🔥 مذاق کرنے کے آداب:


مذاق کرنا سنت و جائز ہے، البتہ اس کے لئے کچھ آداب ہیں جن کا پاس و لحاظ ضروری ہے، اس لئے ہر مسلمان کو چاہیئے کہ ان آداب کو جانے اور مذاق کرتے وقت انہیں اپنے سامنے رکھے، علماء نے قرآن و حدیث اور آثار صحابہ و تابعین پر نظر رکھ کر درج ذیل آداب متعین فرمائے ہیں۔

🌾1. مذاق میں اللہ تعالی کی ذات پہ جھوٹ نہ باندھا جائے:

مذاق میں اللہ تعالی کی ذات، اس کے احکام، آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وغیرہ کے ساتھ مذاق نہ ہو، کیونکہ یہ کفر اور دین سے ارتداد ہے۔

✨ ارشاد ربانی ہے:
اور اگر تم ان سے (اس بارے میں) دریافت کرو تو کہیں گے ہم تو یوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے۔ کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے، بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔
(سورۃ التوبہ: 65، 66)

🌾2.مذاق میں ناجائز کام سے بچا جائے:

جیسے کسی مسلمان کو ڈرانا، خواہ بڑا ہو یا بچہ ہو جیسا کہ زیر بحث حدیث سے واضح ہے۔

✨ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

کوئی شخص کسی کا سامان (چھپا کر) نہ لے خواہ مذاق میں ہو یا حقیقت میں۔
(سنن ابو داود)

🌾3. گالی دینا:
مذاق میں گالی دینا بڑی عام بیماری ہے حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔
(بخاری و مسلم)

🌾4. جھوٹ بولنا:
یہ بیماری بھی مذاق میں بہت عام ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
جو شخص مذاق میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑ دے میں اس کے لئے جنت کے وسط میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں۔
(سنن ابو داود)

اسی طرح جھوٹے مذاق اور چٹکلے لوگوں میں بہت عام ہیں بلکہ مذاق کا 80 فیصد حصہ اسی پر مشتمل ہوتا ہے۔

✨نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے اس کا برا ہو اس کا برا ہو۔
(سنن ابوداود)

🌾5. مذاق میں غیبت وچغلی کرنا اور لوگوں کا مذاق اڑانا:
کیونکہ مذاق اڑانا کسی بھی صورت میں بھی جائز نہیں ہے، ارشاد باری تعالی ہے:
اے ایمان والوں! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔
الحجرات)

🌾6. لوگوں کے مقام و مرتبہ کا لحاظ رکھا جائے:

کیونکہ عالم کا احترام واجب، بڑوں کی عزت فرض، بوڑھوں کی توقیر اللہ تعالی کو محبوب اور والدین کے مقام کو پہچاننا ضروری ہے، اس لئے ایسے لوگوں سے مذاق بے ادبی اور غیر اخلاقی ہے۔

✨ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وہ ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے اور ہمارے عالم کے حق کو نہ پہنچانے۔
(مسند احمد)

🌾7. مذاق میں مقام و زمان کا لحاظ رکھا جائے :
ہر جگہ اور ہر وقت مذاق کے لئے مناسب نہیں ہوتا جیسے دینی مجلس، نماز کا وقت، ناصح کی نصیحت کے وقت اس کی بات کو مذاق پر ٹالنا وغیرہ ۔

🌾8. مذاق کھانے میں نمک کی طرح ہو:
ایسا نہ ہوکہ ہر وقت و ہر جگہ مذاق کو اپنا پیشہ اور عادت بنا لے، سنن ابو داؤد کی درج ذیل حدیث کو علماء نے اسی پر محمول کیا ہے:
اپنے بھائی سے نہ لڑائی کرو اور نہ مذاق کرو اور نہ ہی اس سے وعدہ کرکے وعدہ خلافی کرو۔
(سنن ابوداود)

مختصرایہ وہ آداب ہیں، مذاق میں جن کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، حدیثوں میں وارد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مذاق کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مذاق کبھی ایسا نہ تھا جس میں جھوٹ ہو اور نہ ایسا تھا جو وقار سے گرا ہو اور اس میں فحش گوئی پائی جائے اور نہ ہی ہر وقت مذاق آپ کی عادت شریفہ تھی۔

🌹 نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مزاح شریف:


آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب اور ازواج سے مزاح فرمایا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ سے مذاق کے تمام حدود و قیود کا علم ہوتا ہے۔

🌷چند احادیث درج ذیل ہیں:

◼حدیث نمبر 1:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی سارے دانت کھول کر اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کا حلق نظر آنے لگے، بلکہ آپ صرف تبسم فرماتے تھے۔
(بخاری)

🌿وضاحت:
اس کا مطلب یہ نہیں کہ قہقہ لگانا ممنوع ہے لیکن بہرحال ایک سنجیدہ مزاج شخصیت کو ٹھٹھے مار کر ہنسنا زیب نہیں دیتا۔

◼حدیث نمبر 2:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ ہم سے خوش طبعی کی باتیں کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (ہاں لیکن ) میں حق بات ہی کہتا ہوں۔
(ترمذی)

🌿وضاحت:
یعنی مذاق میں بھی کوئی جھوٹ، فحش یا غیر اخلاقی بات کرنا جائز نہیں اور جو بات ہو وہ حق ہو۔

◼حدیث نمبر 3:
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سواری طلب کی تو آپ نے (مذاق میں) اس سے کہا کہ میں تو تمہیں اونٹ کا بچہ دونگا۔ اس شخص نے کہا کہ میں اونٹ کے بچے کا کیا کرونگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔
(ترمذی)

◼حدیث نمبر 4:
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت انسؓ کو کہا یا ذوالاذنین یعنی اے دو کانوں والے۔
(ترمذی)

🌿وضاحت:
کیونکہ ہر شخص کے دو کان ہوتے ہیں اس لئے اس میں تحقیر بھی نہیں اور تفنن طبع(مزاح) بھی ہے۔

◼حدیث نمبر 5:
حضرت حسنؓ سے روایت ہے کہ ''ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور جنت میں داخلے کی دعا کی درخواست کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بوڑھی عورت جنت میں داخل نہیں ہوسکتی۔ وہ روتی ہوئی واپس ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے کہہ دو کہ وہ جنت میں بڑھاپے کی حالت میں داخل نہیں ہو گی بلکہ اللہ تعالیٰ سب اہلِ جنت عورتوں کو نوعمر کنواریاں بنا دیں گے اور حق تعالیٰ کی اس آیت میں اس کا بیان ہے۔ جس کا بیان ہے کہ ہم نے ان (جنتی) عورتوں کو خاص طرز پر بنایا ہے کہ وہ کنواری ہیں۔
(شمائل ترمذی)

🌿وضاحت:
یہاں اس طرح کے مزاح کرنے کا مقصد گویا جنت کی طلب کو بڑھانا بھی تھا۔ جو کہ نیک اعمال کی طرف رغبت دلانا ہے۔


◼ حدیث نمبر: 6

حضرت زید بن اسلمؓ راوی ہیں کہ ام ایمن نامی عورت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے شوہر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (کسی کام سے) بلا رہے ہیں۔ تو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہار ا شوہر وہ ہی ہے نا جس کی آنکھوں میں سفیدی ہے۔ (آنکھوں میں سفیدی محاورہ ہے جو بے شرم ہونے کے مطلب میں استعمال ہوتا ہے) اس نے عرض کی یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
واللہ! میرے شوہر کی آنکھوں میں سفیدی نہیں ہے۔ تو میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سفیدی تو ہر آنکھ میں ہوتی ہے (جو سیاہ دائرے کے ارد گرد ہے)۔

🌿وضاحت:
یہاں گویا مزاح فرمانے کا مقصد محظوظ کرنا بھی تھا، اور ساتھ ساتھ گمان نیک رکھنے کا بھی درس پوشیدہ تھا۔

◼ حدیث نمبر 7:
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ ''میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنھا ہمارے گھر موجود تھے۔ میں نے ان کے لئے حریرہ (دودھ اور آٹا میں بنا ہوا کھانا) بنایا۔ پھر میں نے اسے سودہ ؓ کے سامنے رکھا تو انہوں نے کہا کہ مجھے تو حریرہ پسند نہیں۔ تو میں نے ان سے کہا کہ کھاؤ ورنہ میں آپ کے چہرے پر حریرہ مل دوں گی۔ سیدہ سودہ ؓ نے پھر کھانے سے انکار کیا تو میں نے ان کے چہرے پر حریرہ مل دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم دونوں کے درمیان بیٹھے تھے (اور منع نہیں فرمایا، بلکہ لطف اندوز ہوئے اور) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھوڑا جھک گئے تاکہ سیدہ سودہ ؓ بھی میرے چہرے پر حریرہ مل دیں۔ چنانچہ سیدہ سودہ ؓ نے بھی حریرہ لیا اور میرے چہرے پر مل دیا اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سب دیکھ کر ہنستے رہے۔

🌿 وضاحت:
پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس قدر پر لطف اور مزاح فرمانے والے ہیں۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے گھر میں خوش طبعی کی اجازت دی ہوئی تھی۔ بلکہ خود پیارے آقا دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مزاح میں شامل ہوا کرتے۔۔

🌟 پیارے آقا دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حیات طیبہ کی مندرجہ بالا امثال میں سے کسی بھی واقعہ کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں تھا نہ ہی کسی کا مزاق اڑانا، بلکہ مقصد صرف خوش طبعی و خوش دلی تھا۔