🌹 عاجزی، تواضع و انکساری کے چند واقعات:


💥 حضرت عمر فاروقؓ کی عاجزی کا واقعہ:


ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ دربار کا وقت ختم ہونے کے بعد گھر آئے اور کسی کام میں لگ گئے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا۔
امیر المومنین! آپ فلاں شخص سے میرا حق دلوا دیجئے۔ آپ کو بہت غصہ آیا اور اس شخص کو ایک دُرا پیٹھ پر مارا اور کہا:
جب میں دربار لگاتا ہوں تو اس وقت تم اپنے معاملات لے کر آتے نہیں اور جب میں گھر کے کام کاج میں مصروف ہوتا ہوں تو تم اپنی ضرورتوں کو لے کر آ جاتے ہو۔

بعد میں آپ کو اپنی غلطی کا اندازہ ہوا تو بہت پریشان ہوئے اور اس شخص کو (جسے درا مارا تھا) بلوایا اور اس کے ہاتھ میں درا دیا اور اپنی پیٹھ آگے کی کہ مجھے درا مارو۔ میں نے تم سے زیادتی کی ہے۔

وقت کا بادشاہ، چوبیس لاکھ مربع میل کا حکمران، ایک عام آدمی سے کہہ رہا ہے۔ میں نے تم سے زیادتی کی مجھے ویسی ہی سزا دو۔
اس شخص نے کہا:
میں نے آپ کو معاف کیا۔
آپ رضی اللہ عنہ نے کہا!
نہیں، نہیں کل قیامت کو مجھے اس کا جواب دینا پڑے گا تم مجھے ایک درا مارو تا کہ تمہارا بدلہ پورا ہو جائے۔
آپ رضی اللہ عنہ روتے جاتے تھے اور فرماتے:
اے عمر تو کافر تھا، ظالم تھا، بکریاں چراتا تھا، خدا نے تجھے اسلام کی دولت سے مالا مال کیا اور تجھے مسلمانوں کا خلیفہ بنایا، کیا تو اپنے رب کے احسانوں کو بھول گیا؟؟؟ آج ایک آدمی تجھ سے کہتا ہے کہ مجھے میرا حق دلاؤ تو تُو اسے درا مارتا ہے۔ اے عمر! کیا تو سمجھ بیٹھا ہے کہ مرے گا نہیں، کل قیامت کے دن تجھے اللہ کو ایک ایک عمل کا حساب دینا پڑے گا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسی بات کو دھراتے رہے اور بڑی دیر روتے رہے۔


💥حضرت علیؓ کا کثرت سے صدقہ کرنے کے باوجود عاجزی میں رہنا


اللہ کے سامنے حضرت علیؓ کی تواضع و انکساری کے بارے میں روایت کی گئی ہے کہ آپ کثرت کے ساتھ غربا اور ضرورت مندوں کی مدد کیا کرتے تھے۔

ایک دن ایک شخص نے تنقید کے طور پر آپ سے عرض کیا:
آپ اس قدر افراط کے ساتھ صدقہ کیوں دیا کرتے ہیں، اپنے لیے کوئی چیز کیوں نہیں بچاتے؟
آپ نے جواب دیا:
ہاں! خدا کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اللہ تعالی میرے انجام دیئے ہوئے کسی عمل یا فریضے کو قبول کر رہا ہے تو میں اس افراط کے ساتھ خرچ کرنے سے پرہیز کرتا۔ لیکن مجھے نہیں معلوم کہ میرے اعمال بارگاہِ الٰہی میں قبول ہو رہے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ مجھے اس بارے میں اطلاع نہیں۔ اس لیے (راہِ خدا میں) اس قدر خرچ کرتا ہوں، تاکہ ان میں سے کوئی ایک قبول ہو جائے۔
( الغاراتج ۱۔ ص۔ ۹۱۔ از ابراہیم بن محمد ثقفی)

▪یہ واقعہ اللہ کے مقابل حضرت علیؓ کی انتہائی تواضع و انکساری اور آپ کےخضوع و خشوع کو ظاہر کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ آپ توحیدِ افعالی کی عظیم بلندیوں پر پہنچے ہوئے تھے اور اپنے آپ کو خدا کے سامنے انتہائی ناچیز سمجھتے تھے۔


💥 امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ایک دن حضرت علیؓ سواری پر سوار کہیں سے گزر رہے تھے۔ چند لوگ آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ آپؓ نے ان کی طرف رخ کیا اور فرمایا:
کیا تم لوگوں کی کوئی حاجت ہے؟؟؟
ان لوگوں نے عرض کیا:
نہیں، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ آپؓ کے ہمراہ اسی طرح چلیں۔
آپؓ نے فرمایا:
(جاؤ، واپس چلے جاؤ، اس طرح لوگوں کے پیچھے پیچھے چلنا (ان کے) قلوب کی تباہی کی وجہ بن جاتا ہے۔
(مناقب ابن شہر آشوب ج۲۔ ص۱۰۴)

⚡ یعنی ممکن ہے یہ عمل اس شخص کو خود پسندی میں مبتلا کر دے جس کے ساتھ یہ طرزِ عمل اختیار کیا جا رہا ہے اور اس سے عاجزی و انکساری کی خصلت چھین لے اور نتیجے میں معنوی لحاظ سے اسکی روح اور قلب تباہ اور بیمار ہو جائے۔


💥 حضرت جنید بغدادیؒ کا واقعہ:


حضرت جنید بغدادیؒ ایک دن یمن کے شہر صنعا کے جنگلوں میں سے گزر رہے تھے۔
وہاں انہوں نے ایک بوڑھے جنگلی کتے کو دیکھا جس کے دانت گر چکے تھے۔ بے چارہ شکار کرنے سے معذور تھا۔ دوسروں کے کیے ہوئے بچے کُھچے شکار پر گزارہ کرتا اور اکثر بھوکا رہتا تھا۔
حضرت جنید بغدادیؒ نے اسے دیکھا تو آپ کو اس پر بڑا ترس آیا اور جو کھانا ساتھ تھا، آدھا اس کو کھلا دیا۔ اس کی نیکی کے ساتھ ساتھ آپ روتے جاتے اور فرماتے جاتے تھے:
اس وقت تو میں بظاہر اس کتے سے بہتر ہوں لیکن کسے معلوم ہے کہ کل میرا درجہ کیا ہو گا۔
اگر میں باایمان رہا تو خدا کی عنایت اور رحم کا مستحق قرار پاؤں گا۔ بصورت دیگر یہ کتا مجھ سے بہتر حالت میں ہو گا کیونکہ اس کو دوزخ میں ہر گز نہیں ڈالا جائے گا۔

اللہ کے نیک بندوں نے عاجزی اختیار کر کے ہی اعلیٰ رتبہ پایا ہے۔ اس واقعے کا حاصل یہ ہے کہ انسان اشرف المخلوقات اسی صورت کہلانے کا حق دار ہے جب وہ عاجزی اختیار کرے اور یہی مقام انسانیت ہے۔ عاقبت اسی کی بخیر ہو گی جو آخری سانس تک عاجزی کے ساتھ راہِ راست پر چلتا رہے۔


💥 ایک نوجوان کا واقعہ:


حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ قسطنطنیہ کے ساحل پر ایک ایسا نوجوان آیا جس کی پیشانی نور سے چمک رہی تھی۔ لوگوں نے اس نوجوان کو بہترین اخلاق والا پایا اور اسے نہایت عزت و احترام کے ساتھ نزدیکی مسجد میں لے گئے۔

امام مسجد بھی اس نوجوان کے اخلاق سے متاثر ہوا اور اس کے کھانے پینے کا انتظام کیا اور اسے رہنے کے لئے مسجد سے ملحقہ ایک حجرہ بھی دیا۔

ایک دن امام مسجد نے اس نوجوان سے کہا کہ
صاحبزادے! تم کوئی خاص کام تو کرتے نہیں ہو۔ مسجد کی صفائی کر دیا کرو اور یہاں موجود کوڑا کرکٹ اٹھا لیا کرو۔

امام مسجد کی بات سننے کے بعد وہ نوجوان مسجد سے ایسا غائب ہوا کہ دوبارہ مسجد میں نظر نہیں آیا۔

اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد امام مسجد ایک دن بازار میں ضروریاتِ زندگی کے کچھ سامان کی خریداری کے لئے تشریف لے گئے تو انہیں وہی نوجوان بازار میں نظر آیا۔

امام مسجد نے اس کی ملامت (برا بھلا) کی اور اس سے کہا کہ تم کام چور ہو، تم ایک معمولی کام نہیں کر سکے جبکہ میرا مقصد مسجد کی خدمت تھا۔
امام مسجد کی بات سن کر اس نوجوان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ کہنے لگا کہ
امام صاحب! مسجد سے چلا جانا میری کاہلی یا کام چوری نہیں بلکہ حقیقت یہ تھی کہ مجھے مسجد میں اپنے سوا کوئی گندگی نظر نہ آئی۔ چنانچہ میں نے خیال کیا کہ اللہ عزوجل کے گھر کو اس گندگی سے پاک کر دوں۔
بے شک دونوں جہانوں کی سعادتیں حاصل کرنے کے لئے اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہے۔
(حکایاتِ شیخ سعدی)


▪ حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں عجز و انکساری کی بہترین مثال بیان کر رہے ہیں۔

⚡ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عجز و انکساری سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں اور اللہ عزوجل کو بھی عجز و انکساری بہت پسند ہے۔

⚡ ہمارے آقا تاجدارِ عرب و عجم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ساری زندگی عاجزی کے ساتھ گزاری اور ہمیں بھی اس کی تعلیم دی۔

⚡ غرور و تکبر صرف اللہ عزوجل کی ذات کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا مالک، خالق اور رازق ہے۔

💥 ایک بزرگ کا واقعہ:


پاک و پاکیزہ عارف ”ورام ابن ابی فراس“ بیان کرتے ہیں کہ ایک شہر میں اولیاءاللہ میں سے ایک عمر رسیدہ بزرگ رہا کرتے تھے۔ اس شہر میں زلزلہ اور طوفان آیا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ ہلاک ہو گئے اور بہت سے بے گھر ہو کر مصائب و ابتلا کا شکار ہو گئے۔ ان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ان بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور مشکلات کے حل کے لیے ان سے دعا کی درخواست کرتے ہیں۔

یہ لوگ جمع ہوکر ان پارسا بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی بدحالی اور ابتر صورتحال کا ذکر کیا اور ان سے دعا کی درخواست کی۔

یہ بزرگ خدا کے سامنے انتہائی فروتنی اور عاجزی کا اظہار کرنے لگے اور روتے ہوئے ان لوگوں سے کہا:
کہیں ایسا نہ ہو کہ میں خود ہی اس ہلاکت اور تمہارے مصائب کا ذمے دار ہوں۔ لہٰذا اس فقیر ناچیز اور گناہ گار سے دعا اور اسکی استجابت کی کیا امید کی جاسکتی ہے۔
(تنبیہ الخواطر۔ ص ۳۰۳ازورام بن ابی فراس)