🌹 صبر اور اس کے مواقع:


اسلام میں حسنِ اخلاق کی بہت اہمیت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:
مجھے اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اخلاقی اچھائیوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا دوں۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کن اعلی مقاصد کے لیے ہوئی تھی۔

جب ہم اخلاق کی بات کرتے ہیں تو اس میں صبر کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ صبر کی ضرورت مومن کو زندگی کے ہر ہر قدم پر پڑتی ہے۔

✨ صبر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین کو قرآن مجید میں متعدد بار صبر کی تاکید کی ہے اور صابرین کو جنت کی خوشخبری بھی دی ہے کہ

سلامتی ہو تم پر اس صبر کے باعث جو تم نے زندگی میں کیا ہے۔
(سورۃ الرعد: 23)

✨ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ صبر ایمان کا سرچشمہ ہے، جب تک صبر ہے ایمان ہے اور جب صبر چلا جاتا ہے تو ایمان بھی اسی کے ساتھ چلا جاتا ہے۔ اس طرح انسان کو پوری زندگی میں صبر کی ضرورت پڑتی ہے، اور مندرجہ ذیل چند مواقع پر اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے:


🌴1.فاقہ کشی کی حالت میں:

انسان اپنی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے محنت کرتا ہے، لیکن کبھی کبھار اسے فاقہ کشی سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے، ایسی حالت میں شکوہ شکایت سے بچتے ہوئے ضبط سے کام لینا چاہئے۔ فاقہ کشی میں صبر کرنے والوں کی مثالیں تاریخ میں بھری پڑی ہیں،

جس کی زبردست مثال مکہ میں شعب ابی طالب کی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے صحابہؓ کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ جس میں کہ ان لوگوں کو سوکھا چمڑا اور پتے چبانے پڑے تھے۔

دوسری مثال غزوۂ خندق کی ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے پیٹ پر پتھر باندھ رکھے تھے۔


🌴2. جسمانی مصائب کے وقت:

صبر کا ایک مقام یہ ہے کہ انسان دکھ درد اور بیماری میں یا جسمانی اذیت کے موقع پر صبر سے کام لیتا ہے، حضرت ایوب علیہ السلام کا جسمانی بیماری پر صبر کرنا بہت مشہور ہے، جسے قرآن مجید نے قیامت تک کے لیے مثال بنا دیا ہے۔
ابتدائی دور کے صحابہ کرامؓ، حضرت بلالؓ، حضرت یاسرؓ کا پورا خاندان جس اذیت سے دوچار ہوا تاریخ اسلام میں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ صبر ہی کی وجہ سے ان کے قدم تمام آزمائشوں کے باوجود ذرا بھی نہ ہٹے اور اس ظلم پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو صبر کی تلقین کرتے تھے۔


🌴3. جذباتی صدمے میں صبر:

صبر کا ایک مقام یہ بھی ہے کہ جہاں آدمی کو اپنے جذبات کی قربانی دینی پڑتی ہے اور اس طرح کے واقعات عام طور سے کسی عزیز کی موت پر، یا عارضی طور سے کسی سے بچھڑنے پر سامنے آتے ہیں۔
قرآن مجید میں اس کی مثال حضرت ابراہیمؑ اور حضرت ہاجرہؑ کی ہے، جس کو قرآن نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ دونوں نے اپنے جذبات کو اللہ تعالی کے احکام پر قربان کر دیا تھا اور اس پر صبر کیا تھا اور حضرت ہاجرہ کی زندگی تو آج کی خواتین کے لیے بہترین نمونہ ہے۔


🌴4. دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد میں صبر:

یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ جو لوگ اللہ کے دین کو دنیا میں سربلند کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، وہ اس راہ میں مصیبتوں اور تکالیف سے دوچار ہوتے ہیں اور وہ اس پر صبر سے کام لیتے ہیں اور یقیناً اس پر صبر کرنا بڑی کامیابی ہے۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ
اے ایمان والو! صبر سے کام لو، اور باطل پرستوں کے مقابلے میں جواں مردی دکھاؤ، اور حق کی سربلندی کے لیے کھڑے ہو جاؤ، اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو، تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
(سورة آل عمران:200)


🌴5. دعا کی قبولیت کے سلسلے میں صبر:

جب انسان اللہ تعالی سے کسی پسندیدہ چیز کو طلب کرنے کے لیے دعا کرتا ہے تو اسے جلد بازی نہیں کرنا چاہئے اور یہ بات ہمیشہ ذہن میں ہونا چاہئیے کہ بندہ جب اپنے رب سے کچھ مانگتا ہے تو وہ اسے ضرور عطا کرتا ہے، بشرطیکہ وہ چیز جائز ہو، اور خلوصِ نیت کے ساتھ مانگی گئی ہو۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ
تم مجھ سے مانگو میں تمہیں عطا کروں گا۔

حضرت ابوہریرۃؓ سے ایک روایت آتی ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
تم میں سے ہر شخص کی دعا قبول ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ جلد بازی سے کام نہ لے، (یعنی یوں نہ کہے) میں نے دعا مانگی مگر میری دعا قبول نہ ہوئی۔



🌹صبر کے اسباب:


⚡ صبر کی قوت چند باتوں کے لحاظ سے پیدا ہوتی ہے:


◼1. انسان صابرین کے اجر و ثواب پر نگاہ رکھے کہ روایات میں

⚡صابرین کے واسطے جنت میں جانے کا ذکر ہے۔

⚡صبر کرنے والے کے لئے ہمیشہ روزہ رکھنے والے اور تمام زندگی نماز قائم کرنے والے کا ثواب ہے۔

⚡صابر کو پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شہید ہونے کا ثواب ملتا ہے۔

⚡ فاقہ پر صبر جہاد کا رتبہ رکھتا ہے اور یہ ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔

⚡جو مومن کسی بلاء پر صبر کرے اسے ہزار شہیدوں کا اجر ملتا ہے۔


◼2. یہ خیال کرے کہ مصیبت چند لمحوں کے بعد ختم ہو جائے گی اور زندگی بہر حال فانی ہے جو ساعت گزر جاتی ہے اس کی راحت و تکلیف دونوں ختم ہو جاتی ہیں، آنے والی ساعت کا حال یوں بھی کسی کو نہیں معلوم ہے۔

◼3. اس بات پر غور کریں کہ اس مایوسی اور رونے کا کوئی اثر بھی نہیں ہے۔ مقدر میں جو ہے وہ ہو کر رہے گا۔ افسوس کرنے سے صرف اجر و ثواب میں کمی ہو سکتی ہے ورنہ قضا و قدر کو کون بدل سکتا ہے۔ بندہ، بندہ ہے اس کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔

◼4. ان افراد کو یاد کریں جنھوں نے اس سے بڑے بڑے امتحانات دیئے ہیں اور بہترین اجر حاصل کیا ہے۔

◼5. یہ سوچیں کہ امتحان ایک سعادت ہے۔ شدت بلاء مومنین کے لئے قربِ الٰہی کی علامت ہے۔

◼6. یہ یاد کریں کہ یہ مصیبت خدائے حکیم کی طرف سے ہے اور وہ اپنے بندوں کے لئے خیر ہی چاہے گا، وہ بے نیاز ہے، غرض مند نہیں ہے کہ فائدہ اٹھائے۔

◼7. یہ یاد کریں کہ یہ تزکیۂ نفس کا بہترین ذریعہ ہے۔

◼8. یہ غور کریں کہ رونے اور افسوس کرنے سے دوست رنجیدہ ہوتے ہیں اور دشمن خوش حال ہوتا ہے۔



◼9. یہ سوچیں کہ صبر کا انجام دنیا میں بھی اچھا ہی ہوتا ہے۔

⚡حضرت یوسف علیہ السلام نے مصیبت پر صبر کیا تو خدا نے کتنی بڑی عزت عنایت کی کہ اللہ نے انھیں حاکم بنا دیا اور حاکم کو غلام بنا دیا اور ان کے بھائیوں کو ان کی رعایا میں شامل کر دیا۔
زلیخا کو سرِ راہ لا کر بٹھا دیا وغیرہ وغیرہ۔

⚡ اسی طرح حضرت ایوب علیہ السلام کو دوبارہ اموال، ازواج و اولاد عطا کر دی جبکہ راہِ امتحان میں سب کچھ فنا ہو چکا تھا اور ان کے گھر میں سونے کی بارش کر دی۔

⚡ اہلِ بیت اطہار کے مصائب کو یاد کیا جائے کہ ان پر سب سے زیادہ مصیبتیں پڑی ہیں جبکہ وہ سردار خلائق تھے اور انھیں کے لئے دنیا پیدا ہوئی تھی۔

▪10. صبر عوام (عام لوگوں) جیسا نہ ہو کہ وہ صبر سے زیادہ اظہارِ صبر کرتے ہیں اور یہ ریاکاری ہے۔

▪11. صبر کا طریقہ متقین کا صبر ہے جس میں اجر آخرت کی توقع ہوتی ہے یا عارفین کا صبر ہے جس میں مصیبت پر لطف آتا ہے کہ یہ محبوب کی عطا ہے اور وہ انجام سے زیادہ باخبر ہے۔

▪12. مصیبت کے وقت اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون کہیں کہ اس سے صلوات و رحمت کا استحقاق پیدا ہوتا ہے اور انسان ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔

▪13. امام صادق رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ جب صبر تمام ہوتا ہے تو فرحت نصیب ہوتی ہے اور تجربہ بھی اس کا گواہ ہے کہ ہر تنگی کے ساتھ ایک وسعت ہے۔
___

🌹 صبر کی شاخیں:

صبر بہت سے اوصاف و اخلاق کا مرجع و مصدر ہے۔ حالات کے اعتبار سے اس کے نام الگ الگ ہیں ورنہ سب صبر کی شاخیں ہیں۔

✨ شکم و شرمگاہ کے بارے میں صبر ہو تو اس کا نام عفت ہے۔

✨ مصیبت پر صبر ہو تو اس کا نام صبر ہے جس کے مقابلہ میں جزع و فریاد ہے۔

✨ ترک معصیت پر صبر ہو تو اس کا نام تقویٰ ہے۔

✨ دولت کی برداشت پر ہو تو ضبط نفس ہے جس کی ضد اکڑ ہے۔

✨ مصائب و حوادثِ دنیا پر ہو تو اس کا نام وسعتِ صدر ہے۔ جس کی ضد تنگدلی ہے۔

✨ جنگ میں ہو تو اس کا نام شجاعت ہے جس کی ضد بزدلی ہے۔

✨ ضبط غیظ میں ہو تو اس کا نام حلم ہے جس کی ضد سفاہ ہے۔

✨ کلام کے اخفاء میں ہو تو اس کا نام رازداری ہے جس کی ضدا فشاء راز ہے۔

✨ فضول عیش کے مقابلہ میں ہو تو اس کا نام زہد ہے جس کی ضد حرص ہے۔

✨ مختصر حصہ پر ہو تو اسکا نام قناعت ہے جس کی ضد لالچ اور ہوس ہے وغیرہ۔