🌹 احسان کی اہمیت:


احسان کا لفظ ایک خاص مفہوم کا حامل ہے۔ نیتوں کو اپنے مفادات سے پاک اور بلند تر کر کے اللہ کے لیے خالص کر دینے کے باعث احسانِ عبودیت یعنی بندگی کا اعلیٰ ترین درجہ بن جاتا ہے۔ اس لیے احسان فی الحقیقت اپنی سوچ و فکر اور ارادہ و مقصد کو مکمل طور پر اللہ کے لیے خالص کر دینے کا نام ہے اور یہ عقیدہ و عمل میں سنتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اتباع کر تے ہوئے نیک اعمال بجا لانے سے حاصل ہوتا ہے۔

احسان کا ایک عام مفہوم دوسروں پر انعام کرنا ہے۔ دراصل احسان دین اور دنیا کے ہر معاملے میں عمدگی برتنے کا نام ہے۔ مخلوق کے ساتھ اپنے تمام اقوال و افعال میں حسن اخلاق سے پیش آنے کا نام احسان ہے، سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنا حرام قرار دے دیا ہے۔

احسان، کتاب و سنت کے مطابق انسان کے اپنے بھائی سے حسن معاملات کا جوہر ہے۔ احسان کا دائرہ کار انسان کے خود اپنے آپ پر، اس کے ماتحتوں پر اس کے خاندان اور عزیز و اقارب پر اور اس کے بعد تمام انسانی معاشرے پر پھیلا ہوا ہے۔ اور اسلام ہمیں ہر ایک کے ساتھ احسان کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

✨ ایک حدیث کے مطابق ایک بدکار عورت نے شدت پیاس سے ہانپتے ایک کتے کو گیلی مٹی چاٹتے ہوئے دیکھا تو اس نے اپنا موزہ اتار کے اس کے ذریعے سے، کنویں سے پانی نکال کے پیاسے کتے کو پلا دیا۔ اس عمل کے بدلے اللہ تعالیٰ نے اس کی بخشش فرما دی۔

✨ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
اگر کسی چڑیا کو بھی بے مقصد قتل کیا گیا تو قیامت کے دن وہ رب کے حضور فریاد کرے گی کہ اے میرے رب! اس شخص نے مجھے اپنے کسی فائدے کے لیے نہیں بلکہ بلاوجہ ہی قتل کر دیا تھا۔

گویا واجب احسان میں سے مسلمانوں کے ساتھ حسنِ معاشرت اختیار کرنا اور ان سے مثالی تعلقات رکھنا بھی ہے۔ بالخصوص والدین اور اولاد باہم احسان کرنے والے ہوں، میاں بیوی کے آپس میں تعلقات اچھے ہوں اور رشتے داروں کے ساتھ حسنِ اخلاق کے ساتھ پیش آیا جائے۔

✨ ارشاد ربانی ہے:
اور لوگوں سے اچھی بات کہو۔

احسان اپنے خوبصورت معانی کے ساتھ ہر حال میں مطلوب ہے۔ ملاقات و گفتگو کی مجلسوں میں بھی احسان ہی ہونا چاہیے۔ جھگڑوں اور تنازعات میں اس کی بالخصوص تاکید ہے۔

غیر مسلموں اور اہلِ کتاب کے ساتھ مکالمہ میں بھی احسان ہی لازم ہے تاکہ ان سے کیا جانے والا مباحثہ مطلوبہ اغراض و مقاصد اور نتائج و ثمرات سے ہمکنار ہو سکے۔




🌹 احسان کے درجات:


🌟 امام ابن قیم الجوزیہ رحمتہ اللہ فرماتےہیں:
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ احسان کے تین درجے ہیں :


🌿پہلا درجہ:
نیت اور قصد میں احسان کرنا:
یعنی نیت کو علم کے ساتھ درست کرنا۔ اور عزم کے ساتھ مضبوط کرنا اور کیفیت کے لحاظ سے اسے صاف اور خالص رکھنا۔

🌿دوسرا درجہ: اپنی کیفیات میں احسان کرنا:
یعنی اپنی کیفیات کا خیال رکھنا اور ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے انہیں چھپا کر رکھنا اور انہیں درست طریقے سے ثابت کرنا۔
ایمانی کیفیات کے خیال رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی اصل ایمانی کیفیت کو بدلنے سے بچایاجائے ۔اس لئے کہ دل کی کیفیت بادل کے چلنے کی طرف بہت جلد بدل جاتی ہے۔ اور کیفیت ایمانی کی دیکھ بھال یہ ہے کہ انسان ہمیشہ وفاداری سے کام لے اور بے وفائی سے بچے۔

🌿 تیسرا درجہ - اوقات میں احسان:
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی نگرانی اور نگہبانی کو ہمیشہ مدِ نظر رکھا جائے اور کسی وقت بھی اس سے غفلت نہ برتی جائے۔ اور اپنے ارادے اور قصد میں اللہ کے سوا کسی اور کو نہ شامل کیا جائے یعنی ہمیشہ دل کا تعلق اللہ کے ساتھ رہے اس سے ہٹا کر کسی اور کے ساتھ دل نہ لگایا جائے۔
( مدارج السالکين)