🌹 شرم و حیا کی تعریف:



حیا کے لغوی معنی وقار، سنجیدگی اور متانت کے ہیں۔ یہ بے شرمی اور بے حیائی کی ضد ہے۔

✨ اصطلاحی طور پر اس کا مطلب ہے نفس کا کسی کام کے کرنے میں انقباض (پکڑ) اور تنگی محسوس کرنا اور ملامت اور سزا کے ڈر سے اسے نہ کرنا
(موسوعۃ الاخلاق)

✨ امام راغب اصفہانی نے حیا کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:

حیا وہ وصف ہے جس کی وجہ سے برا کام کرنے سے نفس میں تنگی محسوس ہوتی ہے۔

✨ علامہ ابن حجرؒ کے نزدیک:
حیا وہ خلق ہے جو انسان کو نیکی کرنے اور برائی نہ کرنے پر اُبھارتا ہے۔

✨ اسلام کی مخصوص اصطلاح میں حیاء سے مراد

وہ شرم ہے جو کسی امر منکر کی جانب مائل ہونے والا انسان خود اپنی فطرت کے سامنے اور اپنے خدا کے سامنے محسوس کرتا ہے۔ یہ حیاء وہ قوت ہے جو انسان کو فحشاء اور منکر کا اقدام کرنے سے روکتی ہے اور اگر وہ جبلتِ حیوانی کے غلبے سے کوئی برا فعل کر گزرتا ہے تو یہی چیز اس کے دل میں چٹکیاں لیتی ہے۔ اسلام کی اخلاقی تعلیم و تربیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ حیاء کے اسی چھپے ہوئے مادے کو فطرتِ انسانی کی گہرائیوں سے نکال کر علم و فہم اور شعور کی غذا سے اس کی پرورش کرتی ہے اور ایک مضبوط حاسّۂ اخلاقی بنا کر اس کو نفسِ انسان میں ایک کوتوال کی حیثیت سے متعین کر دیتی ہے۔
(مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ)

✨ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

حیاء خیر ہی کی موجب ہوتی ہے۔
(مشکٰوة)

✨اور ایک روایت میں ہے کہ
حیاء سراسر خیر ہے۔

▪گو انسان جس قدر باحیاء بنے گا اتنی ہی خیر اس میں بڑھتی جائے گی۔ حیاء ان صفات میں سے ہے جن کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

✨ حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کا سبب ہے اور بے حیائی جفاء (زیادتی) ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔
(مشکٰوة)

▪حیاء کی وجہ سے انسان کے قول و فعل میں حسن و جمال پیدا ہوتا ہے لہٰذا باحیاء انسان مخلوق کی نظر میں بھی پُرکشش بن جاتا ہے اور پروردگارِ عالم کے ہاں بھی مقبول ہوتا ہے اور قرآن مجید میں بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔

حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے کے لیے آئیں تو ان کی چال و ڈھال میں بڑی شائستگی اور میانہ روی تھی اللہ رب العزت کو یہ شرمیلا پن اتنا اچھا لگا کہ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ فرمایا۔

✨ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اور آئی ان کے پاس ان میں سے ایک لڑکی شرماتی ہوئی۔
(سورة القصص: 25)

⚡سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب باحیاء انسان کی رفتار و گفتار اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند ہے تو اس کا کردار کتنا مقبول اور محبوب ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث میں حیاء کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا گیا ہے۔

✨ چنانچہ ارشاد مبارک ہے:
الحیآ ء شعبة من الایمان
(مشکوٰة)

▪لہٰذا جو شخص حیاء جیسی نعمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ وہ حقیقت میں محروم القسمت بن جاتا ہے ایسے انسان سے خیر کی توقع رکھنا بھی فضول ہے۔

✨ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشاد ہے:

جب شرم وحیا ء نہ رہے تو پھر جو مرضی کر۔
(مشکوٰة)

▪اس سے معلوم ہوا کہ بے حیاء انسان کسی ضابطہ اخلاق کا پابند نہیں ہوتا اور اس کی زندگی شترِ بے مہار کے طرح ہوتی ہے۔ حیاء ہی وہ صفت ہے کہ جس کی وجہ سے انسان پاکیزگی اور پاکدامنی کی زندگی گزارتا ہے۔ لہٰذا تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ حیاء کی صفت کو اپنانے کی مکمل کوشش کریں تاکہ پاکیزگی اور پاکدامنی کے ساتھ زندگی گزاریں۔