🌹احسان جتلانے والوں کے بارے میں وعید:


احسان کرنا بڑی نیکی ہے مگر احسان کر کے کسی پر احسان جتلانا گندی صفت ہے۔ ایسے لوگوں کو عربی میں منّان اور اردو میں احسان جتلانے والا کہتے ہیں۔

منَّان: سے مراد وہ شخص ہے جو کسی کو کچھ دینے کے بعد احسان جتلاتا ہے۔


▪امام قرطبی رحمة اللہ علیہ نے احسان جتلانے کی تعریف یوں کی ہے:

کسی کو جتلانے اور دھمکانے کے لیے اس پر کیے ہوئے احسان کا تذکرہ کرنا۔ مثلاً یہ کہنا کہ میں نے (تیرے ساتھ فلاں نیکی کی ہے) تجھ پر فلاں احسان کیا ہے وغیرہ۔


بعض لوگوں نے احسان کی تعریف یوں بھی کی ہے:

کسی کو دی گئی چیز کا تذکرہ اسطرح کرنا کہ اس کو جب یہ بات پہنچے تو اس کیلئے تکلیف دہ ہو۔

اور احسان جتلانا گناہ کبیرہ میں شمار کیا جاتا ہے۔

▪ہر وہ گناہ جس کو قرآن و حدیث یا اجماعِ امت نے کبیرہ گناہ قرار دیا ہو، جس گناہ کو عظیم قرار دیتے ہوئے اس پر سخت سزا کا حکم سنایا گیا ہو یا اس پر کوئی حد مقرر کی گئی ہو یا گناہ کے مرتکب پر لعنت کی گئی ہو یا جنت کے حرام ہونے کا حکم لگایا گیا ہو۔

▪کبیرہ گناہ بغیر توبہ معاف نہیں ہوتے:
⚡ فرمانِ الٰہی ہے:
اگر تم کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرو تو ہم تمہارے (صغیرہ) گناہوں کو (ویسے ہی) معاف کر دیں گے اور تم کو باعزت مقام (جنت) میں داخل کریں گے۔
(سورةالنساء:31)

⚡ اچھے کام کرنے والوں کو اچھی جزا دی جائے گی۔ وہ لوگ جو بڑے گناہوں سے دور رہتے اور فحاشی سے اجتناب کرتے ہیں، سوائے (فطری) لغزشوں کے، بے شک آپ کا رب بڑی مغفرت والا ہے۔
(سورةالنجم:32)

⚡ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
پانچ نمازیں، ایک جمعہ، دوسرے جمعہ اور رمضان دوسرے رمضان تک (یہ تمام اعمال) صغیرہ گناہوں کو مٹاتے رہتے ہیں، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیاجائے۔
(مسلم)

⚡ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے، مگر جب وہ اس گناہ کو چھوڑ دے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل صاف کر دیا جاتا ہے اور اگر دوبارہ گناہ کرے تو نقطہ بڑھ جاتا ہے، حتیٰ کہ اس کا دل مکمل سیاہ ہو جاتا ہے۔
(ترمذی)



💥
▪ بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوگ احسان کرنے کے بعد احسان جتلاتے ہیں، بعض سماجی ادارے جو خیراتی کام کرتے ہیں وہ غریبوں کو طعنہ دیتے ہیں، اسی طرح بعض اہلِ ثروت فقراء و مساکین پر احسان کر کے جا بجا انہیں بے عزت کرتے ہیں اور احسان کا بدلہ تلاش کرتے ہیں اور احسان جتلا کر گھڑی گھڑی
بےعزت کرتے ہیں۔ جو آدمی اس رویے کو اختیار کیے رکھے گا وہ صدقات اورخیرات کی تمام نیکیو ں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔

▪ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی احسان کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن احسان جتانے پر سخت وعید فرماتا ہے۔

⚡چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

اے ایمان والو!!! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذاء پہنچا کر برباد نہ کرو، جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے، اور نہ اللہ تعالٰی پر ایمان رکھے، نہ قیامت پر، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ برسے اور وہ اس کو بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالٰی کافروں کی قوم کو (سیدھی) راہ نہیں دکھاتا۔
(سورةالبقرة:264)

▪مقصود یہ کہ جو کام تم اپنی دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لئے کر رہے ہو اس پر احسان جتانا کیسا؟

⚡ احسان جتلانے والے کے بارے میں حدیث مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھیانک سزا سنائی گئی ہے۔

ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تین لوگ ایسے ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات کریں گے، نہ ان پر نظرِ کرم فرمائیں گے، اور نہ ان کو پاک کریں گے، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا۔
✨ ایک ، احسان جتانے والا کہ جب بھی کسی کو کچھ دے، احسان جتائے۔
✨ دوسرا ، عصر کے وقت جب بازار ختم ہو رہا ہو، جھوٹی قسم کھا کر سودا بیچنے والا۔
✨اور تیسرا ، اپنے تہبند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا، جس سے اس کا مقصد سوائے تکبر و نخوت کے کچھ نہ ہو۔
(مسلم،کتاب الايمان)

▪ لہذا جو لوگ احسان کرتے ہیں انہیں کسی طرح اپنے احسان کا اظہار نہیں کرنا چاہئے، اور اگر کسی سے احسان جتلا دیا ہے تو اپنے گناہ سے توبہ کرے اور اس بندے سے معافی طلب کرے ورنہ اللہ کے یہاں نیکی کرنے کے باوجود ذلیل و رسوا ہو گا۔



🌹 احسان پر اجرِ خاص کا ملنا:

احسان وہ عظیم فعل ہے جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں بہت زیادہ پسندیدہ اور محبوب ترین عمل ہے۔ احسان پر مبنی تعلق خواہ اللہ کے ساتھ ہو یا اس کی مخلوق کے ساتھ دونوں اعتبار سے ایک عظیم عمل ہے۔ دراصل یہ ایک ایسا حسین عمل ہے جس میں حسن کی کوئی حد اور مقدار مقرر نہیں ہوتی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی احسان کرنے والوں کا اجر بھی بے حد اور بے اندازہ ہے۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
کیا احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ اور ہے
(سورةالرحمن: 60)

اس لیے اہل ایمان و اسلام کے لئے تو جنتِ نہار اور جنتِ عدن کا وعدہ فرمایا گیا ہے اور کامل مومنوں کے لئے جنت رضوان کا۔ لیکن احسان کی روش پر چلنے والوں کے باب میں قرآن مجید نے فرمایا:

اور اللہ سلامتی کے گھر (جنت) کی طرف بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے جو نیک کام کرتے ہیں نیک جزا ہے۔ بلکہ (اس پر) اضافہ ہے۔ اور نہ ان کے چہروں پر (غبار اور) سیاہی چھائے گی۔ اور نہ ذلت و رسوائی۔ یہی اہلِ جنت ہیں۔ وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
(سوره يونس: 25 تا 26)

مذکورہ بالا آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ احسان کرنے والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے دو قسم کے اجر یعنی الحسنیٰ اور زیادۃ کا وعدہ فرمایا ہے۔

🚩الحسنیٰ اور زیادۃ:

تمام مفسرین قرآن اور ائمہ محدثین نے الحسنیٰ سے جنت قربت مراد لی ہے اور یہ دوسرے درجے پر فائز احسان والوں کا اجر ہے۔

اور اعلیٰ درجہ کے احسان پر قائم لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ان کے لئے اس سے اور بھی زیادہ ہے یعنی جنت تو ملے گی ہی مگر ایک نعمت اس جنت سے بھی بڑھ کر ملے گی اور وہ دیدارِ الٰہی ہے جس کا کوئی بدل نہیں اور وہ صرف اللہ کا فضل و احسان ہے۔
( رازی، تفسير الکبير)