🔥 حرص اور لالچ کے نقصانات:



💫 حرص اور لالچ کے مندرجہ ذیل نقصانات ہیں۔

⚡1. حرص انسان کو ابدی رنج و زحمت میں مبتلا کر دیتی ہے۔

⚡2. حریص کبھی بھی سیر نہیں ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اگر پوری دنیا کا مالک بھی بنا دیا جائے پھر بھی فقیر ہے۔

⚡3. ایک حریص انسان دنیا کی حوس میں فقیروں کی زندگی گزارتا ہے اور فقیروں کی زندگی مرتا ہے۔ لیکن روزِ قیامت اسکا محاسبہ اہلِ ثروت افراد میں ہوتا ہے۔

⚡4. حرص انسان کو ہلاکت میں ڈال دیتی ہے کیونکہ حریص انسان دنیا کی لالچ زرقیت و برقیت میں اندھا ہو جاتا ہے اور اپنے ارد گرد خطرات کو نہیں دیکھ پاتا ہے اور ہر شے کو جلدی حاصل کیے جانے کے نتیجہ میں ذلیل و خوار ہوتا رہتا ہے۔

⚡5. حرص و لالچ انسان کی آبرو کو برباد کر دیتی ہے اور اسکی عزت دوسروں کی نظر میں گِرا دیتی ہے کیونکہ لالچی انسان اپنی لالچ کے حصول میں دنیاوی اور سماجی ملاحظات کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے اور طمع و حرص کی گلے میں بندھی زنجیر میں ہر سو ذلیل و خوار ہوتا رہتا ہے۔

⚡6. حرص و لالچ انسان کو ذلیل و خوار کر دیتی ہے۔ مختلف گناہوں اور رزالت میں ملوث کر دیتی ہے مثلا جھوٹ، خیانت، ظلم اور دوسروں کا مال غصب کرنا۔ اگر انسان چاہے کہ اللہ تعالیٰ کے حلال و حرام کردہ کو سامنے رکھ کر کام کرے تو کبھی بھی حرص کے معاملہ میں کامیاب نہیں ہو سکتا ہے۔

⚡7. حرص انسان کو اللہ سے دور کر دیتی ہے۔ اس کو لوگوں کے درمیان کم قیمت بناتی ہے۔ حرص، انسان کے سکون و آرام کو ختم کر دیتی ہے اور اسکی زندگی کی لذتوں کو برباد کر دیتی ہے اور اس کے لئے ہزار دشواریاں اور مشکلات پیدا کر دیتی ہے۔

⚡8. ایک حریص اور لالچی شخص تمام مشکلات اور پریشانیوں سے دولت جمع کرتا ہے لیکن اس سے فائدہ اٹھانے والے دوسرے افراد ہوتے ہیں۔

⚡9. لالچ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے بارے میں بُرا خیال رکھنے کا نتیجہ ہے اور اسکا محصول اس کا بُرے خیال پر مصر (اصرار) ہونا ہے۔


🔥 حرص و لالچ کا علاج:

▪1. صبر و قناعت کرنا:
اس قلبی مرض کا علاج صبر و قناعت کے ذریعے سے ممکن یعنی جو کچھ اللہ کی طرف سے بندے کو عطا کیا جائے اس
پر شکر بجا لائے اور اللہ کی رضا پر راضی ہو کر اپنے اندر بنائے ہوئے لالچ کے قلعے کو گرا دے۔
اور صبر و رضا کے ذریعے سے زندگی گزارے کہ اللہ تعالیٰ نے جو دیا اس پر قناعت اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے پر قناعت اختیار کرنی چاہیے۔اسطرح صبر و رضا سے حرص و لالچ کے اندھیر بادل چھٹ جاتے ہیں۔


▪2. اخراجات میں کمی لانا:

آدمی اخراجات کو گھٹا کر کم سے کم حد تک لے آئے۔ پُر تکلف اور ہمیشہ مرغن کھانوں کی بجائے سادہ غذا کو ترجیح دینی چاہئے اور بہت زیادہ عمدہ اور بھڑکیلا لباس کی بجائے سادہ لباس زیب تن کریں کیونکہ اس طرح کی چیزیں بغیر لالچ اور حرص کے بھی میسر آ سکتی ہیں۔

سرکارِ دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ
آدمی کی نجات تین چیزوں میں ہے۔ اول یہ کہ ظاہر اور باطن میں اللہ عزوجل سے ڈرتا رہے۔ دوسرا امیر ہو یا فقیر خرچ میں میانہ روی اختیار کرے اور تیسرے غم ہو یا خوشی ہر حال میں انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ مزید فرمایا:
جو شخص میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دنیا سے بے نیاز کر دیتا ہے اور جو بے دریغ خرچ کرتا ہے اسے دوسروں کا محتاج بنا دیتا ہے اور فرمایا خرچ کرتے وقت تدبیر و آہستگی سے کام لو کہ یہ اقدام بجائے آدھی روزی کی حیثیت رکھتا ہے۔


▪3. مستقبل کیلیے پریشان نہ ہوں:

لالچ کا علاج یہ بھی ہے کہ جب ایک دن کیلئے مال بقدر کفایت میسر آ جائے تو اگلے روز کیلئے تشویش میں پڑے رہنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ یہ شیطان کی طرف سے ہے۔ جو مستقبل کیلئے پریشان رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور آدمی کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ اگر زندگی طویل ہوئی تو پھر کیا کرو گے اور کل کو کچھ ہاتھ نہ آیا تو کھاؤ گے کہاں سے، پس کل کیلئے آج ہی کوشش کر لو، بہرحال شیطان ہمیں کل کی مفلسی کا خوف دلا کر آج پریشانی میں مبتلا رکھنا چاہتا ہے۔ پھر وہ اپنے دل میں بندے کی حماقت پر پھنساتا ہے کہ دیکھو کل کا دن اسے دیکھنا بھی نصیب ہو گا یا نہیں لیکن یہ کس قدر اس میں گھائل ہوتا جا رہا ہے۔


▪4. مال کی کثرت مصیبت ہے:

ایک علاج یہ ہے کہ آدمی یہ سوچے کہ زیادہ مال کتنی بڑی مصیبت اور جنجال ہے کہ اس کی زیادتی اور فراوانی جہاں دنیا میں پریشانی کا مؤجب ہوتی ہے۔ وہاں آخرت میں بھی اس کا حساب دینا پڑے گا۔ کیونکہ غریب پانچ سو سال پہلے جنت میں چلا جائے گا۔
بہتر یہ ہے کہ ہمیں اپنے سے کم لوگوں کو پیشِ نظر رکھیں تاکہ طبیعت شکر ادا کرنے کی طرف مائل رہے۔ امیروں کی طرف نہ دیکھیں۔

کیونکہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
ہمیشہ ایسے لوگوں کو دیکھا کرو جو تم سے دولت کے مرتبے میں کمتر درجے کے ہوں کیونکہ شیطان اکسانے کی کوشش میں رہتا ہے کہ دیکھ فلاں فلاں لوگ تجھ سے زیادہ دولت مند ہیں ان میں کیا سرخاب کا پر لگا ہوا ہے؟؟؟ آخر قناعت کیلئے تو ہی رہ گیا ہے؟؟؟

اور جب آدمی پرہیزگاری کی طرف رجوع کرتا ہے تو شیطان اسے بہکاتا ہے کہ آیا تو بڑا پرہیزگار، وہ دیکھ فلاں عالم تو اتنا پرہیزگار نہیں ہے۔ اس میں تو فلاں فلاں خامیاں پائی جاتی ہیں اگر یہ بھی بخشا گیا تو تم بھی بخشے جاؤ گے لٰہذا اب پرہیزگاری کی کیا پڑی ہے۔


▪5. لالچ کی وجہ تلاش کرنا:

لالچ کا ایک علاج یہ ہے کہ آدمی یہ تلاش کرے کی اس کو حرص یا لالچ کس وجہ سے ہے؟؟؟ اگر کھانے پینے کی خاطر ہے تو گدھے اور بیل وغیرہ اس سے کہیں زیادہ پیٹ بھر کر کھانے کے عادی ہوتے ہیں اگر شان و شوکت پوشی مطلوب ہے تو کتنی غیر قومیں اس ضمن میں آگے بڑھی ہوئی ہیں غرض ہر برائی کیلئے متبادل مثال کسی بُری شے میں دکھائی دے گی۔ ہاں اگر طمع سے ہاتھ اٹھا لے اور تھوڑے پر صبر کرنا سیکھ لے تو اسے اپنی مثال انبیاءکرام علیہم السلام اور اولیاءکرام میں دکھائی دے سکتی ہے۔


▪6. شیطان کے وار سے الرٹ رہیں:

شیطان کا تو کام ہی ہے کہ دنیوی امور میں ہمیشہ ان لوگوں کو سامنے لاتا ہے جو ہم سے بلند درجہ کے مالک ہوتے ہیں تاکہ ہم حرص اور حسد میں مبتلا رہیں اور دینی امور میں ان لوگوں کو نمونہ بنا کر پیش کرتا ہے جو ہم سے بھی گئے گزرے ہوتے ہیں تاکہ ہم غافل سے غافل تر ہو جائیں حالانکہ اصل معاملات اس کے بالکل برعکس ہیں یعنی دینوی معاملہ میں ہمیں بزرگانِ دین پر نظر رکھنی چاہیئے جو ہم سے بلند مرتبہ والے ہوئے ہیں تاکہ ہمیں اپنے اعمال اور کوتاہیوں سے آگاہی حاصل ہوتی رہے اور دنیوی اعتبار سے ہمیں فقیروں اور غریبوں کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے تاکہ ان کی مفلسی کو دیکھ کر اللہ عزوجل کا شکر ادا کر سکیں۔