🌹 امام الانبیاء علیہ السلام کا عفو و درگزر:


دشمن کو معاف کرنا، اسے اپنے سینے سے لگانا، اس کے بُرے عزائم کو بھول جانا، اس کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آنا، اسے اپنا گرویدہ بنا لینا، اپنا مقصد اس کے سامنے رکھ کر اسے اس کی طرف مائل کرنا، اسے زندگی گزارنے کے سچے اور حقیقی اصول بتانا، اسے دنیا میں بھی کامیابی کے راستے کی طرف لے کر جانا اور آخرت میں بھی کامیابی کے طور طریقے بتانا۔
یہ اس عظیم ہستی کا کام تھا جنہیں ﷲ پاک نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا۔
✨ جس نے ظلم و ستم کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کو روشنی میں بدل دیا۔
✨ کفر و شرک کی طنابیں اکھاڑ پھینکیں، صنم خانوں کی بنیادیں ہلا دیں،
✨ سسکتی انسانیت کو نئی زندگی عطا کی،
✨ پریشان دل کو راحت و سکون بخشا اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو صراطِ مستقیم دکھایا۔

▪اس عظیم ہستی کا نامِ نامی اسمِ گرامی نبی مکرم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ ﷲ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساری دنیا کے لیے معلم بنا کر بھیجا۔

▪ﷲ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کامل بنا کر مبعوث فرمایا اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام شعبہ ہائے حیات کی طرف اپنی امت کی مکمل راہنمائی فرمائی۔

⚡ رحم و کرم، جود و سخا، ایثار و قربانی، معاملات و معاشرت، ایفائے عہد و پیمان، خوش اخلاقی و خوش گفتاری، سادگی و غم خواری، عجز و انکساری، انصاف و مساوات، صبر و قناعت اور عفو و تحمل کا وہ درس دیا، جس کی نظیر رہتی دنیا تک کوئی پیش نہیں کر سکتا۔



💥 قاتلِ حضرت حمزہؓ، وحشی بن حرب:

اسلامی تاریخ کا ایک بد ترین حادثہ سیدالشُہدا حضرت حمزہؓ کی شہادت ہے۔ وحشی بن حرب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے چہیتے چچا حضرت حمزہؓ کو شہید کر ڈالا تھا۔ یہی وحشی بن حرب جب مشرف بہ اسلام ہوئے تو وہ اپنے وحشیانہ عمل کی معافی کے لیے دربارِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ مجھے معاف کر دیا جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وحشی! پہلے بتاؤ! میرے چچا کو کس طرح تم نے شہید کیا تھا۔؟
جب وحشی نے واقعہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں نم اور چہرہ سرخ ہو گیا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وحشی تمہارا قصور معاف ہے، لیکن تم میرے سامنے نہ آیا کرو، تمہیں دیکھ کر میرے پیارے چچا جان یاد آجاتے ہیں۔

💥 اہلِ طائف کی سنگ دلی:

طائف کی سنگلاخ زمین میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دینِ اسلام کے پُھول کھلانے کے لیے تشریف لے گئے تو مشرکین و کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اتنے پتھر برسائے کہ نعلینِ مبارک خون سے تر بہ تر ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے چلنا دشوار ہو رہا تھا، بالاخر فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کی،
یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اگر حکم ہو تو ان دونوں پہاڑوں کو ملادوں اور ان ناہنجاروں کو صفحۂ ہستی سے مٹادوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مجھے امید ہے ان کی آئندہ نسلوں میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جو خالص ﷲ کی عبادت کریں گے، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔
(بخاری و مسلم)


: 💥 نجرانی کا چادر کھینچنا:

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے۔ اچانک ایک دیہاتی نے آپ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادر مبارک کو پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ آپ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک گردن پر خراش آ گئی۔
وہ کہنے لگا:
اللہ تعالیٰ کا جو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم فرمائیے کہ اس میں سے کچھ مجھے مل جائے۔ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دیے، پھر اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔
(بخاری، کتاب فرض الخمس)

💥 قاتلِ حضرتِ زینبؓ، ہبار بن اسود:

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورِ نظر، راحتِ قلب و جگر حضرت زینبؓ اونٹ پر سوار ہو کر مدینہ کی طرف ہجرت فرما رہی تھیں۔ راستے میں ہبار بن اسود نے حضرت زینبؓ پر نیزہ اس شدت سے مارا کہ وہ کجاوے سے گر گئیں، جس کی وجہ سے آپؓ کا حمل بھی ساقط ہو گیا اور اسی حادثے ہی کی وجہ سے آپؓ ﷲ کو پیاری ہو گئیں۔ جب مشفق والد مکرم محسنِ امت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک یہ اندوہ ناک خبر پہنچی تو آپ انتہائی رنجیدہ ہوئے۔ اس کے بعد جب بھی حضرت زینبؓ کی یاد آتی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رخِ انور سرخ ہو جاتا۔ لیکن جب قاتلِِ زینبؓ ہبار بن اسود نے اسلام قبول کر لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معافی مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فراخ دلی سے اسے معاف فرما دیا۔


: 💥 ایک عرب کے ساتھ عفو و درگزر کا واقعہ:

حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ بیان کرتے ہیں کہ
ایک عرب نے ان سے ذکر کیا کہ جنگ حنین میں بھیڑ کی وجہ سے اس کا پاؤں آنحضرت کے پاؤں پر جا پڑا۔ سخت قسم کی چپل جو میں نے پہن رکھی تھی اس کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پاؤں بری طرح زخمی ہو گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکلیف کی وجہ سے ہلکا سا کوڑا مارتے ہوئے فرمایا :
عبد اللہ! تم نے میرا پاؤں زخمی کر دیا ہے۔
اس سے مجھے بڑی ندامت ہوئی، ساری رات میں سخت بے چین رہا کہ ہائے مجھ سے یہ غلطی کیوں ہوئی۔
صبح ہوئی تو کسی نے مجھے آواز دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں بلاتے ہیں۔ مجھے اور گھبراہٹ ہوئی کہ کل کی غلطی کی وجہ سے شاید میری شامت آئی ہے۔ بہر حال میں حاضر ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑی شفقت سے فرمایا:
کل تم نے میرا پاؤں کچل دیا تھا اور اس پر میں نے تم کو ایک کوڑا ہلکا سا مارا تھا اس کا مجھے افسوس ہے۔ یہ 80 بکریاں تمہیں دے رہا ہوں یہ لو اور جو تکلیف تمہیں مجھ سے پہنچی ہے اس کو دل سے نکال دو۔
(شرح السنۃ للبغوی باب جامع صفاتہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم)

💥 سہیل بن عمر کی معافی کا اعلان:

اسیرانِ بدر میں ایک شخص سہیل بن عمر تھا جو عام مجمعوں میں ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اشتعال انگریز اور گستاخانہ تقرریں کیا کرتا تھا۔ قیدی بن کر آنے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اسکے نیچے کے دانت اُکھڑوا دیجئے تاکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں ہجو اور گستاخانہ تقریر نہ کر سکے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اگر چہ میں نبی ہوں لیکن پھر بھی اگر کسی کا عضو بیکار کر دوں گا تو اس کیلئے روزِ قیامت جواب دہ ہوں گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سہیل بن عمر کو بھی تمام قیدیوں کی طرح معافی کا اعلان فرما دیا۔

💥 ابو محذورہ کو معاف کرنا:

حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فتح مکہ کے دن جب بیت اللہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دی تو ابو محذورہ جہمی اور چند دوسرے نوجوانوں نے ان کی اذان کا مذاق اڑایا اور اذان کی نقل اتاری۔ ابو محذورہ کی آواز بہت بلند اور سریلی تھی۔ جیسے ہی آپ نے اس کی آواز سنی تو انھیں حاضر ہونے کا حکم دیا۔
دریافت فرمایا کہ تم میں سے کون شخص ہے۔ جس کی آواز میں نے سنی ہے۔ سب جوانوں نے ابو محذورہ کی طرف اشارہ کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے روک لیا اور باقی جوانوں کو چلے جانے کا حکم دیا۔ ابو محذورہ آپ کے سامنے کھڑے ہوئے تھے اور ا پنے دل میں سوچ رہے تھے کہ مجھے قتل کر دیا جائےگا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ
ابو محذورہ اذان دو۔
چنانچہ میں نے بادل نخواستہ اذان دی۔ اذان سننے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ایک تھیلی عطا فرمائی جس میں چند درہم تھے اس کے بعد میرے سر، پیشانی، سینہ اور پیٹ پر ناف تک دست مبارک پھیرا۔ زبان مبارک سے میرے لئے برکت کی دعا کی۔
ابو محذورہ بیان کرتے ہیں کہ دستِ مبارک کا پھیرنا تھا کہ میرا دل آپ کے خلافت نفرت کی بجائے محبت واُلفت سے لبریز ہو گیا۔
میں نے عرض کیا:
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! مجھے مکہ کا موذن مقرر فرما دیجئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
آپ کو موذن مقرر کیا جاتا ہے۔
میں نے امیر مکہ عتاب بن اُسید کو اس بات کی اطلاع دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اذان دینا شروع کر دی اور پوری زندگی اس ذمہ داری کو نبھایا۔
(الاستیعاب)


💥 جادو کرنے والا اور زہر دینے والی:

لبید بن اعصم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جادو سے وار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ﷲ نے سب کچھ بتا دیا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی گرفت نہیں کی۔

اسی طرح خیبر میں ایک یہودن نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زہر دے کر مارنے کی کوشش کی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے انتقام نہیں لیا۔

💥 یومِ فتح مکہ اور درگزر کا بے مثال کارنامہ:

فتح مکہ کے دن وہ سارے مجرمین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سرنگوں ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو، آپ کے اہل خانہ کو، صحابہ کرامؓ کو اور کم زور مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھائے تھے۔

وہ ابوسفیان بھی ہے جس نے غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق کی لڑائیوں میں کفار و مشرکین کی قیادت کی تھی، اور نہ جانے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کتنی ہی مرتبہ تہہ تیغ کرنے کی ناپاک جسارت کی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تو ہر مجرم سے بدلہ لے سکتے تھے، اگر چاہتے تو مکہ کی گلیوں میں خون کی ندیاں بہا دیتے، مگر قربان جائیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
جاؤ! آج تم سب آزاد ہو، آج کسی سے کسی طرح کا بدلہ نہیں لیا جائے گا، جو ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے گا آج اس کو بھی امن، جو ہتھیار ڈالے گا اس کو بھی امن اور جو دروازہ بند کر لے گا اس کو بھی امان ہے۔



ان تمام واقعات و حادثات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عفو و تحمل کی کتنی قوت تھی۔ دنیا میں
✨ کون ہے جو اپنی لاڈلی بیٹی کے قاتل کو فراخ دلی سے معاف کر دے؟؟؟
✨ کون ہے جو شیرِاسلام اور اپنے مشفق چچا کے قاتل سے درگزر کر دے ؟؟؟
✨ کون ہے جو پتھروں سے لہولہان کرنے والوں کو بخش دے؟؟؟
✨ کون ہے جو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے زہر دینے والے سے انتقام نہ لے؟؟؟
✨ کون ہے جو ہلاک کرنے کی کوشش کرنے والے کو اُف تک نہ کہے؟؟؟
✨ کون ہے جو دشمن سے آسانی کے ساتھ بدلہ لینے کی طاقت و قدرت کے باوجود بدلہ نہ لے؟؟؟

⚡ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عفو و تحمّل کا وہ نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا، جو رہتی دنیا تک مثال رہے گا۔

⚡ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمانِِ خداوندی کے اس قول پر مضبوطی سے عمل کر کے دکھایا کہ معاف کرنے کی عادت اپناؤ، نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ نہ لگاؤ۔
(الاعراف)

⚡ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں:
ﷲ کی قسم! رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ذاتی معاملے میں کبھی کسی کو سزا نہیں دی، لیکن جب ﷲ کی حدود کو کوئی توڑتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو ﷲ تعالی کے فرمان کی وجہ سے سزا دیتے تھے۔
(بخاری شریف)

▪ ہم غلامانِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چاہیے کہ اپنے اندر وہ تمام صفات پیدا کریں جو محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تھیں۔ خصوصاً قوتِ عفو و تحمل اور اخلاقِ حسنہ کہ یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ اپنوں کے ساتھ تو انسان اچھائی کرتا ہی ہے لیکن دشمنوں کے ساتھ اگر عفو و درگزر کا معاملہ کیا جائے تو یہ اعلیٰ خوبی ہے۔ آج کے اس دور میں برداشت اور صبر و تحمل کی اشد ضرورت ہے۔