🌹 حیا کی قسمیں:


حیا کی دو قسمیں ہیں:

✨1. حیا فطری
✨2. حیا کسبی


💥1. حیا فطری:
حیا کی پہلی قسم وہ ہے
جو فطری طور پر ہو اور یہ اخلاق میں سب سے بہترین ہے جسے اللہ اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے اور اس پر پیدا فرماتا ہے۔
اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:

حیا صرف بھلائی لاتی ہے۔
(امام بخاری)

کیونکہ حیا انسان کو بری چیزوں کے ارتکاب اور گھٹیا و رذیل اخلاق کے اپنانے سے باز رکھتی ہے، اور مکارمِ اخلاق (اچھے اخلاق) اور اس کی بلندی پر ابھارتی ہے، لہذا اس اعتبار سے حیا ایمان کی خصلتوں میں سے ہے۔


💥2. حیا کسبی:
حیا کی دوسری قسم وہ ہے جو انسان کا رب کی معرفت، اسکی عظمت کی معرفت اور اسکا بندہ سے قریب ہونے اور انکے احوال سے باخبر ہونے اور سینوں کے اسرار اور آنکھوں کی خیانتوں کے جاننے سے ہوتی ہے، تو یہ ایمان کی بلند ترین عادتوں میں سے ہے، بلکہ یہ احسان کے بلند ترین مراتب میں سے ہے۔

اور انسان کے اندر حیا کی یہ قسم کبھی اللہ کی نعمتوں میں غور کرنے اور اس کی شکر میں کوتاہی کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔
لہذا جب بندہ سے کسبی و فطری حیا چِھن جائے تو جو چاہے بُری عادت اور گھٹیا اخلاق کا ارتکاب کرے، گویا کہ وہ بے ایمان ہوجاتا ہے۔

✨اسی لئے حدیث میں آیا ہے کہ:
حیا ایمان سے ہے۔

✨ چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انصار کے ایک آدمی کے پاس سے گزر ہوا جو اپنے بھائی کو حیا کے سلسلہ میں نصیحت کر رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اسے چھوڑ دے، کیونکہ حیا ایمان سے ہے۔
(صحیح بخاری)

✨ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ایمان کی ساٹھ سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں، اور حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔
(صحیح بخاری)




🌹 حیا کی تین صورتیں:

حیا کی مندرجہ ذیل تین صورتیں ہیں:

✨1. حيا من اللہ
✨2. حيا من الناس
✨3. حيا من النفس


متقی اور کریم النفس انسانوں کے دلوں اور روحوں سے نیکی اور راستی کا فیصلہ صادر ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابۂ کرام کو اپنے قلب اور نفس سے فتویٰ لینے کی تلقین کی تھی۔ صحابہ کرامؓ بیک وقت حیا من اللہ، حیا من الناس، اور حیا من النفس کی پیکر ہستیاں تھیں۔


💥1. حیا من اللہ:
حیا من اللہ حیا کی بلند ترین صورت ہے۔ حیا کی اس صفت سے متصف ہونے کی وجہ سے سب صحابہ اللہ کے خوف سے اور اس کی رضا کی طلب اور محبت میں معاصی (گناہ) سے دور رہتے تھے۔ ان کے لیے یہ کوئی فلسفیانہ بات نہیں تھی بلکہ ان کے دل کی جڑوں میں راسخ عقیدہ تھا کہ وہ کہیں بھی ہوں، اللہ کی نگاہوں میں ہیں۔

✨ قرآن پاک کی درج ذیل آیت ان کے شعور پر چھائی ہوئی تھی:

کیا تم کو خبر نہیں ہے کہ زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا اللہ کو علم ہے؟؟؟ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمیوں میں کوئی سرگوشی ہو اور ان کے درمیان چوتھا اللہ نہ ہو، یا پانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان کے اندر چھٹا اللہ نہ ہو۔ خفیہ بات کرنے والے خواہ اس سے کم ہوں یا زیادہ، جہاں کہیں بھی وہ ہوں، اللہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے۔ پھر قیامت کے روز وہ اُن کو بتا دے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا۔ اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔
(سورة المجادلہ:7)


💥 2. حیا من الناس:
حیا من اللہ کے بعد حیا کی دوسری صورت حیا من الناس تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس سماج اور معاشرے میں، ایک شخص زندگی بسر کرتا ہے اس کے تہذیبی اور اخلاقی قاعدوں ضابطوں کو توڑنے کی جسارت (جرات) نہ کرے۔


💥 3. حیا من النفس:
ایک تیسرا درجہ ہے جو تزکیۂ نفس اور اصلاحِ ذات کے مراحل سے گزرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ حیا کے اس درجے کو پہنچنے والا شخص سات پردوں میں بھی بیٹھا ہوا ہو تو معصیت میں پڑنے سے بچتا ہے۔ وہ اپنے آپ سے حیا کرتے ہوئے جائز اور حلال سے تجاوز کر کے ناجائز اور حرام کے حدود میں داخل نہیں ہوتا۔


▪ حیا کی ان ساری شکلوں کی شعور اور نفس میں آبیاری ہو جائے تو پھر قلب و نفس معصیت کے جواز کا فتویٰ نہیں دیتا۔