**: 🌹 صبر كی اقسام:

شريعتِ اسلاميہ کی نظر ميں صبر يہ ہے کہ اللہ تعالی نے جن چيزوں کے کرنے کا حکم ديا ہے اور جن چيزوں سے روکا ہے ان اعمال کو کرتے ہوئے، راہ ميں آنے والی پريشانيوں کو برداشت کيا جائے، اسی کو اوامر اور نواہی کہا جاتا ہے، يعنی احکامات کی انجام دہی ميں صبر اور جن چیزوں سے منع کیا گیا ہے، ان سے رک جانے ميں صبر، اسی طرح ديگر دنياوی آلام و مصائب پر صبر کرے اور نفس کو قابو ميں رکھے۔

⚡ اسی لئے علماء نے صبر کی تين قسميں بيان فرمائی ہے

⚡1. اطاعت پر صبر
⚡2. معصيت پر صبر
⚡3. اور آلام و مصائب پر صبر


⚡1. اطاعت پر صبر:
کا مطلب يہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کو جن احکامات پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے ان کی ادائيگی پر صبر کرنا۔

اطاعت کی انجام دہی نفس کو تکلیف میں مبتلا کرتی ہے اور ايسا اس وجہ سے کہ انسان کو اس کے بدلے جنت کی پرکيف نعمتيں ملنے والی ہيں جو کوئی گری پڑی چيز نہيں۔ بلکہ اس کے لئے قدم قدم پر رياضت کی ضرورت ہے تب ہی تو فرمايا گيا:

وحفت الجنة بالمکارہ
جنت کو ناگوار چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔
(صحیح مسلم)

کيوں کہ جنت کو طبيعت پر گراں گزرنے والی چيزوں سے ڈھانپ ديا گيا ہے، مثلاً فجر کی بيداری ہی کو ليجئے کہ اس وقت بيدار ہونا طبيعت پر نہايت گراں گزرتا ہے ليکن جو بيدار ہوتا ہے، نرم و نازک بستر کو چھوڑتا ہے اور وضو کر کے نماز فجر ادا کرتا ہے وہ دراصل عبادت پر صبر کر رہا ہے۔ اسی طرح زکوٰة، روزے اور حج و جہاد کا معاملہ ہے، جس ميں جان و مال کی قربانی مطلوب ہوتی ہے يہاں بندے کو صبر کی ضرورت ہے۔

اور تين حالات ميں اطاعت پر صبر کرنے کی ضرورت پڑتی ہے،

▪1. اطاعت کی انجام دہی سے پہلے،
▪2. اطاعت کی انجام دہی کے درميان
▪3. اور اطاعت کی انجام دہی کے بعد

✨ اطاعت کی انجام دہی سے پہلے صبر کی ضرورت ہے کہ ہمارا دل ريا و نمود سے خالی ہو اور اس ميں اخلاص وللہيت پائی جائے،

✨ اطاعت کی انجام دہی کے بيچ صبر کی ضرورت ہے کہ اسے ارکان و واجبات اور سنن کی رعايت کرتے ہوئے ادا کيا جائے۔

✨ اور اطاعت کی انجام دہی کے بعد صبر کی ضرورت ہے کہ اسے پوشيدہ رکھا جائے اور نمود و نمائش کے چکر ميں پھنس کر اسے دوسروں کے سامنے بيان کرتا نہ پھرے۔

🌟 اللہ کے احکام پر ثابت قدم رہنا اور صبر کر لینا اس صبر پر اللہ چھ سو گنا تک اجر و ثواب دے گا۔



*: 💥2. معصيت پر صبر:

کا مطلب يہ ہے کہ اللہ تعالی نے جن چيزوں سے منع کيا ہے ان سے اپنے آپ کو روک لينے ميں صبر کرنا، يہ حقيقت ہے کہ جن چیزوں سے منع کیا گیا ہے٬ ان کی طرف خواہشات کا ميلان ہوتا ہے، انسانی طبيعت ميں ان کے ارتکاب کا داعيہ پيدا ہوتا ہے اور ايسا اس وجہ سے کہ

وحفت النار بالشہوات
جہنم کو شہوات سے گھير ديا گيا ہے۔
(صحیح مسلم)

لہذا جب طبيعت ميں بُرائی کی تحريک پيدا ہو رہی ہو ايسے وقت ميں نفس کو لگام دينا اور خواہشات پر قابو پا لينا ہی صبر کا دامن تھامنا ہے۔

⚡ اور معصيت پر صبر اختيار کرنے ميں جو چيزيں معاون ثابت ہوتی ہيں ان ميں سرِ فہرست درج ذیل ہيں:

▪1. اللہ تعالی کی نگرانی کو ذہن ميں تازہ کرنا کہ وہ ہميں ديکھ رہاہے اور ہماری باتوں کو سن رہا ہے
▪2. اسی طرح اللہ تعالی کی محبت کو دل ميں بٹھانا
▪3. اس کی نعمتوں اور احسانات کو ذہن نشيں رکھنا
▪4. اس کے جلال و غضب کو ياد رکھنا
▪5. برے ساتھيوں سے کنارہ کشی اختيار کرنا۔

يہ وہ اسباب ہيں جو ايک بندے کے لئے ترکِ معصيت ميں معاون ثابت ہوتے ہيں۔


🌟 گناہ سے بچنا اور اپنے آپ پر قابو رکھنا، اس صبر پر اللہ رب العزت نو سو گنا تک ثواب عطا فرمائے گا۔


💥3. مصائب پر صبر:

صبر کی تيسری قسم آلام و مصائب پر صبر ہے۔
صبر کا مطلب بالکل واضح ہے کہ دنيا ميں انسانوں کو جو رنج وغم لاحق ہوتا ہے، اُن پر جو مصيبتيں اور پريشانياں آتی ہيں انہيں برداشت کيا جائے۔

اور مصيبتيں مختلف طرح کی ہو سکتی ہيں فقر و فاقہ، بيماری، حادثے، مال وجان کی تباہی، عزيز و قريب کی موت وغيرہ ان مصائب ميں انسان صبر کا دامن تھامے رکھے۔

🌟 مصیبت پر صبر کرنا۔ یہاں تک کہ وہ مصیبت ختم ہو جائے اور اس شخص کی طبیعت پر اس کے ناگوار اثرات نہ ہوں۔ اللہ اس پر اسے تین سو گنا تک ثواب لکھ دیتا ہے۔