدﷲ بن ابی الحمساء ایک صحابی ہیں، ان کا بیان ہے کہ بعثت سے پہلے میں نے آنحضرت صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کیا، پھر جو کچھ میں نے دینا تھا اس کا کچھ حصہ تو میں نے وہیں دے دیا اور کچھ ادا کرنا باقی رہ گیا، تو میں نے آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے وعدہ کر لیا کہ میں اسی جگہ لے کر آتا ہوں۔

اتفاق سے تین دن تک مجھے اپنا وعدہ یاد نہ آیا، تیسرے دن جب وعدہ گاہ پر پہنچا تو آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اسی جگہ منتظر پایا، لیکن اس وعدہ خلافی سے آپ کی پیشانی پر بل تک نہ آیا، صرف اس قدر فرمایا کہ
تم نے مجھے مشکل میں ڈالا اور زحمت دی، تین دن سے میں اسی مقام پر موجود ہوں۔
(ابوداؤد)

💥3. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ سے ایفائے عہد کا ایک خوبصورت واقعہ یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جو شرائط طے پائی تھیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ
اگر کوئی مسلمان مکہ مکرمہ سے بھاگ کر مدینہ منور آ جائے تو اسے مدینہ منورہ والوں نے واپس کرنا ہو گا۔

صلح کے بعد مکہ سے ایک نوجوان مسلمان حضرت ابوجندلؓ اس حالت میں بھاگ کر آئے کہ ان کے پاؤں زنجیروں سے بندھے ہوئے تھے۔ انہوں نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے التجا کی کہ مجھے اپنے ہمراہ لے چلیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو وعدہ کر چکے تھے۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پورا کیا اور انہیں قریش کے حوالے کر دیا۔

اس منظر کو دیکھ کر صحابہ کرام ؓ رونے لگے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاہدے کی خلاف ورزی گوارہ نہیں کی۔


💥4. ایک دن حضرت عمرِ فاروقؓ کا دربارِ خلافت سرگرم انصاف و عدل تھا۔ اکابر صحابہ کرامؓ موجود تھے۔ اچانک ایک شخص کو دو نوجوان پکڑے ہوئے لائے اور فریاد کی۔
اس ظالم سے ہمارا حق دلوائیے اس لئے کہ اس نے ہمارے بوڑھے باپ کو مار ڈالا ہے۔

حضرت عمر فاروقؓ نے اس نوجوان کی طرف دیکھ کر فرمایا:
ہاں دونوں کا دعویٰ تو سن چکا۔ اب بتا تیرا کیا جواب ہے ؟
اس نوجوان نے نہایت ہی فصاحت و بلاغت سے پورا واقعہ بیان کیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہاں مجھ سے یہ جرم ضرور ہوا ہے اور میں نے طیش میں آ کر ایک پتھر کھینچ مارا جس کی ضرب سے ان کا بوڑھا باپ مر گیا۔

حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا:
تجھے اعتراف ہے تو اب قصاص کا عمل لازمی ہو گیا اور اسکے عوض تجھے اپنی جان دینی ہو گی۔
جوان نے سر جھکا کر عرض کیا:
مجھے شریعت کا فتویٰ ماننے میں کوئی عذر نہیں لیکن ایک درخواست ہے۔

آپؓ نے فرمایا! کیا درخواست ہے؟؟؟
اس شخص نے عرض کیا! ''میرا ایک چھوٹا نابالغ بھائی ہے۔ جس کے لئے والد مرحوم نے کچھ سونا میرے سپرد کیا تھا کہ وہ بالغ ہو تو اس کے سپرد کروں میں نے اس سونے کو ایک جگہ زمین میں دفن کر دیا اور اس کا حال سوائے میرے کسی کو معلوم نہیں۔ اگر وہ سونا اس کو نہ پہنچا تو قیامت کے دن میں ذمہ دار ہوں گا۔ اس لئے اتنا چاہتا ہوں کہ تین دن کے لئے مجھے ضمانت پر چھوڑ دیا جائے۔

حضرت عمرؓ نے ذرا غور فرمایا اور پھر ارشاد کیا:
اچھا کون ضمانت کرتا ہے کہ تین دن کے بعد تکمیل قصاص کے لئے تو واپس آجائے گا۔
اس ارشاد پر اس شخص نے چاروں طرف دیکھا اور حاضرین کے چہروں پر ایک نظر ڈال کر حضرت ابو ذر غفاریؓ کی طرف اشارہ کر کے عرض کیا یہ میری ضمانت دیں گے۔

حضرت عمرؓ نے پوچھا:
اے ابوذر! کیا تم اس کی ضمانت دیتے ہو۔
حضرت ابوذرؓ نے فرمایا:
بے شک اس کی میں ضمانت دیتا ہوں کہ یہ نوجوان تین دن بعد تکمیلِ قصاص کے لئے آپؓ کے پاس حاضر ہو جائے گا۔

یہ ایسے جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضمانت تھی کہ حضرت عمرؓ بھی راضی ہو گئے۔ ان دونوں مدعی نوجوانوں نے بھی اپنی رضامندی ظاہر کی اور وہ شخص چھوڑ دیا گیا۔

جب تیسرا دن آیا۔ تمام جلیل القدر صحابہؓ جمع ہوئے۔ وہ دونوں نوعمر مدعی اور حضرت ابو ذرغفاریؓ بھی تشریف لے آئے۔ مجرم کا انتظار ہونے لگا، وقت گزرتا جا رہا تھا۔ صحابہ کرامؓ میں حضرت ابوذرؓ! کی نسبت تشویش پیدا ہو گئی۔ دونوں نوجوانوں نے بڑھ کر کہا۔
اے ابو ذرؓ! ہمارا مجرم کہاں ہے؟؟؟
آپؓ نے کمالِ استقلال اور ثابت قدمی سے ان کو جواب دیا کہ
اگر تیسرے دن کا وقت مقرر گزر گیا اور وہ نہ آیا تو اللہ کی قسم! میں اپنی ضمانت پوری کروں گا۔

حضرت عمرفاروقؓ نے فرمایا:
اگر وہ نہ آیا تو حضرت ابوذرؓ کی نسبت وہی کاروائی کی جائے گی جوشریعتِ اسلامی کا تقاضا ہے۔


: یہ سنتے ہی صحابہ کرام ؓ میں تشویش پیدا ہو گئی۔ بعض کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے۔ لوگوں نے مدعیوں سے کہنا شروع کیا کہ
تم خوں بہا قبول کر لو۔
ان نوجوانوں نے قطعی انکار کیا کہ ہم خون کے بدلے خون ہی چاہتے ہیں۔

لوگ اسی پریشانی میں تھے کہ ناگہاں وہ مجرم نمودار ہوا۔ حالت یہ کہ پسینے میں ڈوبا ہوا اور سانس پھولی ہوئی تھی۔ وہ آتے ہی خلیفہؓ کے سامنے آیا۔
سلام کیا اور عرض کیا۔
میں اس بچے کو اس کے ماموں کے سپرد کر آیا ہوں اور اسی کی جائیداد بھی انہیں بتا دی ہے۔ اب آپؓ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم بجا لائیں۔

حضرت ابو ذر غفاریؓ نے عرض کیا:
اللہ کی قسم! میں جانتا بھی نہ تھا کہ یہ کون اور کہاں کا رہنے والا ہے؟ نہ اس روز سے پہلے کبھی اس کی صورت دیکھی مگر سب کو چھوڑ کر مجھے اس نے اپنا ضامن بنایا تو مجھے انکار مروت کے خلاف معلوم ہوا اور اسکے اعتماد نے یقین دلایا کہ یہ شخص عہد میں سچا ہو گا اس لیے میں نے اس کی ضمانت قبول کر لی تھی۔

اس کے آپہنچنے سے حاضرین میں ایسا غیر معمولی جوش پیدا ہو گیا کہ دونوں مدعی نوجوانوں نے خوشی میں آکر عرض کیا۔
ہم نے اپنے باپ کاخون معاف کر دیا۔

حاضرین مجلس نے نعرہ بلند کیا اور حضرت عمرفاروقؓ کا چہرہ مسرت سے چمکنے لگا اور فرمایا۔
تمہارے باپ کا خون بہا میں بیت المال سے ادا کروں گا اور تم اپنی اسی نیک نفسی کے ساتھ فائدہ اٹھاؤ گے۔
انہوں نے عرض کیا، ہم اس حق کو خالص اللہ رب العالمین کی رضا و خوشنودی کے لئے معاف کر چکے ہیں لہٰذا اب ہمیں کچھ لینے کاحق نہیں اور نہ ہی لیں گے۔

💥5. مورخین نے نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مبارک بیان کرتے ہیں میرا ایک جہاد میں ایک مجوسی سے مقابلہ ہو رہا تھا کہ نماز کا وقت آ پہنچا، میں نے مجوسی سے عہد کیا کہ جب تک میں نماز سے فارغ نہیں ہو جاتا تُو مجھ پر حملہ نہیں کرے گا۔ چنانچہ اس نے وعدے پر عمل کیا یہاں تک کہ میں نے نماز مکمل کی، جب سورج غروب ہونے لگا تو اس نے کہا اب تُو بھی مجھے میری عبادت کا موقع دے یہاں تک کہ میں سورج کو سجدہ کر لوں، آپ نے عہد کر لیا مگر جب وہ سورج کو سجدہ کرنے لگا تو آپ نے اسے شرک کرتے برداشت نہ کیا اور اس پر حملہ آور ہونے لگے،

ضمیر نے آواز دیاوفو ا بالعقود اپنے عہد کو پورا کرو۔
آپ یہ آواز سنتے ہی واپس پلٹے ، مجوسی نے فراغت کے بعد آپ سے پوچھا! عبداللہ بن مبارک آپ تو مجھ پر حملہ کرنے والے تھے پھر کس چیز نے آپ کو واپس پلٹنے پر مجبور کر دیا۔
آپ نے فرمایا: جب تُو آفتاب کے سامنے سجدہ ریز ہوا تو میری غیرت نے گوارہ نہ کیا، میں نے تجھے قتل کرنا چاہا مگر ضمیر نے پُکارا جب تم عہد کرو تو پورا کرو۔

مجوسی یہ سن کر بولا کہ آپ کا رب کتنا اچھا ہے کہ اپنے دوست پر اپنے دشمن کے لئے تنبیہہ فرماتا ہے۔ یہ کہا اور پُکار اٹھا۔
اشھد ان لا الہ الا للہ واشھد ان محمد رسول اللہ
اور حلقۂ اسلام میں داخل ہو گیا۔