🌹 صبر کی اہمیت قرآنِ مجید میں:


اللہ تعالیٰ نے صبر کا مطالبہ اس لیے کیا ہے کہ حق اس دنیا میں موجود رہے، اگر حق پر رہنے والے لوگ معدوم ہو جائیں تو پھر حق کہاں سے ملے گا۔ اس طرح ایک فرد کی زندگی میں بھی حق کی بقا اسی میں ہے کہ وہ حق پر قائم رہنے کے لیے ثابت قدمی دکھائے۔
آثارِ صحابہ میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ لا ایمان لہ لمن لا صبر لہ
اس کا ایمان ہی نہیں جس کے پاس صبر نہیں۔
یعنی جو آدمی صبر نہیں کر سکتا اس کا ایمان جاتا رہے گا۔ وہ صبر کی صفت نہ ہونے کے سبب سے اس بات سے محروم ہوتا ہے کہ وہ مشکل گھڑی میں ایمان کو قائم رکھ سکے، وہ تھڑ دلوں کی طرح پل میں تولہ اور پل میں ماشہ ہوتا رہتا ہے۔ ایسے آدمی کی تصویر قرآن نے یوں کھینچی ہے:

🍀 پر اس انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کا خدا امتحان کرتا پھر اسے عزت و نعمت بخشتا ہے تو وہ خیال کرتا ہے کہ میرے رب نے میری شان بڑھائی اور جب وہ اسے جانچتا پھر (اس غرض سے) رزق میں تنگی کرتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کر ڈالا۔
(سورةالفجر: 15 تا 16)

🍀 انسان کی گھٹی میں بے صبری پڑی ہے، جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ گھبرانے لگ جاتا ہے اور جب فراخی حاصل ہوتی ہے تو بخیل بن جاتا ہے۔
(سورةالمعارج: 19 تا 21)

✨اسلیئے قرآنِ پاک میں صبر کی تلقین کی گئی:

🍀 اور صبر کرو، اور تمھیں اللہ کے بغیر صبر حاصل نہیں ہو سکتا۔ تم نہ ان پر غم کرو، اور نہ جو یہ چالیں چلتے ہیں، ان سے پریشانی میں مبتلا ہو۔ اس لیے کہ اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا اور وہ محسن بھی ہیں۔
(سورةالنحل: 127 تا 128)

🍀اور ثابت قدم رہو، اللہ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
(سورة ہود: 115)

🍀 آج میں نے ان کو ان کے صبر کا بدلہ دیا ہے۔ اور آج یہ فائزالمرام (کامیاب و کامران) ہیں۔
(سورة آلمومنون: 111)

🍀 یہی لوگ ہیں جنھیں بالا خانے ملے ہیں اس بنا پر کہ انھوں نے صبر کیا، اور (اسی صبر کی بنا پر ) وہاں ان کا خیرمقدم تحیت و سلام سے ہو گا۔
(سورة الفرقان: 75)

🍀 یہ لوگ ہیں کہ جنھیں دوہرا اجر ملے گا، بوجہ اس کے کہ وہ ثابت قدم رہے اور وہ برائی کو بھلائی سے دفع کرتے اور ہمارے دیے ہوئے رزق سے خرچ کرتے ہیں۔
(سورة القصص: 54)

🍀 کہہ دو، اے میرے بندو، تم جو ایمان لائے ہو، اپنے رب سے ڈرتے رہو، جو لوگ اس دنیا میں نیکی کریں گے ان کے لیے آخرت میں نیک صلہ ہے اور اللہ کی زمین کشادہ ہے جو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے، ان کا صلہ بے حساب پورا کیا جائے گا۔
( سورة الزمر: 10)



🌹 صبر احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں:


🌷 انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو قبر پر رو رہی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
اللہ سے ڈرو اور صبر کرو، عورت نے کہا کہ دور ہو جا، تجھے وہ مصیبت نہیں پہنچی جو مجھے پہنچی ہے اور نہ تو اس مصیبت کو جانتا ہے،
اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانا نہیں۔ اس سے کہا گیا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے کے پاس آئی اور وہاں دربان نہ پائے اور عرض کیا کہ
میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانا نہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ صبر ابتداء صدمہ کے وقت ہوتا ہے۔
(صحیح بخاری)

🌷 عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ
میں تمہیں ایک جنتی عورت نہ دکھلاؤں، میں نے کہا کیوں نہیں، انہوں نے کہا کہ یہ کالی عورت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ مجھے مرگی آتی ہے اور اس میں میرا ستر کھل جاتا ہے، اس لئے آپ میرے حق میں دعا کر دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے صبر کرنا چاہئے، تیرے لئے جنت ہے اور اگر تو چاہتی ہے تو تیرے لئے دعا کر دیتا ہوں کہ تو تندرست ہو جائے، اس نے عرض کیا کہ میں صبر کروں گی، پھر کہا اس میں میرا ستر کھل جاتا ہے، اس لئے آپ دعا کریں کہ ستر نہ کھلنے پائے، آپ نے اس کے حق دعا فرمائی۔
(صحیح بخاری)

🌷 حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
کوئی شخص تکلیف دینے والی بات سن کر اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا نہیں ہے کہ لوگ اس کے لئے بیٹا بتاتے ہیں اور وہ انہیں معاف کر دیتا ہے، اور انہیں رزق دیتا ہے۔
(صحیح بخاری)

🌷 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، کہ
جب میں کسی مومن بندے کی محبوب چیز اس دنیا سے اٹھا لیتا ہوں پھر وہ ثواب کی نیت سے صبر کرے، تو اس کا بدلہ جنت ہی ہے۔
(صحیح بخاری)

🌷 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار کی عورتوں سے فرمایا:
تم میں سے جس کسی کے بھی تین بچے فوت ہو جائیں گے اور وہ ثواب کی امید پر صبر کرے گی تو جنت میں داخل ہو گی ان میں سے ایک عورت نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اگر دو مر جائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یا دو (یعنی دو میں بھی اسی طرح)۔
(صحیح مسلم)

🌷 عبدالرحمن ابن ابی لیلی حضرت صہیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مومن آدمی کا بھی عجیب حال ہے کہ اس کے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے اور یہ بات کسی کو حاصل نہیں سوائے اس مومن آدمی کے کہ اگر اسے کوئی تکلیف بھی پہنچی تو اس نے شکر کیا تو اس کے لئے اس میں بھی ثواب ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچا اور اس نے صبر کیا تو اس کے لئے اس میں بھی ثواب ہے۔
(صحیح مسلم)

🌷 حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جو آدمی بیٹیوں کے ساتھ آزمایا گیا پھر اس نے ان پر صبر کیا تو وہ اس کے لیے جہنم سے پردہ ہوں گی یہ حدیث حسن ہے۔
(جامع ترمذی)

🌷حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جو صبر کی کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق عطا فرماتے ہیں، اور کسی کو صبر سے زیادہ وسیع تر اور بہترین بھلائی عطا نہیں کی گئی۔
(بخاری و مسلم)



🌹 صبر کی اہمیت:

صبر جیسا وصف ایک مومن مسلمان کی نشانی ہوتی ہے۔ مومن زندگی کے مشکل سے مشکل حال میں بھی صبر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور اپنے رب کے بتاۓ ہوۓ اصولوں کے مطابق چلتے ہوۓ اپنے ایمان کی حفاظت کرتا ہے۔

▪صبر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآنِ پاک میں اس کا ذکر کئی بار آیا ہے۔

صبر اخلاقِ فاضلہ میں شامل ہے۔ جس کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا:

سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے صبر کیا اور نیک عمل کرتے رہے (تو) ایسے لوگوں کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔
(سورةھود:11)

▪اللہ تعالیٰ نے صابرین کو اہلِ تقویٰ کا امام بنایا اور دین میں ان پر کامل انعام فرمایا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اور ہم نے ان میں سے جب وہ صبر کرتے رہے، کچھ امام و پیشوا بنا دیے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کر تے رہے۔
(السجدہ:24


▪ پیارے آقائے دو عالم علیہ الصلوۃ والسلام کی حیاتِ مبارکہ صبر کا نمونہ تھی اور سب کو صبر کرنے کی ترغیب دلائی اور صبر کو ایمان کا درجہ دیا۔
اسطرح جب لوگوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ ایمان کیا چیز ہے؟؟؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
صبر۔
(کیمائے سعادت۰۳۶)
▪ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے صبر کو ارکانِ ایمان میں سے ایک رکن قرار دیا اور اسے جہاد، عدل اور یقین کے ساتھ ملاتے ہوئے فرمایا:
اسلام چا رستونوں پر مبنی ہے۔
✨1. یقین
✨2. صبر
✨3. جہاد
✨4. عدل
▪اسی طرح صبر کی اہمیت کا اندازہ مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے اس قول مبارک سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ:
سن لو کہ ایمان میں صبر کا مقام ویسا ہی ہے جیسا جسم میں سر کا مقام ہے، جب سر کاٹ دیا جاتا ہے تو پورا بدن ہلاکت کا شکار ہو جاتا ہے، پھر آپ نے بلند آواز سے کہا:
سن لو! اس کا ایمان نہیں جس کے پاس صبر نہیں۔
▪ بزرگانِ دین کا قول ہے کہ صبر ہزار عبادتوں کی ایک عبادت ہے۔ جس سے انسان روحانی اعتبار سے بلند مقام حاصل کر سکتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم صبر کے دامن کو مضبوطی سے تھامیں۔
صبر ہی ایک ایسا راستہ ہے جو سیدھا منزل سے روشناس کر دیتا ہے۔
▪ ہم نے اپنی زندگیوں میں شاید صبر کا استعمال ترک کر دیا ہے۔ اس لئے ہم فرسٹریشن، ڈیپریشن یا ٹینشن جیسی مہلک امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
حالانکہ صبر کا اور اس کائناتی اور دنیاوی نظام کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔
▪ کائنات کے ہر عمل میں صبر کی آمیزش ہے۔ مثلاً چاند ستارے اپنے اپنے مدار میں رہتے ہوئے اپنا سفر طے کر تے ہیں اور رات کو دن اور دن کو رات میں بدلتے ہیں۔ ایک پودا مکمل درخت راتوں رات نہیں بن جاتا۔ آہستہ آہستہ پروان چڑھتا ہے۔ پہلے پھول اور پھر پھل آتے ہیں۔ یہ کائناتی ربط ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں بھی اسے شامل کر کے زندگی میں ربط پیدا کریں۔
▪ اگر ہم دنیاوی تناظر میں بھی دیکھیں تو کسی بھی منزل کو پانے کے لئے ہر انسان کو بہرصورت صبر کی سیڑھی پر چڑھنا پڑتا ہے۔
ایک ڈاکٹر کو بھی اپنی ڈگری لینے کے لئے پانچ سال تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ گویا یہ صبر ہی ہے کہ جو منزل بہ منزل اسے ایک بڑے رتبے سے نوازتا ہے۔ کسی بھی شے یا شعبے میں لمحہ بہ لمحہ ترقی حاصل ہوتی ہے۔ اگر انسان صبر نہیں کرتا تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔
🌟 نیز صبر کی اہمیت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے اس قول مبارک سے بھی مزید اجاگر ہوتی ہے کہ:
صبر ایسی سواری ہےجو ٹھوکر کھا کر نہیں گرتی۔
▪ لہذا صبر ایک ایسا گھوڑا ہے جو ہمیشہ تازہ دم رہتا ہے وہ کبھی تھکتا نہیں۔ صبر ایک ایسی تلوار ہے جو کبھی کند نہیں ہوتی۔ وہ ایک ایسا لشکر ہے جو ہمیشہ فتح یاب رہتا ہے کبھی شکست نہیں کھاتا۔ وہ ایک ایسا مضبوط قلعہ ہے جسے دشمن کبھی ڈھا نہیں سکتا۔ صبر اور فتح ونصرت دونوں حقیقی بھائی کے مانند ہیں جو شخص صبر کے ہتھیار سے لیس ہوتا ہے اسے دشمن کبھی شکست نہیں دے سکتا اس کے برخلاف جو شخص صبر کی قوت سے عاری ہو وہ کبھی فتح و نصرت سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔